اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں!

اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں!

میرا اور آپ کا پیارا وطن، پاکستان، اللہ اس کو سلامت رکھے اور ہمیشہ قائم رکھے۔ہمارے چلن تو ایسے نہیں نظر آتے مگر پھر بھی اللہ سے اچھی امید رکھنی چاہیے۔اب اپنی عدالتوں کو ہی دیکھ لیجئے۔ ایک جج حضرت ناصر رانا، جنہیں کچھ عرصہ پہلے سپریم کورٹ نے اپنے عہدہ کے قابل نہیں سمجھا تھا، یہ فیصلہ سنا یا جس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو قید کی سزا سنائی۔ خان کو چودہ سال او ر بیوی کو سات سال۔ ان کا جرم کیا تھا؟ خان کا جر م یہ تھا کہ اس نے ملک ریاض کی عطا کردہ زمین پر القادر یونیورسٹی بنائی جس کا مقصد اعلیٰ حضور صلی اللہ وﷺ کی حیات پر تحقیق کرنا اورانکی ذات مبارکہ کی تعلیمات سے لوگوں کو رو شناس کروانا تھا۔ ان کی یہ حرکت واقعی اس لائق تھی کہ اس نام نہاد اسلامی ملک میںایسی یونیورسٹی بنانا ، ایک جرم تھا جس کا انہیں پتہ ہی نہیں تھا۔ ایک لاکھ نوے ہزار پونڈ کی رقم جو ملی وہ سیدھی سپریم کورٹ میں گئی۔ جہاں کئی سال کا سود چیف جسٹس اور ان کے ساتھیوں نے بغیر ڈکار لیے ہضم کیا۔ پھر وہ رقم سرکاری خزانے میں بھجوا دی گئی۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ کو ایک ٹوٹی پینی کا فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے القادر یونیورسٹی کو چلایا جہاں پاکستان کے ہر صوبے سے اور دوسرے اسلامی ملکوں سے طالب علم آ کر پڑھ رہے ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ جس کا کوئی سر پیر نہیں، ملک کے اصلی حاکموں کے اشارے پر دیا گیا جو نہیں چاہتے کہ عمران خان کو جیل سے رہائی ملے جس میں وہ ایک سال سےزیادہ پابند زنجیر و سلاسل ہے۔قصور سراسر خان کا ہے۔ اسے کس نے کہا کہ تم اسلام کی خدمت کرو۔ ایسے بندے کی سزا دشمنوں نے موت لکھی ہوئی ہے۔جب فروری 2023کے انتخابات ہونے والے تھے، ایک ریلی میں خان پر گولیاں چلائی گئیں۔ جن سے وہ زخمی تو ہوئے مگراللہ کی مہربانی سے جان بچ گئی۔اس کی وجہ، جیسے کہ عرض کیا ، ان کے دشمن کا وہ وعدہ ہے جو اس نے اسرائیل میں اپنی کابینہ سے کیا ہوا ہے کہ کسی ایسے اسلامی قائد کو جو مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کرے اور ان کے لیے نمایاں کام کرے،تو اس کو زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا۔خان نے تو اقوام متحدہ میں جا کر مسلمانوں کی وکالت کی، اور اس کوملائشیا میں مسلمانوں کی عالمی تنظیم کا سربراہ بنانے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ مدتوں بعد مسلمانوں کو ایک قابل اور نڈر قائد ملا تھا وہ اس پر جان نچھاور کرنا چاہتے تھے۔لیکن اسرائیل نے پاکستانی فوج کے ذریعہ اس خطرہ کو ختم کرنے کا پورا پروگرام بنا لیا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ قائد پاکستان میں انتہائی مقبول عام تھا۔ اس کی سیاسی پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کی جس سے اس کی حکومت باآسانی بن سکتی تھی۔لیکن پاکستان کے فوجی جرنیلوں کو حکم تھا کہ نہ صرف خان کو قید میں رکھو، بلکہ اس کی پارٹی کا بھی قلع قمع کر دیا جائے۔یہ حکم اسرئیل خود نہیں دیتا تھا بلکہ اپنے غلام ملک ریاستہائے متحدہ امریکہ سے دلواتا تھا۔
ٖفوج نے خان پر بے شمار مقدمے بنائے کہ کسی نہ کسی میں اس کو موت کی سزا سنا دی جائے گی لیکن یہ سب مقدمے بے بنیاد اور من گھڑت تھے۔ ان میں سے کسی کو بھی ثابت کرنا ناممکن تھا۔ اگر چھوٹی عدالتوں میں سزا ہو بھی گئی تو اپیل کرنے پر وہ سزا قائم نہیں رہتی تھی۔ اس مسئلہ کا حل یہ سوچا گیا کہ عدالتوں میں اپنی مرضی کے ضمیر فروش جج لگائے جائیں۔ اس کے لیے ایک آئینی ترمیم کی گئی۔ اور اب عدلیہ ان کی مرضی کے جج لگائے گی اور کوئی مقدمہ نہیں ہارے گی۔اب خان کی خیر نہیں۔
خان جو ایک سچا پاکستانی ہے، ملک کا وفادار ہے اور اس کی بہتری چاہتا ہے۔ایماندار ہے اس لیے اس پر کرپشن کا چارج لگانا ایسا ہی ہے کہ بادشاہ کو ملک دشمن قرار دے دیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ اس کے دشمن ہر مقدمہ ہار جاتے ہیں۔لیکن ہمارا بد قسمت ملک بُرے لوگوں سے اٹا پڑا ہے۔اس لیے قدم قدم پر ضمیر فروش بیٹھے ہیں۔ ایک ڈھونڈو ،ہزار ملتے ہیں۔ اس لیے خان کے خلاف ہر قسم کی کاروائی مزے سے کی جاتی ہے۔خان اگر جیل میںنہ ہوتا تو اس پر ابتک کئی قاتلانہ حملے کیے جاتے۔ایک نہ ایک تو کامیاب بھی ہوتا۔اب حا ل یہ ہے کہ اس کی جماعت کی اعلیٰ قیادت میں سے کافی افراد جیل میں ہیں۔یا ان پر تشدد کی تلوار لٹک رہی ہے، اور وہ قیادت کا حق ادا نہیں کر پاتے۔ خان کانام نہیں لیا جا سکتا اور نہ اس کی تصویر دکھائی جا سکتی ہے۔ اگرچہ لوگ دل سے اس کے ساتھ ہیں مگر ڈرتے ہیں۔ اسلام آباد میں تحریک کے ہجوم پر رات کے اندھیرے میں اندھا دھند فائرنگ کی گئی، جس کا ایک ہی مقصد تھاکہ لوگ آئندہ خان کی آواز پر لبیک نہ کہیں۔اس لیے عین ممکن ہے کہ خان کی ۸ فروری کے احتجاج پر اتنے لوگ نہ آئیں جن کی توقع کی جاتی ہے۔
خان اور اس کی بیو ی پر کرپشن کا الزام تو لگا دیا ہے جس کا نہ کوئی سر ہے اور نہ کوئی پیر، لیکن یہ خبر دنیا کے ہر بڑے میڈیا پر پہنچا دی گئی ہے۔ہر خبر رساں ایجنسی نے دنیا والوں کو بتا دیا ہے کہ عمران خان اور اس کی اہلیہ کو کرپشن کے الزام میں چودہ اورسات سال کی سزا سنا دی گئی ہے۔تفصیل میں کو ن جاتا ہے؟ مقصد تو اس کو بد نام کرنا ہے۔کچھ با اعتماد ادارے جو اندر کی کہانی جانتے ہیں انہوں نے اس خبر پر تعجب کا اظہار بھی کیا ہے ۔17جنوری کی ایک انگلینڈ کے اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، برطانیہ کی لیبر اور کنزرویٹو پارٹیز دونوں سے ایک ایک ایم پی نے ، خان اور ان کی اہلیہ پر مقدمہ کا فیصلہ پر پاکستان کی عدلیہ پر شک وشبہات کا اظہار کیا ہے۔راولپنڈی کی عدالت نے خان پر 300ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا ہے۔تا کہ وہ ایک دینی ادارہ بنا سکیں۔اس سزا پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے ان ایم پی اے نے کہا ہے کہ اس سزا کے بعد پاکستانی عدلیہ نے اپنی ساکھ مٹی میں ملا دی ہے۔ایسی ذلالت عدلیہ کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔عمران خان نے کہا کہ میں کبھی بھی اس آمریت کو قبول نہیں کرونگا، اور جب تک اس فسطایت کا خاتمہ نہیں ہوتا میں جیل میں رہنے کے لیے تیار ہوں۔انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ ان سزائوں کے محرکات در اصل سیاسی ہیں۔
لارڈ ڈینیل حنان، سابق ممبر یوروپین پارلیمنٹ اور انگلینڈ کے ہائوس آف لارڈز کے کنزرویٹو پیئر نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی عدلیہ ، حکمرانوں کا آلہ کار بن گئی ہے۔قانون کی حکمرانی معدوم ہو چکی ہے۔لیبر پارٹی کے رکن کم جانسنز نے رپورٹر کو بتایا، کہ خان پر عدالتی فیصلہ سے ، پاکستان میں جمہوریت اور غیر جانبدار عدالتی نظام پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔یاد رہے کہ خان کو گذشتہ عدالتی سزائوں کو معطل کیا جا چکا ہے، جس سے قانونی معاملات کی درستگی پر سوالات اٹھتے ہیں۔یہ امر مسلمہ ہے کہ خان ملک کی سب سے مقبول جماعت کا قائد سیاستدان ہے۔ اسے ایک سال سے زیادہ جیل میں رکھا گیا ہے۔ یو این کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق خان کی حراست بالکل بے ضابطہ ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ لارڈ حنان نے پاکستان کو خبردار کیا اور کہا، پاکستان اس وقت تک سیاسی، اقتصادی ترقی نہیں کرے گا، جب تک عمران خان کو رہا نہیں کیا جاتا،آئین اور قانون کی بالا دستی نہیں ہوتی، اور آزادانہ انتخابات کا اعلان نہیں ہوتا۔جانسنز نے کہا مزید براں، انصاف کو شفاف ، غیر جانبدار اور سیاسی اثر و نفوذسے مبرا ہوتا نظر آنا چاہیے۔
یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ برطانوی سیاستدانوں نے پاکستان کے عدالتی نظام کی جانبداری پر سوال اٹھائے ہوں۔
ایک تازہ ترین اطلاع کے مطابق، World Justice Project Rule of Law index میں پاکستان کو 142ملکوں کی فہرست میں 140 واں نمبر ملا ہے۔خوشخبری یہ ہے کہ پاکستان کے علاوہ دو ملک ایسے ہیں جنکی عدلیہ پاکستان سے بھی گئی گزری ہے۔پاکستانی عدلیہ کو اس اعزاز پر افواج پاکستان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جن کی دن رات کی کوششوں سے یہ اعزاز ملا ہے۔لعنت کے اور بھی حقدار ہیں جن میں سر فہرست ہمارے سابق وزیر اعظم، نواز شریف، حالیہ وزیر عظم، شہباز شریف، پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم صفدر اور سابق چیف جسٹس لعنتی فائز عیسیٰ اور 27ویں آئینی ترمیم پاس کروانے والے ملا فضل الرحمٰن، شامل ہیں۔ان سب اربابِ ظلم کو بہت بہت مبارک ہو۔ پاکستان کی معیشت کا بیڑہ غرق تو کیا ہی تھا، اب اس کے رہے سہے اداروں کا بیڑہ غرق بھی کر دیا ہے۔فوج تو بالکل ہی ننگی دھڑنگی ہو چکی ہے۔عوام میں اس کی عزت اور وقار کا جنازہ صرف ڈاکٹر یاسمین راشد کی تصویر دیکھ کر نکل چکا ہے۔اور اس پر طرہ یہ کہ پوچھتے ہیں ہمیں عوام کیوں پیار نہیں کرتے؟اہل دانش کا کہنا ہے کہ پاکستان عملاً ایک فیل ریاست ہے جسے ڈیپ سٹیٹ چلا رہی ہے۔ لیکن کب تک؟
جو بات ہمارے غیر ملکی کرم فرمائوں کو نہیں معلوم کہ کس طرح خان کو باتوں میں الجھایا گیا۔ جج نے ہر دفعہ تاریخ دے کر فیصلہ نہیں سنایا۔ اور اس جج کی غیر جانبداری کبھی بھی مسلمہ نہیں تھی۔ جان بوجھ کر اس جج کو خان کا مقدمہ دیا گیا۔سب سے بڑی بات کہ بشریٰ بی بی جس کا ایک ہی قصور تھا کہ وہ خان کی زوجہ ہے، اس لیے اسے سات سال کی سزا سنائی گئی۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ یہ اسلامی مملکت خدا داد ہے یا بنانا ریپبلک؟ اب فوج کو ملٹری کورٹس بنانے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ پاکستانی عدلیہ ملٹری کورٹس کی طرح فیصلے سنا سکتی ہے۔ہے کوئی پوچھنے والا ؟ اب فوج کو پورا اطمینان ہے کہ جج ناصر کا فیصلہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل پر گیا تو وہاںبھی اپنے بندے بیٹھے ہیں۔ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اور تو اور، اب تو سپریم کورٹ بھی تابعدار،ضمیر فروشوں سے بھری پڑی ہے۔ ایک چھوڑ پچاس اپیلیں کر لیں۔نتیجہ وہی ہو گا جو پیا چاہے گا۔جسے لٹکانا ہے وہ لٹک جائے گا اور جسے چھوڑنا ہے وہ چھٹُ جائے گا۔لگتا ہے کہ جلد ہی پاکستانی عدلیہ انڈکس کی آخری سیڑھی تک پہنچ جائے گی اور اس کو یہ امتیاز بھی حاصل ہو جائے گا۔ پہلے کرپشن کے انڈکس میں پاکستان دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہے، نیچے سے۔
ہن کی کہویں گا بلیھا؟ کچھ ظلم دی ایس کتاب دا، اگلا ورقہ پھول۔
عوام دل برداشتہ ہو گئے ہیں۔اگر عمران خان نہ رہا تو کوئی ایسا لیڈر آ سکتا ہے جو قوم کو خانہ جنگی کی طرف لے جائے، اور بھائی کو بھائی سے لڑوا دے۔25کروڑ کے ملک میںایسے کرشماتی رہبروں کی کمی تو نہیں ہو سکتی۔حالات ساز گار ہونے چاہئیں۔اوروہ ہیں۔ کرپٹ لیڈروں کا ٹولہ ایسے حالات بنا رہا ہے۔ مہنگائی ، بجلی کے بل، دوا دارو کا نہ ہونا، پانی کی کمی، یہ سب اجزاء ہیں جو عوام کو جگا کر بٹھا دیں۔اور تھوڑی سی سمجھ بوجھ والی قیادت کے پیچھے لگا دیں۔پھر دما دم مست قلندر ہوتے کتنی دیر لگتی ہے؟
لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہمارے پیارے سیاستدان کتنے بھی کرپٹ ہوں، انہیں ملک کی محبت کھائے جا رہی ہے۔ اب ملکہ شرار ت جنہیں لوگ پنجاب کی وزیر اعلیٰ کے طور بھی پہچانتے ہیں، ان کو عوامی مقبولیت کے جنون کو سر پر سوار کر لیا ہے۔ عوام کی ضرورت کی ہر چیز پر اپنی تصویر لگوانی شروع کر دی ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ ٹائلٹ رول کے ہر پتے پر محترمہ کی تصویر بنی ہوگی اور لوگ اس سے وہی کام لے رہے ہونگے جسکے لیے وہ بنا ہے۔محترمہ نے دسویں جماعت کی درسی کتاب میں ایک نیا چیپٹر بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں انکی اور ان کی والدہ کے انہونے کارنامے طلباٗ کو پڑھائے جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ سب کتابیں ضائع کرنی پڑیں گی۔ بچوں کے دودھ کے ہر ڈبے پر ان کی تصویر بنا دی گئی ہے۔ اور لوگ کہیں گے ہمیں مریم کا دودھ دے دو بھائی۔بچوں کے دودھ سے لیکر ہر وہ مصنوعات جس کی پیکنگ ہوتی ہے اس پر آپ شہزادی صاحبہ کی تصویر دیکھ لیں۔ ایسی تصویریں جب سڑک پر گری ہوں تو لوگ ہنسی خوشی پائوں میں روند کر گذرجاتے ہیں۔؎ ناطقہ سر بگریبان ہے اسے کیا کہیے!!!

Ejaz Farooqi

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے