تجدید محبت

تجدید محبت

سقوط دمشق ہو گیا، شام کی فوج نے باغیوں سے لڑنے سے انکار کر دیا، باغیوں نے صرف گیارہ دن میں پورے ملک پر قبضہ کر لیا بڑے شہروں پر باغیوں کا قبضہ ہو تا چلا گیا مزاحمت نہیں تھی خبروں میں ہے کہ القاعدہ کے ایک سابق لیڈر ابو جلمانی نے شام کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، شام پر اسد خاندان کا پچاس سال کا اقتدار ایک ہفتے میں اپنے انجام کو پہنچا روس اور ایران جو کبھی شام کے دوست تھے ، کام نہ آسکے، مجھے لگتا ہے کہ عالمی طاقتیں یہ فیصلہ پہلے ہی کر چکی تھیں باغیوں کی کاروائی محض EYE WASH نظر آتا ہے، القاعدہ کے سابق کمانڈر کے شام پر قبضے نے اس کو مشکوک بنا دیا ہے، اسرائیل نے گولان میں صف بندی کر لی ہے، غزہ تباہ ہوا اس تباہی میں حماس کا بڑا کردار ہے، لبنان بھی تباہ ہو رہا ہے یہ تباہی بیروت کے قلب تک پہنچ چکی ہے، اور اس کا انت نہیں معلوم ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں غزہ کے بعد لبنان اور یمن کو تباہی کا سامنا ہوگا اسرائیل نے کہا تھا ہم مشرق وسطیٰ کا چہرہ بدل دینگے، تو چہرہ بدل رہا ہے پینالیس ہزار فلسطینی ہلاک کرانے کے باوجود حماس جنگ بندی پر بہانے تلاش کر رہی ہے، جب تک اسرائیل اپنے تمام اہداف حاصل نہیں کر لیتا حماس کا رویہ یہی رہے گا عالمی اداروں نے بہت مذمت کرلی اسرائیل کی مگر مذمت کافی نہیں ہے، حزب اللہ سے جنگ بندی کے باوجود اسرائیل کے حملے جاری ہیں، سارا عالم اسلام دم بخود، فیصلے عالمی طاقتیں کر رہی ہیں یہ بات قابل غور کہ روس اور ایران چپ ہو جاتے ہیں اور ترکی اسرائیل کے ساتھ مل کر باریک واردات کر جاتے ہیں، لطف یہ ہے کہ وہ گروپ جس نے شام کا انتظام سنبھال لیا ہے وہ دہشت گرد تنظیم ہے اور امریکہ نے اس پر پابندی عائد کر رکھی ہے حیرانی اس بات پر بھی ہے کہ باغی گروہ کے سربراہ نے بشار الاسد کے وزیر اعظم سے کام جاری رکھنے کو کہا ہے، ایک بزرگ ڈپلومیٹ بتا رہے تھے کہ اب شام کو تقسیم کر دیا جائیگا تین چار حصے ، اور شام پر اسرائیل اور ترکی کے اثرات رہینگے ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسرائیل شام کے کچھ حصوں پر قابض ہو جائے اقوام متحدہ میں لاکھ قرار دادیں لاتے رہیے کہ اسرائیل 1967کی سرحدوں ہر واپس جائے اسرائیل ایسی تمام قرار دادوں کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے، نیتن یا ہو اس وقت تک جنگ نہیں روکے گا جب تک اس کے اہداف پورے نہیں ہو جاتے، فی الحال اس کی نظر لبنان پر ہے حماس و حزب اللہ کی کمر ٹوٹ چکی ہے اگر حزب اللہ نے راکٹ برسائے تو لبنان کی تباہی اور ہو گی اب مشرق وسطی کی ہر ریاست کو بشمول سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا، شائد ایک آدھ سال میں پاکستان بھی اسرائیل کو تسلیم کر لے، بہت بہتر ہوتا اگر پاکستان اسرائیل کو پہلے تسلیم کر لیتا، اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ ایک ضعیف حدیث اور قائد کا ایک فرمان ہے، غور سے دیکھیں بے چینی دنیا بھر میں نہیں یہ غارت گری صرف مشرق وسطی میں ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہونگے جو IMPACT ہونا ہے وہ فیصلہ سازوں کی کتاب میں پہلے سے لکھا ہوا ہے، یہ سب وہاں ہو رہا ہے جہاں کوئی مسلمان بستے ہیں ، دنیا کو مسلمانوں سے دلچسپی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان دنیا کو کچھ دیتے نہیں اور کاسہء گدائی ان کے ہاتھ میںہے جو چند خلیجی ریاستیں ہیں جو اپنے پیسے کی بنا پر اچھلتی ہیں وہ بھی ریت کی دیوار ہیں کسی وقت بھی ان کے حلق پر انگوٹھا رکھا جا سکتا ہے تو معاملہ ختم شد ہی سمجھیے، اسلام کا رولا اب پاکستان ایران اور افغانستان میں ہی رہ گیا ہے اور مغرب چاہتا ہے کہ یہ رولا تا دیر باقی رہے اور یہ ممالک خود ہی اپنی خود کشی کا فیصلہ کر لیں، ان تینوں ممالک میں عقل جہاں تک ہے مغرب کو اس کا بھی اندازہ ہے مشرف کو طعنہ دینے والے ا گر یہ سمجھ لیتے کہ مشرف اگر امریکہ کی شرائط نہ ماتا تو پاکستان کا کیا حال ہو نا تھا، ننگے بھوکے عوام اور دین فروش مولویوں کے پاس جذبہ ایمانی بہت ہے، یہ وہ دھوکہ ہے جو ہماری جاہل عوام کو بہت بھاتا ہے خطے کے ان تمام حالات سے قطع نظر ہمارے ملک کے میڈیا نے پچھلے دس سال سے کبھی عمران کو اسکرین سے ہٹنے نہیں دیا خود اس کو POLITICAL HYPE دی اور اس کو عمران کی مقبولیت سے جوڑ دیا، اور ساتھ ساتھ فوج کو MALINE کرنے کے لئے یہ شوشہ بھی چھوڑ دیا کہ عمران کے پاس مقبولیت تو ہے قبولیت نہیں ہے، عشروں سے میڈیا ہاؤسز کی کوشش یہ رہی ہے کہ وہ کنگ میکر بن جائیں نواز شریف اور بے نظیر ادوار میں کوششیں کی جاتی رہی ، کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے یہ بھی ہوا کہ فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے اب فوج پر فرد جرم عائد کرتے ہیں مگر یہ میڈیا ہاؤسز خطے کی حالت پر کبھی توجہ نہ دے سکے ان کو معلوم ہی نہیں کہ خطے میں کیا ہو رہا ہے اور اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں یہ میڈیا ہاؤسز اب بھی 1940/1950 کی صحافت میں پھنسے ہوئے ہیں، اس وقت کم از کم اتنا تھا کہ خبر کا SOURCE پتہ چل جاتا تھا خبر سے پہلے خبر رساں ایجنسی کا نام ضرور لکھا ہوتا تھا مثلاً RUETOR/APP/PPA /BBC وغیرہ مگر اب میڈیا ہاؤس غیر ملکی خبروں کا سرقہ کرتے ہیں اور اپنے اخبار یا اپنے نمائندے کا نام استعمال کرتے ہیں پچھلے کئی سالوں کی خبریں اٹھا کر دیکھ لیجیے الیکٹرانک میڈیا نے اپنے اخراجات کم کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر انحصار بڑھا دیا ہے اور جھوٹ کو پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں، حد یہ ہے کہ تازہ خبروں پر یہ ٹی وی چینل کئی برس پرانی تصاویر لگا دیتے ہیں پاکستان کے کسی اینکر نے آج تک کسی بھی بد نام زمانہ سیاست دان کو پاکستانی سیاست کے لئے نقصان دہ نہیں کہا یہ بوقتِ ضرورت نبیل گبول اور رضا حیات ہراج کو بھی نکال لا ئینگے عشروں سے ان میڈیا ہاؤسز نے ملکی مسائل کا کبھی حل نہیں دیا ہاں یہ ضرور ہے کہ پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ضرور کیا ہے، ایک سنجیدہ مورخ پچھلے پندرہ سالوں کی تاریخ کو شائد پاکستان کی تاریخ سے منہا کر دے گا، جس میں شخصیات پر بات ہوئی پاکستان کی معیشت ، صحت، تعلیم امن اور مستقبل پر بات نہیں ہوئی، انہوں نے ملائیت، مذہبی جنون، صوبائیت، علاقائیت اور وڈیرہ شاہی کے بے لگام گھوڑوں پر کبھی بات نہیں کی جنہوں نے BARN کو ہی روند ڈالا ہے، آج جرنل (ر) فیض حمید پر فرد جرم عائد کر دی گئی ان کا کورٹ مارشل جلد مکمل ہو جائیگا اور سزا سنا دی جائیگی پورا الیکٹرانک میڈیا اس بات پر بحث کر رہا ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کی سزا کے پی ٹی آئی پر کیا
اثرات مرتب ہونگے کیا ایسا ہوگا کہ عمران کے گرد پھندا سخت ہو جائے پورا گٹر میڈیا نہیں جانتا کہ فیض حمید پر الزامات کیا ہیں، کیا فوج کی حالیہ قیادت جنرل فیض حمید کے جرائم سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ان کو اس لئے چھوڑ دے گی کہ پی ٹی آئی کی یہ خواہش ہے کہ انہیں چھوڑ دیا جائے کیا یہ ممکن ہے کہ فیض حمید کو چھوڑ دیا جائے اور فوج ایک اور آگ کا دریا عبور کرے، صحافت میں اگر RATIONALITY نہیں تو اسے ردی کا انبار کہیئے اس میڈیا نے قوم کو نہیں بتایا کہ عمران معیشت کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں، ان کا ایجنڈا صرف اتنا ہے کہ فوج سے تجدید محبت ہو، 2018 میںبھی کسی نے ان سے نہیں پوچھا تھا کہ آپ جو وعدے کر رہے ہیں وہ پورے کیسے ہونگے اب بھی کوئی پی ٹی آئی سے ان کا پروگرام کیا ہے اڈیالہ میں عمران صحافیوں سے جو گفتگو کرتے ہیں وہی شام کو ٹاک شوز کا موضوع ہوتی ہے دوسرے دن وہی اخبارات کی HEADLINES ایسا کسی ملک میں نہیں ہوا ایک شخصیت یا ایک جماعت برسوں شہ سرخیوں میں نہیں رہتی یہ صرف پاکستان میں ہی ہو سکتا ہے، عمران کو سوچنا چاہیئے کہ تجدید محبت کا سامان سیاست نہیں، فیض حمید کی محبت میں 14 دسمبر کو بھی ایک کال دے دی گئی ہے مقصد عوام کو فوج سے لڑانا ہے یا شام جیسی صورتِ حال پیدا کرنا، پختون خواہ نے بغاوت کی ابتدا کر دی ہے، مگر بلوچستان میں حالات قابو میں آتے جا رہے ہیں اگر پختون خواہ کئی برس تک دھاوے بولنے کی حالت میں رہا تو ممکن ہے ملک میں خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا ہو جائے ، ایک وقت تھا نام نہاد جہاد افغانستان کے بعد کہ کچھ تھنک ٹینکس کی خواہش تھی کہ پاکستان میں متحارب گروپ بنا دئے جائیں اور خانہ جنگی کا تماشا دیکھا جائے مگر غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ عالمی طاقتوں کے حق میں نہیں، ہمارے دیسی سقراط اس تمام کوڑے کو TRASH سے نکالتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ کام کی چیز ہے، کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر یہ حقیقت ہے کہ فوجی افسران بہر حال سیاست پرذہنی طور پر معذور سیاست دانوں سے زیادہ جانتے ہیں ان سیاست دانوں کو ایک سیشن افسر کے سامنے بٹھا دیں ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی، پاکستان اور ایران کا حشر فی الوقت تو شام کی طرح نہیں لگتا لیکن اگر ایران اور پاکستان دنیا کے ساتھ قدم ملا کر نہ چل سکے تو دو چار عشروں کے بعد یہ ممکن ہو سکتا ہے ، مگر امید ہے اس سے پہلے ہی عقل آجانی چاہیے۔

kamran