پسپائی و جگ ہنسائی
سیاست کے پیران ِ مغاں کا یہ اعجاز رہا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ تمام برائیوںسے پاک گردانتے ہوئے خود کو ملائکہ کرام کے اوصاف ِ حمیدہ کے ہم پلہ قرار دینے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے تو دوسرے رُخ پر معاشرے کی ساری برائیوں کی گھٹری اپنے مخالفین کے سر پر رکھنے میں ،انھیں مورد ِ الزام ٹہرانے میں ،انھیں کج فہمی کا بُت ثابت کرنے میں ذرا سی دیر نہ پرانا وطیرہ رہا ہے بےشعوری کے اس پُرفضا معاشرے میں یہ احساس جنم ہی نہیں لیتا کہ کل تک جنہیں یہ پیر ِ مغاں عوام کے لئے مہلک قرار دے رہے تھے آج وہ ایک ہی پلیٹ فارم پر کھڑے ایک دوسرے سے بغل گیر ہیں یاد رہے کہ بیشعور ہونے کے لئے ناخواندہ ہونے کی شرط اب معدوم ہو چکی ہے اب جیسے جیسے خواندگی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اُس سے خاصے بلند درجے پر بےشعوری یا کم عقلی نے اپنا ٹھکانہ خاصا مضبوط کر کے بنایا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے قائدین کے یو ٹرن کو ذہانت کا معیار اور اسلوب ِ سیاسیات کا بہترین ہتھیار کہتے نہیں تھکتے جہاں سابقہ آمرانہ پالیسیوں کی وجہ سے جمہوریت پنپ نہیں پائی وہیں اس کے ساتھ عوام کی ذہنی پسماندگی بھی جمہوریت کا قد نہ بڑا ہونے کی سب سے بڑی وجہ بنی ہے سیاسی اکابرین کی غرض و غایت اپنی جگہ مگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو عوامی بیشعوری کے کارن جمہوری بدن نے نشوونما پانے سے پہلے ہی بستر سنبھال لیا جس پر آمریت کی چادر نے اسے ابھی تک محوخواب ہی رکھا ہوا ہے عام لفظوں میں یہ بات اس طرح کی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام ایک پر انتخابات کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے جس کی ہدایات ان دیکھی طاقتوں نے دی ہوتی ہیں مفاد پرستی کی سیاست نے اتنے پائوں پھیلا لئے ہیں کہ وہ اب فوج ، دفاعی اداروں کے مدِ مقابل ہتھیار تان کر چل رہی ہے عدلیہ پر اثر انداز ہونا گو کہ پرانی جمہوری روایات کا حصہ ہیں مگر اس میں شدت آنا اور عدالتی فیصلوں کو نظر انداز کرنا ان حالیہ واقعات پر منطبق ہیںجن سے سیاسی عدم استحکام کا پیدا ہونا غیر ملکی دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل لگتی ہے کیونکہ حقیقی معاشی ترقی کے لئے سیاسی استحکام ناگزیر ہوتا ہے قرضوں کا بوجھ معیشت کی کمر پر اس قدر بڑھ گیا ہے کہ معیشت کسی اڈھیر عمر بڑھیا کی مانند سست رفتار سے لاٹھی کے سہارے رواں ہے معاشی ماہرین اس بوڑھی ناتواں معیشت کی شکل کبھی عوام کو نہیں دکھاتے اُنھیں خود ساختہ خوشحالی کے قصے سنا کر اطمینان دلانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں چلیں مان لیا کہ سٹاک ایکسچینج نے ناممکن کو ممکن کر ڈالا1200سے زائد پوائنٹس کا اضافہ ، یہ بھی تسلیم کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے روپے کی صحت میں بہتری کی نوید مگر زمینی حقائق چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ان مذکورہ خوشحالیوں کا ایک عام انسان کی خوشحالی پر کوئی اثر نہیں پڑا وہ کل بھی نان و نفقہ پورے کرنے میں ناکامیوں سے دوچار تھا اور آج بھی اُس کی معاشی مشکلات میں اضافہ کم نہیںہوا بلکہ مسلسل بڑھتے چلے جا رہا ہے کیونکہ روزمرہ اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں حکومت ناکامیوں سے دوچار ہے اور مصنوعی مہنگائی پھیلانے والا مافیا عوام کو ناجائز منافع خوری سے لوٹ رہا ہے اور حکومت بے بسی کی تصویر بنی ہے مجھے اسی بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ عوام پورے حوش و حواس میں ہونے کے باوجود ان مفاد پرست سیاستدانوں کے ہتھے کیسے چڑھ جاتی ہے ؟المیہ یہ ہے کہ جو سیاست دان ان کو جانتے تک نہیں اُن کے لئے یہ اپنے عزیزوں دوستوں رشتہ داروں سے قطع تعلق ہی نہیں ہوتے بلکہ مشت و گریباں ہونے سے بھی دریغ نہیں کرتے اب تو حد سے تجاوز کرتے ہوئے خصوصی طور پر تحریک ِ انصاف کے بےشعور اپنی پاک فوج پر نامعلوم شہادتوں کا الزام لئے سوشل میڈیا پر شور برپا کر رہے ہیں اسی پر ان کا اکتفا نہیں اب حدود و قیود ،ادب و احترام سے بالا ہو کر پاک فوج پر بہتان تراشیوں کے نشتر چلانا ہی ان کا مقصد رہ گیاہے ریاست کی ایسی پسپائی و جگ ہنسائی راوی نے پہلے نہیں ملاحظہ کی ۔پے در پے کے بعد حالیہ خفت مٹانے کے لئے تحریک ِ انصاف کا دوبارہ سول نافرمانی کی تحریک کا چلانا مجھے تو یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کا بدلہ لگتا ہے ذمہ داری بنتی ریاست کے اُن اداروں کو جو ستون کی حیثیت رکھتے ہیں کہ وہ ملک کے اندر حدود سے تجاوز کرنے والوں کو وہ چاہے کسی بھی منصب پر بیٹھے لوگ ہوں یا عوام ہوں اُن کو اِن کے دائروں کے اندر رکھنا لازمی امر ہے جمہوریت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ گھوڑے بے لگام ہو جائیں سیاسی بد اخلاقیاں ،بہتان تراشیاں ہماری پسپائی و جگ ہنسائی کے اسباب ہیں اس سے بچنے کے لئے سیاسی استحکام کا بہتر ہونا ضروری ہے تا کہ معیشت کی سوکھی زمین ہریالی سے مستفید ہو سکے۔