آئی پی پیز ہیں کون ؟
متاثرین ِ بجلی کی جانب سے سوشل میڈیا پر اک اپیل نے ہنسی اور غصے کا ملا جلا تاثر دیا سادہ لوح لوگوں کی بے شعور سی سادگی پر دل مسکرا کر رہ گیا اپیل میں میاں محمد منشاء سے دردمندانہ اپیل کی گئی ہے کہ وہ اللہ کے فضل و کرم سے مسلم کمرشل بنک کے مالک ہیں جو کہ دیگر کئی اثاثہ جات کی ملکیت بھی رکھتے ہیں جن میں ٹیکسٹائل ملز و بینکس شامل ہیں بہتر ہو گا کہ وہ اپنی نجی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرزیعنی آئی پی پیز سے بننے والی بجلی حکومت کو فری دیں تا کہ غریب آدمی پہ بجلی کے اخراجات جو کہ دیگر گھریلو اخراجات سے تجاوز کر چکے ہیں انھیں کسی قدر کم کیا جا سکےظاہر ہے اپیل یا درخواست صاحب ِ ثروت شخصیات سے ہی کی جاتی ہے مگر ہمارے اس معاشرے میں ان پڑھ لوگوں کی سادہ لوحی اور خواندگی کے دعویدار وں کی بےشعوری اس قدر زیادہ ہے کہ کسی کا بھی ماضی جانے بغیر اُس کی بدن بولی کو سمجھے بغیر ہی اُس پر ایمانی درجے کا بھروسہ کرنے لگتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ میاں منشاء ہو یا الائیڈبینک کے مالکان یہ اپنے ملازمین کی جائز پنشن کی مراعات کے اربوں روپے اپنے اختیارات میں لیکر بازار ِ معیشت کے قرم ساق بن بیٹھے ہیں کوئی حکومتی ادارہ ،کوئی ایک منصف حتی کہ کوئی ایک وزیر ِ اؑعظم بھی ان کے اس غیر قانونی ، بیوجہ انقطاع کا سبب نہ جان سکا اور افسوس صد افسوس کہ عدلیہ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرنے پر انھیں پابند ِ سلاسل کرنے کی بجائے تاریخیوں پہ تاریخیں دے کر پنشنرز کے کیسوں کو طوالت دے رہے ہیں؟ موجودہ حکومت اگر مخصوص نشستوں کے کیس میں عدلیہ کے اکثریتی فیصلے کے سامنے کھڑی ہو سکتی ہے تو اس ملک کے محنت کشوں کے جائز حقوق لینے میں انھیں قباحت کیا ہے جو ان رہزنوں سے پنشنرز کے پیسے لینے سے کترارہے ہیں سمجھانا یہ ہے کہ آئی پی پیز میں بھی اسی ذہینت ،ابلیسی صفات کے لوگ ہیں جو اپنی یا اپنی نسلوں کی جھولیاں بھرنے کو مقصد ِ حیات گردانتے ہیںیہ تقدیس پر کالک تھوپنے والا طبقہ آج بھی اُجلے کپڑوں میں اپنی مذموم سرگرمیاں جاری کئے ہوئے ہے اور مقتدر حلقے ہوں یا مسند نشین اشرافیہ سب انھیں نظر انداز کر کے رہزنی کو فروغ دے رہے ہیں قائد کی اس ارض ِ پاک پہ آئی پی پیز کے لبادے میں کئی خاندان چھپے اپنے مفادات کو تحفظ اور خلق ِ خدا کو ضروریات ِ زندگی سے محروم رکھنے کی کاوشوں میں مصروف ہیںمزے کی بات یہ ہے کہ یہ independent power producersجنہیں ہم بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے آئی پی پیز کے نام سے پکارتے ہیں جن کی بیجا قیمتوں سے صارفین ِ بجلی خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں یہ عام آدمی کی زندگی اجیرن بنانے کے لئے روزگار ِ زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ ہیںڈاکٹرز میڈیسن کمپنیز کی جانب سے بیرونی دورے کر کے مہنگی دوائیاں مریضوں کو لکھ رہے ہیں سرکاری سکولوں میں تعلیم نچلے درجے کی جبکہ نجی تعلیمی اداروں میں بھاری فیسوں کے ساتھ تعلیم ایک تجارت بن چکی ہے تجارت میں من مانی قیمتوں کا تعین کرنے والا مافیا آزاد اور ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے حکومتی قیمتوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ،سچائی ظاہر کرنے والا اخبارات پر پابندیاں اور مدح سرائی کرنے والوں کو بیش بہا اشتہارات ،اعلی عہدوں اور سیاست سے وابستہ شخصیات کے فیصلے دنوں میں اور عام شہری جیسے الائیڈبینک کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن والے کیس کا فیصلہ سالوں میں بھی اپنے انجام کو نہ پہنچے تو کربلا اور کوفے کا فرق سمجھنے میں دیر نہیں لگتی نواسہ رسول نے اپنے خاندان کے ساتھ شہادت کا رتبہ پایا تو اسی حق کے رستے کی پیروی میں الائیڈ بنک ریٹائرڈ ملازمین بھی موت کے رستے پر اگلے جہان چلے گئے باقی ماندہ بھی سفر ِ فنا کی راہ میں ہر صبح اُمید باندھے عدالتی فیصلے کے منتظر رہتے ہیںانھیں فیصلہ تو نہیں ملتا مگر اگلی پیشی کی تاریخ ضرور ملتی ہے عدالت کا یہ رویہ اس بات کا تاثر دے رہا ہے کہ جیسے حکومت کچے کے ڈاکو پکڑنے میں ناکام ہے ایسے ہی عدالت بینکس مالکان کو شکنجہ ڈالنے میں جانے کیوں ناکام ہے ؟قانونی رستے کا غریب ملازمین کے لئے بلا ضرورت طویل کرنا حق کی حوصلہ شکنی ہے اور معاشی اداروں پر قابض ان کچے کے ڈاکوئوں کی حوصلہ افزائی ہے غریب ریٹائرڈ ملازمین کے لئے ان ایام کی تلخی اک لاعلاج مرض کی مانند ہے جس سے دشوار زندگی میں مزید اذیتوں کا اضافہ المناک ہے مسیحائی کے اس قحط میں نظر پھر بھی چیف جسٹس فائز عیسٰی اور آرمی چیف سید عاصم منیر ٹھہرتی ہے اور محرومیوں سے لبریز دل اُن سے ہی اپیل کرتا ہے کہ اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے آئی پی پیز کے ذریعے لوٹے گئے عوام کے اربوں روپے واپس کروا دیں تو ملک کے غریب مزدور بھی گرمی میں ایئر کنڈیشنڈ کا استعمال کر سکتے ہیںملکی معیشت کو اور انصاف کی فوری فراہمی کو معاشرے میں سہل کرنے کے اقدامات کرنا ناگزیر ہے بصورت ِ دیگر اگر یہ آئی پی پیز جوہرشعبہ زندگی کے مفادات سمیٹ رہے ہیں ان کو محدود نہ کیا گیا تو ریاستی استحکام بہت سارے بحرانوں کی زد میں آجائے گا فوری انصاف کی منتظر یہ قوم اُس منصف کی آرزو لئے ہوئے جس میںحضرت عمر فاروق کی خوشبو ہو تا کہ معاشی اداروں پہ چھائے ان کچے کے ڈاکوئوں سے معیشت آزاد ہو اور حقوق کی حق تلفی نہ ہو ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر قسم کے آئی پی پیز کے اختیارات کو محدود کر کے عوامی مشکلات کو کم کیا جائے ۔