پہلے مرحلے میں عسکری مصنوعات کا بائیکات، دوسرے مرحلے میں سول نافرنی…… شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
اِس وقت پورے پاکستان میں اور بیرون ملک پاکستانیوں نے جس طرح سے عسکری مصنوعات کا بائیکاٹ شروع کیا ہوا ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ آج سے پہلے پاکستان میں ہر پاکستانی اس بات سے لاعلم تھا کہ ہماری افواج کے ادارے ٹینک اور توپوں سے زیادہ عام نان آرمی پروڈکشن بناتے ہیں، سوائے عائشہ صدیقہ کے جنہوں نے 30سال پہلے ایک کتاب تحریر کی تھی، ’’بزنس ایمپائر آف پاکستان آرمی‘‘۔ اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد سے آج کے دن تک وہ بیرون ملک یورپ میں مقیم ہیں کیونکہ اگر وہ پاکستان گئیں تو جنرل عاصم منیر ان کے سر میں بھی گولی داغ دیں گے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم بھی عائشہ صدیقہ، الطاف حسین، منظور پشتین، محسن داوڑ اور علی وزیر جیسے لوگوں کو غدار گردانتے تھے کیونکہ وہ نعرے لگاتے تھے کہ ’’یہ جو دہشت گردی ہے ، اس کے پیچھے وردی ہے‘‘ لیکن آج جنرل عاصم منیر جیسے جنرلوں نے اپنی ایکسٹینشن اور ذاتی مفادات کی خاطر اس نعرے کو بالکل درست ثابت کر دیا، 26 نومبر کو اسلام آباد کے خونی چوک میں نہتے، معصوم اور بے گناہ نوجوانوں کے سروں میں جس طرح سے سیدھی گولیاں ماری گئیں جس طرح سے اسناپئرز نے نشانے باندھ باندھ کر پاکستانیوں کو جاں بحق کیا، کیا یہ فوجی اور ریاستی دہشت گردی نہیں ہے؟ جن لوگوں کی وردیاں ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے بنتی ہیں، پاکستان کے بجٹ میں سب سے بڑا حصہ فوج کیلئے مختص ہوتا ہے وہ ہی آرمی جنرلز ہمارے جوان بچوں پر گولی چلا کر ہلاک کیوں کریں؟۔
اب ہم اس دہشت گردی کا مقابلہ ود طریقوں سے کر سکتے ہیں۔ اول یہ کہ ہم بھی BLAکی طرح سے ہاتھوں میں ہتھیار اٹھا لیں اور فوجی کونوائے اور تنصیبات پر حملے کرنا شروع کر دیں، فوج کی طرح سے ہم بھی AK-47کلاشنکوفس اٹھا لیں اور ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جائے جس کا سامنا آج کل شام کودرپیش ہے۔ پاکستانی افواج کو اچھی طرح سے اس بات سے آگاہی ہے کہ اس قسم کے گوریلا ٹائپ وار فیئر سے وہ کبھی نہیں جیت سکتے، طالبان کی مثال ان کا منہ چڑارہی ہے گزشتہ کئی دہائیوں سے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جو ایک مہذبانہ اور پوری دنیا میں رائج ہے کہ اگر کوئی ظلم کرنے والی پارٹی اپنے مظالم کرنے سے باز نہ آئے تو اس کی اس دکھتی رگ سے پکڑ ا جانا چاہیے کہ وہ اپنے مظالم کرنے سے باز آجائے۔ جیسا کہ غزہ کے معاملے پر اسرائیل کو فنانشل سپورٹ کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ کیا گیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس بائیکاٹ سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا تو ان لوگوں سے عرض ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر جا کر اسٹاربکس کی آمدنی کے گوشوارے اس بائیکاٹ کے بعد سے دیکھ لیں۔ ویسے اس کے علاوہ ہماری اخلاقی ذمہ داری بھی بنتی ہے ہم حق اور سچ کے ساتھ رہیں چاہے اس کے مقابلے میں آئوٹ پُٹ کم ہی کیوں نہ ہو، روایت ہے کہ جب ظالم اور سفاک نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈلا اور آتش نمرود کے شعلے آسمان کو چھورہے تھے تو ایک چڑیا چونچ میں پانی بھر کر لاتی تھی اور آگ پر ڈال دیتی تھی، چڑیا کے ساتھیوں نے کہا کہ اتنی بڑی آگ تمہاری چونچ کے پانی سے تھوڑا ہی بجھ جائے گی تو ننھی چڑیا نے کہا کہ مجھے بھی اس بات کا علم ہے مگر میں اس لئے مطمئن ہوں کہ قیامت والے دن میں اللہ کو بتا سکوں کہ میں حق کے ساتھ تھی، پاکستان کی عسکری فوج کی مصنوعات میں یہ بات اچھی ہے کہ پورا پاکستان ان پروڈکٹس کو استعمال کررہا ہے، پرائیوٹ سیکٹر میں تو ویسے ہی مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رہی ہے، اگر آپ عسکری مصنوعات کا بائیکاٹ کریں گے چاہے اندرون ملک یا بیرون ملک، ایک بڑا تگڑا جھٹکا لگے گا اور پھر وہ احساس کریں گے کہ مظلوم پر ظلم بند کیا جائے اور حقدار کو اس کا حق دیا جائے، اگر پھر بھی انہوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو پھر جیسا کہ عمران خان نے کہا کہ اگلا مرحلہ سول نافرمانی ہو گا، وہ کیا کہتے ہیں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، کبھی کبھی بہت افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے چند بدقماش جرنیلوں نے ملک کو کس نہچ پر پہنچا دیا ہے کہ جن کی وجہ سے پوری فوج بدنام ہورہی ہے۔ We Love Our Soldiers