ٹرمپ اور عمران خان

ٹرمپ اور عمران خان

دوستوں، پاکستان میں امریکی الیکشنز کے نتائج کو اتنی سنجیدگی سے لیا گیا ،لگتا ہے کہ جیسے یہ انتخابات پاکستانی وزیر اعظم کے ہوں۔بھولے پی ٹی آئی والوں نے یہ خواب دیکھنا شروع کر دیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پہلی فرصت میں اپنے ـ’دوست ‘ عمران خان کو جیل سے نکلوا دے گا۔ بھائی ابھی تو اس کو صدر بننے میں تقریباً دو مہینے پڑے ہیں۔ اتنی دیر میں اسرائیل غزا کی بچی کھچی آبادی کو بم مار مار کر نسل کشی کی انتہا کر دے گا اور پاکستانی دجال تحریک انصاف کو اتنا نڈحال کر دے گا کہ وہ دہائی ہے، دہائی ہے، کرتے رہیں گے۔ اور دو ارب مسلمان بس دعائیں کرتے رہ جائیں گے۔
البتہ امکان ہو سکتا ہے کہ امریکہ میں پاکستانی ڈایا سپورا کسی نہ کسی طریقے سے ٹرمپ ٹیم کے کانوں میں عمران خان کی رہائی کا خیال ڈال دے، اور ٹرمپ پاکستانی فوج کو خبردار کر دے، اور وہ عمران خان پر اور جھوٹے مقدمے بنانے چھوڑ دیں۔ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ۔ہم امریکی پاکستانیوں کو تو خوشی اس بات کی ہے کہ ڈیموکریٹس اور ان کی امیدوار بملا کی بہن کملا ہار گئی۔ اس لیے نہیں کہ وہ بھارت نژ ادتھی بلکہ اس لیے کہ اس کی پارٹی نے پاکستان میں ایک سازش میں شریک ہو کر، جنرل باجوہ کے ساتھ ملکر رجیم چینج کی اور عمران خان کی جمہوری حکومت کو تبدیل کیا، اور تبدیل بھی کیا تو کس کے ساتھ ۔ لٹیرے، راشی اور وطن کو دو دو ہاتھوں سے لوٹنے والوں کے ساتھ۔جو بایئڈن کو ذرا شرم نہیں آئی کہ اس نے کیا کیا؟ اسے تو اسرائیل کا حکم بجا لانا تھا کیونکہ یہ یہود و ہنود کی سازش تھی جو عمران خان کو اس لیے ہٹھانا چاہتے تھے کہ وہ خدا کا نام لیتا تھا اس زمانے میں۔ اس کے قبضہ میںایٹمی بم تھے اور ان کو پھینکنے کی صلاحیت بھی۔ جس کا امکان بھی اہل یہود کو گوار نہ تھا۔جو بائیڈن کو پورا یقین تھا کہ اگر اس نے یہودی لابی کو خوش کر دیا تو اس کی پارٹی الیکشن جیت جائے گی۔ادھر نیتن یاہو کا منصوبہ بھی تیار تھا۔امریکی الیکشن نزدیک تھاتو اس کو امریکہ سے پوری امداد مل سکتی تھی۔ اس نے غزا میں فلسطینیوں کی زندگی اتنی تنگ کر دی کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ اس حملہ کا نیتن یاہو کو ایک مدت سے انتظار تھا۔ کیوںکہ اس کا بہانہ بنا کر وہ غزہ میںفلسطینیوں کو نیست و نابود کر سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے وہی کام شروع کروا دیا۔ اور بائیڈن نے جھولی بھر بھر کر اسے جتنے بم چاہیے تھے وہ دئیے، اس کے اوپر نقد ڈالروں کی برسات بھی کی اور امریکی فوجی بیڑا بھی پہنچا دیا کہ بوقت ضرورت کام آوے۔ جب اسے پتہ چلا کہ مسلمان امریکی ووٹرز ناراض ہو رہے ہیں تو ان کو خوش کرنے کے لیے نیتن یاہو کو کہ دیتا تھا کہ شہری آبادی پر ذرا ہاتھ ہولا رکھو، لیکن میں اور بم اور ڈالروں کا انتظام کر ہا ہوں۔ادھر اسرئیلی اپنے منصوبے کے مطابق عورتوں، بچوں اور کمزور مردوں پر روزآنہ بم برساتے ہیں۔ انہوں نے غزہ کی تقریباً سب عمارتیں ڈھیر کر دی ہیں۔بچی کھچی آبادی میں بھوکوں کے لیے کھانا پینا نہیں، زخمیوں کے لیے ہسپتال نہیں، پینے کا پانی نہیں۔ باہر کی امداد آنے کے راستے بند۔ حیرت اس بات پر ہے کہ یہ وہ لوگ کر رہے ہیں جو خود نسل کشی کی صعوبتوں سے گذرے ہیں۔کیا انہیں یقین ہے کہ وہ اس کے بعد اپنے ضمیر کے ساتھ سمجھوتہ کر سکیں گے؟
ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت بڑا بیان داغا ہے کہ وہ جنگیں بند کروائے گا۔ ابھی تو دو ہی بڑی جنگیں چل رہی ہیں۔ ایک یوکرائن کی روس کے ساتھ اور دوسری اسرائیل کی غزہ اور لبنان کے ساتھ۔اب دیکھیں کہ بڑا بھائی کیا کرتا ہے؟ اسے صدارت سنبھالنے میں دو مہینوں کا وقفہ ہے، اس وقفہ میں ہزاروں لاشیں گریں گی، اور عمارتیں زمین بوس ہو نگیں۔ یو کرائن میں غزہ جیسا حال ہے۔ شہروں کے شہر کھنڈر بن چکے ہیں، لیکن مجال ہے کہ یو کرائن کی حکومت نے روس کے ساتھ صلح کی بات شروع کی ہو۔ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔البتہ اب چونکہ ٹرمپ الیکشن جیت چکا ہے جب کہ 78فیصد یہودیوں نے کملا کو ووٹ دیئے۔ تو اس کو اب یہودی لابی کو زیادہ خوش کرنے کی ضرورت تو نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اب آزادانہ فیصلے کرے۔ شاید؟
پاکستان میں اب کسی ذی ہوش بالغ انسان کو شبہ نہیں رہا کہ کہ اصل حکومت کس کی ہے؟ شہباز شریف اور اس کی بھتیجی تو محض کٹ پتلیاں ہیں ۔اگر غور کریں تو حکومت جعلی سیاستدانو ںکی ہے جنہیں خلائی مخلوق نے جعلی فارم 47 سے کرسی پر بٹھا دیا۔ ورنہ ان انتخا بات نے تو سارا بھانڈا پھوڑ دیا کہ کسی بھی پارٹی میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ حکومت بنا سکتی سوائے تحریک انصاف کے۔ لیکن وردی والوں نے انتخابات کے نتائج اپنی مرضی کے بنوائے تا کہ ان کی خواہش کے مطابق ایک جعلی حکومت بن جائے اور وہ پھر اس سے اپنی من مانی کے کام کروائیں۔چنانچہ یہی ہوا ۔ شہباز حکومت نے آنکھیں بند کر کے ملک کا آئین بدل دیا اور آئین کی بنیادی ساخت جس میں عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کو تین خود مختار ادارے تسلیم کیا گیا تھا، ان کو گڈ مڈ کر دیا گیا۔ عدلیہ اب انتظامیہ کے تحت آ گئی ہے۔ یہ آئینی تبدیلیاں صرف ایک ادارے کی خواہش پر کی گئی ہیں، جسے نواز شریف خلائی مخلوق کہتا تھا۔
راقم کو کئی دفعہ یہ خیال آیا کہ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے لیے خلائی مخلوق کی تشبیہ کیوں استعمال کی ؟ تو غالباً اس کی وجہ وہ ہالی ووڈ کا ایک ٹی وی ڈرامہ تھا جس کا نام تھا وی(V) ۔ اس کی اقساط آپ گوگل سے تلاش کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ اس ڈرامہ میں، جو قسطوں میں دکھایا جاتا تھا، خلائی مخلوق (Aliens) نے امریکہ پر حملہ کیااور اپنی بر تر عسکری قوت سے امریکہ کی فوج اور جنگی اہلیت کو بر باد کر دیا۔او ر پھر انسانی روپ دھار کر ان پر حکومت کرنا شروع کر دی۔ان کا انداز حکومت ظالمانہ تھا۔ جس سے تنگ آکر کچھ نو جوانوں نے مزاحمتی تحریک شروع کر دی۔ جب وہ خلائی مخلوق کے کسی اڈے پر حملہ کرتے، تو اس پر اپنا پوسٹر لگا دیتے جس میں V کا حرف بنا ہوتا، یعنی وکٹری یا فتح۔ اس ڈرامے کی بمشکل دس قسطیںدکھائی گئیں تو اس کو بند کر وا دیا گیا۔ کیوں بند کروایا گیا؟ اس کی وجوحات واضح نہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس کو متوقع ناظرین نہیں ملے۔کوئی کچھ۔ لیکن راقم کو لگتا ہے کہ امریکہ میںاہل یہود نے جو سیاسی مقام اور طاقت حاصل کر لیے ہیں، وہ اس خلائی مخلوق کی حکمرانی سے مماثلت رکھتے تھے۔ ڈرامہ کسی حد تک اس کی عکاسی کر رہا تھا اور اسی لیے اسے بند کروا دیا گیا۔
نواز شریف غالباً اسٹیبلشمنٹ کو خلائی مخلوق سے مشابہت دے رہا تھا۔ لیکن اس غبی کو یہ ادراک نہیں ہوا کہ اس کو سیاسی جنم اور قوت بخشنے والی بھی تو یہی خلائی مخلوق تھی۔انہی کی گود میں وہ ، ان کے بوٹ چاٹتے ہوئے کرسی وزارت عظمی ٰکے مزے لوٹتا رہا۔اور آج اس کی ان پڑھ بیٹی پنجاب کی وزیر اعلیٰ بنی بیٹھی ہے۔اور چھوٹا بھائی جو ایک ڈھابہ چلانے کی اہلیت نہیں رکھتا ، ملک کا وزیر اعظم بنا ہوا ہے۔ خلائی مخلوق زندہ باد۔
جو کم از کم حالیہ واقعات کو دیکھتے ہوئے سمجھ میں آتا ہے ۔ خلائی مخلوق بھی بہت طاقتور تھی۔ ان کے پاس ایسے ہتھیار اور قوتیں تھیں جو انسانوں کے پاس نہیں تھے۔ان کے پاس زبردست جاسوسی کا نظام تھا۔جس سے بچنا بڑا مشکل تھا۔ہماری اسٹیبلشمنٹ کے پاس بھی عام آبادی کی نسبت بہت پر اسرار طاقت ہے۔ انہوں نے عوام میں اتنی دہشت پھیلا دی ہے کہ ان کے خلاف محاذ آرائی بہت مشکل نظر آتی ہے۔اس مخلوق نے پاکستان کے سب اہم عہدوں اور اداروں پر یا قبضہ کر لیا ہے یا ان پر اپنے جی حضوریے بٹھا دیے ہیں جو بلا چوں و چرا ان کا ہر جائز اور نا جائز حکم بجا لاتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے سر پر ہر وقت جعلی فارم 47کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے۔ ہماری لائق فوج نے دیکھیں تو ، کیسا موثر اوربلا کسی خرچے کا نظام مسلط کیا ہے کہ منہ سے واہ واہ ہی نکلتی ہے۔
اب رہ گئے عوام تو ان بے چاروں کو تو ایک بھبکی مارتے ہیں تو وہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔
لیکن خلائی مخلوق کی ساری طاقت کا سر چشمہ عوامی مالی طاقت ہی تو ہے۔جس کے سر پر یہ مخلوق سارے عیش کرتی ہے۔لیکن سال ہا سال سے عوامی خزانے پر راج کرنے سے، جسے بمشکل حکومت قرضوں اور مانگ تانگ کے پیسوں سے بھرتی ہے، ملک بتدریج دیوالیہ کی راہ پر گامزن ہے۔اب جعلی حکومت، درآمد کردہ وزیر خزانہ کی سربراہی میں ملک کے مالی نظام کو چلانے کی کوشش نا کام میں مصروف ہے۔ سرکاری بڑے بڑے عہدوں والے وزراء اور اب تو آرمی چیف بھی، ملک ملک بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ لوگوں کو سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دیتے ہیں، جب کہ ملک میں افرا تفری کا عالم ہے۔نوجوان جن کے پاس تعلیم ہے یا ہنر ہیں وہ ملک سے باہر جارہے ہیں،عوام کو پولیس بلا وجہ ، بلا وارنٹ گرفتا ر کرتی ہے اور مہینوں ان کا پتہ نہیں چلتا۔ نہ کوئی قانون نظر آتا ہے نہ نظم و نسق۔ روپیہ کی قیمت متواتر گر رہی ہے۔دہشت گردی اور اغوا برائے تاوان کثرت سے ہو رہے ہیں۔ ابھی کی بات ہے کہ ایک چینی انجنیئرز کی ٹیم کا کراچی میں قتل ہوا۔ ان حالات میں کوئی سر پھرا ہی ہو گا جو سرمایہ کاری کے لیے پاکستان آئے گا؟
پاکستان کو اپنے قرضوں کی قسطیں دینے کے لیے اربوں ڈالروں کی ضرورت ہے۔ ملک میں بجلی کی مہنگائی نے کتنی ہی صنعتیں بند کروا دی ہیں۔لاکھوں مزدور بے روزگار ہیں۔ اس کساد بازاری کے عالم میں، توں لبھدی پھریں سرمایہ کاروں نوں، کڑے؟
پاکستان کے ایسے برے اقتصادی حالات تو نہیں ہو سکتے۔ خزانہ بالکل بھی خالی نہیں۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ اپنے علاج کے لیے، فضائیہ کا جہاز لیکر اور ساتھ دوسرے اکابرین کو لیکر سوٹزر لینڈچلی گئیں۔اب سارا خرچ حکومت کو اپنے پلے سے کرنا پڑے گا۔ وہاں پورے لشکر کا کھانا پینا، ہوٹلوں کا اور مہنگی گاڑیوں میں نقل و حرکت سب وزیر خزانہ دیں گے اور پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر اور نیچے چلے جائیں گے۔آخر بھتیجی کی صحت کا معاملہ ہے، کوئی مخول نہیں ہے۔بھلا جب قوم کا خزانہ خالی ہے تو ابا جی کی دولت کس د ن کام آئے گی؟ وہ ان کے ساتھ قبر میں ڈال دی جائے گی؟ اس قوم کے حکمرانوں کو ذرا شرم نہیں آتی۔ہمیں تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ آئی ایم ایف کیوں انکی رسی دراز کرتا رہتا ہے؟ کیوں نہیں ان کی عیاشیاں بند کرواتا؟ کیا اس کا بھی اپنا کوئی اور ڈرامہ ہے؟
سمندر پار مقیم پاکستانی وطن عزیز سے سوشل میڈیا پر خبریں دیکھتے ہیں، اور محب وطن تجزیہ کاروں کے تبصرے سنتے ہیں تو بس ہاتھ ملنے کے سوا کچھ زیادہ نہیں کر سکتے۔البتہ چند ایسے بھی ہیں جو مقامی طاقت کے سر چشموں کو مائل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے حالات کو دیکھیں اور سمجھیں، اور اپنی خارجہ حکمت عملی کو استعمال کریں تا کہ پاکستانیوں کو کچھ تو اپنے روئیوں پر نظر ثانی کرنی پڑے۔اس میں کافی حد تک کامیابی ہوئی ہے۔ لیکن اس عمل کی بھی کچھ حدود ہیں۔ اگرچہ ان کا اثر ہوتا ضرور ہے، جیسے کہ اب امریکہ میں حکومت بدلنے والی ہے اور کچھ ہو نا ہو، بائیڈن کی حرکت کا اعادہ تو نہیں ہو گا۔نئے صدر کے سامنے وعدوں اور مشکلات کے ڈھیر ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک ضروری اور اہم۔ ان میں پاکستان کی باری کب آئے گی؟ یو کرائین کی جنگ بندی میں مشکلات ہیں کیونکہ یورپ کو روس کے خلاف جو محاذ چاہیئے وہ یو کرائین ہی تو ہے۔اس لیے کسی جنگ بندی سے پہلے یووپ کی تسلی کروانی ضروری ہو گی کہ انہیں روس سے کوئی خطرہ نہیںہو گا۔ادھر غزہ میں جنگ بندی اتنی مشکل تو نہیں۔ صرف صدر کو اتنا کہنا ہے کہ برخوددار نیتن، تمہاری فوجی اور مال امداد کچھ دیر کے لیے بند۔ جب غزہ کے ساتھ جنگ بندی پکی ہو جائے گی تو پھر امداد بحال ہو جائے گی۔اور جنگ بندی ہو جائے گی۔یہ جنگ امریکہ کی مرضی اور امداد پر شروع کی گئی تھی اور امریکہ ہی اس کو بند کروا سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر بے چارے فلسطینیوں کا اللہ ہی حافظ۔پاکستانیوں کو اس بات سے کچھ امید بن سکتی ہے کہ ٹرمپ امریکی ڈیپ سٹیٹ سے واقف ہے اور اس کے خلاف ہے۔ اور پاکستان بھی اپنی ڈیپ سٹیٹ سے نالاں ہے۔ شاید کوئی رستہ نکل آئے؟۔

kamran