سیاہ کرتوت: ذمہ وار کون؟ فوج یاسیاستدان ؟

سیاہ کرتوت: ذمہ وار کون؟ فوج یاسیاستدان ؟

راقم نے گذشتہ کالم میں ایک مفروضہ پیش کیا تھا کہ پاکستان کی افواج نے پاکستان پر قبضہ کر لیا ہے اور اس کے ساتھ وہی سلوک کر رہی ہے جو فاتح عسکریت مفتوحہ قوموں کے ساتھ کرتی ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ فاتحین کے سٹینڈرڈ آپریٹنگ قوائد کیا ہوتے ہیں، ہم نے مصنوعی ذہانت سے سوال کیا، تو جواب ملا، ملاحظہ ہو:
’’یہ تفصیلی ہدایات ہوتی ہیں کہ ایسی صورت حال میں ایک بیرونی فاتح فوج کو کیا کرنا چاہیئے؟ یہ طریق کار کسی حد تک بین الاقوامی قوانین جیسے جنگ کے قوانین، ملٹری ڈاکٹرائن اور سیاسی مقاصد کا مجموعہ ہوتے ہیں:
۱۔ بین الاقوامی قوانین کا اطلاق لازمی ہے۔ جیسے کہ ہیگ کے 1907ء کے قوائد؛ جینیوا 1949 کا کنوینشن جو مفتوحہ علاقوں میں شہریوں کی حفاظت سے متعلق ہے؛ اور اقوام متحدہ کا چارٹر، جس میں شہریوں کی حفاظت ، ان کے حقوق اور جائیداد کی حفاظت یقینی بنانا ہے۔ اور شہریوں کو بحثیت مجموعی سزا نہ دینا شامل ہیں۔
۲۔ فاتح فوج کی ذمہ واری ہے کہ وہ حفظ عامہ کو یقینی بنائے۔ پٹرول اور چوکیاں بنا کر حفاظتی اقدامات لے، قانون کے اندر رہ کر شر پسندوں کو گرفتار کرے، اور سراغرسانی کرے۔معمولی جرائم اور حفظ عامہ کے لیے پولیس کا استعمال۔
۳۔ ملکی ڈھانچے کی حفاظت،جیسے پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ کا نظام برقرار رکھنا، اور شہری نظام کو بلا وجہ نہ بند کرنا۔
۴۔ حکومت اور سول انتظامیہ کو برقرار رکھنا، مقامی انتظامیہ کو برقرار رکھنا ۔ عدالتی نظام کو بر قرار رکھنا۔
۵۔ شہریوں کے ساتھ سلوک: ضابطہ کے مطابق، غیر مسلح اور معصوم شہریوں کو تشدد کا نشانہ نہ بنانا، جبری خانہ بدوشی اور نقل و حرکت پر رکاوٹیں کھڑی کرنے سے اجتناب۔شہریوں اور مزاحمتی لوگوں کو گرفتار کرنا شفاف ہونا چاہیے، اور گرفتار شدگان کی حفاظت اور انسانی سلوک بمطابق بین الاقوامی قوانین ہونا چاہیے۔
۶۔ مسابقہ کے قوانین پر عمل کرنا چاہیے۔ اگر شہریوں کے گھروں پر چھاپے مارنے کی وجہ ہو تو بھی ان کو گزند نہیں پہنچنا چاہیے۔
۷۔ اگر دہشت گردوں، چھاپہ ماروں کے ساتھ مقابلہ ہو تو شہریوں کو اعتماد میں لینا چاہیے۔لوگوں کا دل جیتنا ان کی ہمدردی حاصل کرنا سب سے اچھی حکمت عملی ہے۔
۸۔ نفسیاتی مہمیں۔رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے کیا اور کیسے نفسیاتی پیغامات دینے چاہیئں۔ میڈیا کو کیسے استعمال کرنا چاہیئے۔
۹۔ اقتصادیات پر قبضہ۔ مقامی کرنسی اور بینکنگ سسٹم پرقابو پانا۔ تجارتی راستوں اور وسائل پر کنٹرول
۱۰۔ لوٹ مار، استحصال اور شہریوں سے بد تمیزی کو سختی سے روکنا، کیونکہ ایسی حرکتوں سے مقامی آبادی فوج سے متنفر ہو سکتی ہے۔
ان ہدایات کو اگر غور سے پڑھیں تو پاکستانی فوج بالکل بھی قابض فوج کی طرح کام نہیں کر رہی۔ ہمیں اب کسی اور رخ سے دیکھنا ہو گا۔ اس لیے ہم نے مصنوعی ذہانت سے پو چھا کہ اگر فوج اپنی ہو تو پھر قبضہ کیسے کیا جاتا ہے؟ تو جواب ملا کہ اگر فوج اسی ملک کی ہو تو ایس او پی تھوڑے مختلف ہوں گے۔ یعنی غیر ملکی قابض فوج کے سلوک سے مختلف۔فوج کی دخل اندازی کے مواقع تب بنتے ہیں کہ ملک میںفتنہ فسادبڑھ جائے، اس کے موٹے موٹے نکات یہ ہیں:
۱۔ حکومت مارشل لاء یا ہنگامی صورت حال کا اعلان کر سکتی ہے لیکن یہ سب آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیئے۔بنیادی انسانی حقوق کا احترام ضروری ہو گا جیسے تشدد، بلا اجازت حراست، اور قانون سے بالا ہلاکتیں۔ شہری حکام فوج کی کار کردگی پر نظر رکھیں، اگر یہ قبضہ عارضی ہو تو۔
۲۔ کیونکہ مقصد بد امنی اور بد انتظامی کو روکنا ہے تو حفظ عامہ اور حفاظتی انتظامات کا بند و بست کرنا۔اس کے لیے علاقے میں گشت کرنا، غنڈوںاوربد معاشوں کو گرفتار کرنا، اور ہتھیار بند جتھوں کے ہتھیار لینا۔فوج امن کی بحالی کے لیے فسادی علاقوں میں چوکیاں بنا سکتی ہے اور کرفیو بھی لگا سکتی ہے۔
۳۔ جن علاقوں میں شہری کنٹرول کمزور ہو گیا ہو، وہاں وہ انتظامیہ کے اختیارات استعمال کر سکتی ہے، جب تک کہ حالات معمول کے مطابق ہو جائیں۔کوشش یہ ہو گی کہ حالات جلد از جلد معمول پر آ جائیں اور فوجی سول کو اختیارات واپس کر دیں۔قابض فوج مقامی قیادت، بشمول مذہبی قیادت سے تعاون کرے، تا کہ نظم و نسق کو بحال کرنے میں تعاون ملے۔
۴۔ قبضہ جاری رکھنے کے اصول اور قوائد۔طاقت کا کم سے کم استعما ل تا کہ عوام بد دل نہ ہوں، فوجی کوشش کریں کے جلد از جلد پیچھے ہٹ جائیں۔
۵۔ معصوم شہریوں کی حفاظت کرنا، بلا وارنٹ کے گرفتاری کرنایا برا سلوک کرنا فوج کے لیے اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔مقامی رسومات اور معاشرتی رواج کا احترام کرنا۔
۶۔ اگر کچھ لوگ گرفتار کیے جائیں تو ان سے قانون کے مطابق برتائو کرنا۔ جس کا مطلب گرفتاری کے وارنٹ ہونا، وکیل کا ہونا، اوربلا عدالتی فیصلہ کے،غیر متعین مدت کی قید نہیں ہونی چاہیئے۔ اگر کسی شک کی بنیاد پر گرفتاری کی ہو کہ ملزم باغی ہے یا دہشت گرد ہے،تو بھی بین الاقوامی قوانین کے مطابق اس کے انسانی حقوق کی پامالی نہیںہونی چاہیئے جیسے تشدد کرنا اور غیر انسانی سلوک کرنا۔
۸۔ عوام کا دل و دماغ جیتنا۔ یہ انتہائی ضروری ہے کیونکہ فوج اپنی ہی آبادی کے ساتھ مشغول ہے۔ مقامی قایدین، قبائیلی سرداروں، اور دوسرے سر کردہ عمائدین کا اعتماد حاصل کرنا، باغی گروہوں کے خلاف فضا بنانے کے لیے۔
۹۔ علاقے میں اقتصادی ترقی کروانا، بنیادی سہوتیں مہیا کرنا جیسے طبی سہولتیں، خوراک بانٹنا، سڑکوں اور پلوں کی مرمت، کروانا تا کہ عوام دیکھیں کہ فوج ان کے لیے کیا کر رہی ہے۔اجتماعی سزائیں اور بلا وجہ سزائیں دینا عوام میں بد دلی پیدا کرتا ہے۔مقامی کاروباری اداروں کی مدد کرنا اور عوام تک خوراک، پانی اور ایندھن پہنچانا عوام سے تعاون برقرار رکھنے کاذریعہ ہے۔
۱۰۔ شہری حکومت کی بحالی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس کے لیے انتخابات کروانا، مقامی حکومتوں کی بحالی، اور بتدریج فوج کی واپسی۔
یہ تھی وہ چیدہ چیدہ ہدایات جو اپنی فوج کے لیے تھیں جو نا گزیر وجوہات کی بنا پر عارضی طور پر ملک پر قبضہ کر لیتی ہے۔ پاکستانی کی فوج تو یہ کام نہیں کر رہی۔اس لیے ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ پاکستانی فوج نے ملک پر قبضہ کر لیا ہے، جو عموماً ماشل لاء لگا کر کیا جاتا ہے۔
ملک میں جو گذشتہ دو ڈھائی سال سے ہو رہا ہے ، اس سے یہ تو ماننا پڑے گا کہ فوج نے روائیتی انداز میں ملک پر قبضہ نہیں کیا ہے، بلکہ ا نتہائی خاموشی سے ملکی سیاست میں پوری دلچسپی لے رہی ہے۔ورنہ جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے، خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ، اس کے کارکنوں کے ساتھ اور اسکی قیادت کے ساتھ، وہ کوئی بھی قابض فوج نہ کرتی۔کیونکہ قابض فوجوں پر بین الاقوامی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے ۔ البتہ اگر فوج بجائے خود غلط کام کرنے کے مفتوح حکومت سے وہ کام کروائے تو پھر قصور کس کا؟
اب پاکستان میں جو بھی غلط کام ہو رہے ہیں، جیسے معصوم شہریوں کو گھر سے اٹھانا، ان کے ساتھ تشدد کرنا، ان کے گھر والوں کو بلا وجہ اغوا کر لینا، قیدیوں پر تشدد کرنا، عورتوں، لڑکیوں اور بچوں تک کو اغوا کر لینا اور پھر مہینوں ان کا پتہ نہ چلنے دینا، یہ سب کا م ہو رہے ہیں، لیکن کیا کسی نے ایک موقع پر بھی کسی فوجی کی موجودگی دیکھی؟ نہیں، کیونکہ فوج یہ کام کر کے اپنی شہرت خراب نہیں کرنا چاہتی۔اور بین الاقوامی عدالتوں میں رسوا نہیں ہونا چاہتی۔اسے ضرورت بھی کیا جب کہ دوسرے وہی کام ہنسی خوشی کر دیتے ہیں۔وزیر اعظم کا یہ حال ہے کہ وہ کہتا ہے فوج اور میں ایک جان دو قالب ہیں۔ اس سے زیادہ وفاداری اور کیا ہو سکتی ہے؟
اس لیے بجائے فوج کو برا بھلا کہنے کے، ہمیں ان غدار سیاستدانوں کو ذمہ وار ٹہرانا چاہیئے جو اپنے تمام وسائل، جیسے پولیس اور گلو بٹوں کے دستے عوامی جلسے جلسوں کو تتر بتر کرنے کے کام لاتے ہیں۔ابھی کل کی بات ہے کہ ان ہی حرام خوروں نے نہتے طلباء پر آنسو گیس کے بموں کی برسات کر دی، اور سینکڑوں بے قصور بچوں کو گرفتار کر لیا۔ پھر جب سوچا کہ ان کے جیل پہلے ہی سے بھرے ہوئے ہیں، اور قیدیوں کو کھانا دینے کو بھی نہیں، تو ان کو رہا کرنا پڑا۔یہ واقعہ تازہ ہے۔ ہوا یوں کہ پنجاب گروپ آف کالجز کے ایک کالج میں گارڈ نے ایک طالبہ کا ریپ کیا۔ جو دوسری طالبات نے بھی دیکھ لیا۔ اس پر طلباء مشتعل ہو گئے اور انہوں نے مظاہرے شروع کر دیئے۔یہ مظاہرے آہستہ آہستہ دوسرے کالجوں میں پھیل گئے اور دوسرے شہروں میں بھی۔ اتنے خطرناک حالات کو دیکھتے ہوئے پنجاب کی جعلی وزیر اعلیٰ نے فیصلہ کیا کہ پورے واقعہ سے انکارہی کر دیا جائے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔لیکن طلباء جانتے ہیں کہ سب سچ ہے۔بچی کی ماں نے وڈیو پیغام کے ذریعے واقعہ کی تصدیق بھی کر دی ہے۔
پاکستانی فوج، ایمانداری سے ملک کی خدمت کرنا چاہتی ہے، اسی لیے وہ اپنے افسروں کو ملکی اداروں کی سر براہی کے لیے دے رہی ہے کہ وہ حکومتی کاروبار کو ایمانداری اور بہتر طریقے سے چلائیں۔ مسئلہ تو سیاستدانوں کا ہے جو بہتی گنگا سے ہاتھ دھونا چاہتے ہیں اور لوٹ کھسوٹ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ پولیس سے وہ کام لے رہے ہیں جو امیر لوگ غنڈوں سے لیتے ہیں۔پولیس بھی یہ نہیں سوچتی کے انہوں نے کس بات کاحلف اٹھایا ہوا ہے؟ سب سے بڑی بات کہ سب جانتے ہیں کہ کہ حکومت جو سیاستدان چلا رہے ہیں ان کو عوام نے ووٹ نہیں دیے تھے۔یہ تو ملی بھگت سے ووٹ چرا کر ایم این اے اور ایم پی اے بن گئے۔ اور حاکموں کی اکژ یت ان چوری شدہ ووٹوں کی مرہون منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہ نہیں چاہتی کہ یہ فراڈ کبھی آشکار ہو۔ اگر کازی عیسیٰ چلا گیا اور کوئی ایماندار چیف جسٹس آ گیا تو بادشاہ کامحل دھڑام سے گربھی سکتا ہے؟۔ اس لیے آئینی ترمیمات کے ذریعے ایسے قوانین لانا چاہتے ہیں کہ انہیں کبھی نہ کوئی للکار سکے، ان کی مرضی کے جج لگیں اور عدلیہ ان کی لونڈی۔ اور وہ اگلے انتخابات تک مزے لوٹتے رہیں۔ یہ نادان نہیں سوچتے کہ اگر ان کی جگہ کوئی اور آ گیا تو پھر اس سے کیسے جان چھڑائیں گے؟ اسے کہتے ہیں چاہ کن را چاہ درپیش۔
ایک آخری بات۔ جو سیاسی پارٹیاں عدلیہ کے اختیارات کو آئینی ترمیم لا کر کمزور کرنا چاہتی ہیں اور سیاستدانوں کا محتاج بنانا چاہتی ہیں ، وہ در اصل ملک میںجو آئینی حدود عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ میں رکھی گئی ہیں ان کو بد ل کر سب کچھ وزیر اعظم کو دے دینا چاہتی ہیں، اس کے اثرات مہلک ہوں گے۔ پاکستان قعر مذلت میں دھنس جائے گا اور مدتوں تک اس کا مداوا نہیںہو سکے گا۔صرف اس لیے کہ شہباز شریف اقتدار نہیں چھوڑنا چاہتا خواہ اس کو روزآنہ چیف کے بوٹ ہی کیوں نہ چاٹنے پڑیں؟

kamran