اولمپکس مقابلے: کچھ دلچسپ مشاہدے
پاکستان، میرا پیارا پاکستان۔ جہاں لیڈروں کو اپنی کرسی بچانے کی پڑی رہتی ہے اور عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کی،وہاں کھیلوں پر مغز مارنے اور ان کی بہتری پر کون سوچے گا؟ اشرافیہ جنہیں ہر کام کی فرصت ہے ان کی اولادیں اس فضول شعبہ کے بجائے کاروبار، زمینیں اور جائدادیں، صنعتیں بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ اور غریب کوئی سر پھرا ہی ہو گا، جیسے کہ ارشد ندیم، جو کھیل کود پر اپنا تن ، من، دھن(جو اس کے پاس تھا ہی نہیں) لگا بیٹھا۔نہ جانے کتنے ارشد ندیم اور اس کی بہنیں، جو کھیلوں میں اپنا نام پیدا کر سکتی ہیں، عدم توجہی کا شکار ہیں۔یہ تو ایک معجزہ سے کم نہیں کہ میاںچنوں کے اس نو جوان نے پاکستان کی تاریخ میں پہلا انفرادی طلائی تمغہ جیت کر دکھایا۔ورنہ پہلے جو تین گولڈ میڈل پاکستان نے جیتے وہ پوری ٹیم ملکر جیتتی تھی۔ اور وہ سلسلہ بھی ۱۹۹۲ کے بعد سے ٹھپ ہو گیا۔ ارشد نے اس یوم آزادی پر قوم کو وہ تحفہ دیا کہ پوری قوم ششدر رہ گئی۔ اشرافیہ اور حکمران طبقہ نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیراس کی کامیابی کو اپنے سر منڈھنے میںایک سے بڑھ کر ایک دروغ بازی کی۔کتنی شرم کی بات ہے۔،مگر یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
اتوار ۱۱۔ اگست کو اولمپکس اپنے اختتام پر پہنچیں۔ارشد غریب کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ اختتامی تقریبات کا لطف اٹھا سکتا۔وہ پہلی فلائیٹ لیکر وطن واپس آگیا۔اب حکام نے جو اس کے ساتھ سلوک کیا، اس پر انعام و اکرام کے اعلانات کیے، اور ساتھ ساتھ ایف بی آر کی طرف سے متضاد خبریں آتی رہیں کے اس کے انعامات پر کتنا ٹیکس لگے گا یا نہیں لگے گا، اللہ خیر ہی کرے۔
ارشد ندیم کے اس ایک طلائی تمغہ نے جتنی خوشی پاکستانیوں کو دی اس سے کہیں زیادہ دکھ ایک ارب کے لگ بھگ بھارتیوں اور ان کے وزیر اعظم کو دیا۔میں تو سمجھتا ہوں کہ وہ جو ایک نیزہ ارشد نے پھینکا جو اسے امر کر گیا، وہ سیدھا بھارتیوں اور نریندر مودی کو جا لگا۔اس کی تکلیف اب انہیں چار سال سے پہلے تو نہیں جاتی دیکھائی دیتی۔اتنی تکلیف تو پاکستان کی فوج اور سیاستدانوں نے کبھی بھارت کو نہیں پہنچائی ہو گی۔یہ کوئی خوشی کا مقام نہیں چونکہ عزت اور ذلت تو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔بھارت کو صدمہ اس وجہ سے ہوا کہ انہیں بھی اپنے کھلاڑی چوپڑا سے اسی کھیل میںسونے کے تمغہ کی آس تھی۔جب وہ تمغہ پاکستان کو مل گیا اور بھارت کو کسی اور مقابلے میں طلائی تمغہ نہیں ملا تو ان کی مایوسی کی کوئی انتہا نہ رہی۔اب ممکن ہے کہ بھارتی حکومت اپنی کھیلوں پر زیادہ توجہ دے اور آیندہ مقابلوں میں زیادہ تیاری کے ساتھ جائے؟ اس کا سہرا بھی ارشد ندیم کے سرہو گا۔
پیرس کے ان مقابلوں میں کانٹے دار مقابلہ تو امریکہ اور چین کے درمیان تھا۔ آخر وقت تک چین ۴۰ سونے کے تمغے جیت چکا تھا اور امریکہ ۳۹۔لیکن خدا کا کرنا کہ امریکہ بھی چالیسواں سونے کا تمغہ جیت گیا اور اس کے کل تمغوں کی تعداد ۱۲۶ ہوگئی۔ جب کہ چین کے کل تمغوں کی تعداد ۹۱ تھی۔امریکہ نے ۳۴ تمغے اتھلیٹکس میں لیے اور ۲۸ پیراکی میں۔
مسلمان ملکوں میںسے سب سے زیادہ تمغے ازبکستان نے لیے جو ۱۳ تھے جن میں ۸ سونے کے تھے۔ ان میںپانچ سونے کے تمغے باکسنگ میں تھے۔دوسرا اسلامی ملک ایران تھا جس نے ۱۲ تمغے جیتے جن میں سے دو سونے کے تھے۔آذربائیجان نے سات تمغے لیے جن میں سے ۲ سونے کے تھے۔بحرین نے بھی دو سونے کے تمغے جیتے۔کل چار تمغے لیے۔سونے کا ایک تمغہ اتھلیٹکس میں اور ایک کشتیُ میں تھا۔الجیریا نے بھی دو سونے کے تمغے لیے،اور انڈونیشیا نے بھی دو سونے کے تمغے حاصل کیے۔قزاکستان،مصر، تیونس، مراکش اور پاکستان نے ایک ایک سونے کا تمغہ لیا۔ٹرکی نے آٹھ کانسی اور چاندی کے تمغے لیے، کرغزستان نے چھ، کوسوو نے ۲، اردن نے ایک،ملیشیا نے ۲ کانسی کے، تاجکستان نے تین، البانیہ اور ملیشیا نے دو،اور دو، اور قطر نے ایک کانسی کاتمغہ جیتا۔بس اسلامی ممالک کی یہی داستان ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ باوجود وسائل کے اسلامی ممالک کھیلوں پر سرمایہ کاری پر ایمان نہیں رکھتے۔ یا ان کے پاس وسائل کی کمی ہے یا اندرونی ترجیحات میں کھیلوں کا کوئی مقام نہیں۔مثلاً سعودی عرب اور امارات، جن کے پاس وسائل کی کمی نہیں، ان کے کھلاڑیوں نے کوئی میڈل نہیں جیتا۔اسلامی ممالک میںخواتین کھلاڑیوں کو یا تو ویسے ہی دبایا جاتا ہے ، یا محدود قسم کے مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت ملتی ہے۔ ورنہ اور ملکوں کی خواتین نے برابر کا حصہ لیا۔ نیدر لینڈ کی ایک مسلمان خاتون سفان حسن نے تودس ہزار میٹز کی میراتھون میںسونے کا تمغہ جیت لیا۔اس کے ساتھ پانچ اور دس ہزار میٹرز کی ریسوں میں کانسی کے دو تمغے علیحدہ لیے۔کوسوو کہ دو خواتین نے جوڈو میں چاندی اور کانسی کے تمغے جیتے۔
اولمپکس میں کسی کو سونے کا تمغہ حاصل کرنے کا مطلب ہے کہ وہ کھلاڑی ساری دنیا کا بہترین سند یافتہ کھلاڑی ہے۔ یہ کتنا بڑا اعزاز ہے۔جیسے راشد ندیم نے ثابت کر دیا کہ وہ دنیا کا سب سے بہتر نیزہ باز ہے۔اور اس نے سند کے طور پر سونے کا تمغہ لیا۔
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان پچیس کروڑ کا ملک ہے جس کی زیاد تر آبادی نو جوان ہے۔ان نوجوانوں کو اگر مناسب مواقع ملیں تو پاکستان کیوں نہیں آٹھ دس سونے کے تمغے لینے والا ملک بن سکتا؟ لیکن وہ اس لیے نہیں بن سکتا کہ باقی تمام شعبوں کی طرح یہ شعبہ بھی کرپشن زدہ ہے۔ اول تو کرکٹ نے پاکستانیوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ رکھی ہے۔ کیونکہ کرکٹ سے بہت سی گیٹ آمدنی ملتی ہے جو کسی اور کھیل میں نہیں ملتی۔ دوسرا جو تھوڑی بہت سرکاری امداد ملتی بھی ہے تووہ پتہ نہیں کہاں جاتی ہے؟۔اس کی مثال پاکستان کی اولمپکس کی کمیٹی ہے جس میں کم وبیش تیس افسران کام کرتے ہیں۔اور حال یہ ہیء کہ ۱۹۹۲ سے اس کے وفد باقاعدگی سے سج دھج کر ہر اولمپکس مقابلے پر پہنچ جاتے ہیں اور ان کے جتھے میں کھلاڑی کم اور ان کی تربیت اور دیکھ بھال کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں، پاکستان کو چالیس سالوں میں ایک کانسی کا تمغہ بھی نہیںملا۔کوئی ان کمیٹی والوں سے پوچھے کہ بھائی آپ کس بات کا پیسہ لیتے ہیں؟کیوں نہیں اس کام کو نجی شعبے کو ٹھیکے پر دے دیتے؟
زندہ قومیں ایسے انتظامات کرتی ہیں کہ بہترین کھلاڑی خود بخود ابھرتے چلے آتے ہیں۔اگر امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ میڈل لینے کا امتیاز حاصل ہے تو اس کی وجہ ہے۔یہ اس کا تعلیمی ڈھانچہ ہے جہاں ہر سطح پر سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز میں پیراکی، اتھلیٹکس، اور کئی دوسرے کھیلوں کی سہولیات ہوتی ہیں اس کے ساتھ تربیت کرنے والے اساتذہ بھی ۔یہ سلسلہ چھوٹے شہروں، ریاستی سطح اور قومی سطح ، سب پربنا ہوا ہے۔ اس وجہ سے اچھے سے اچھے کھلاڑی بین الاقوامی اور علاقائی مقابلوں میں حصہ لینے چلے آتے ہیں۔ لڑکے اور لڑکیاں، دونوں۔کچھ کھیل ایسے ہیں کہ ان کے لیے سہولیات خاصی مہنگی ہوتی ہیں جو صرف صنعت یافتہ ممالک ہی بنا سکتے ہیں۔جیسے پچاس میٹر کے پیراکی کے تالاب، یا ایسے جمنیزیم جہاں عمدہ لکڑی کے فرش ضروری ہوتے ہیں، اور وہ ہائی سکولوں میں بنے ہوئے ہیں۔ان سہولتوں کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے مقابلے ہر سطح پر متواتر ہوتے رہتے ہیں۔جن کے نتائج کو بغوردیکھا جاتا ہے۔اور اچھے نتائج حاصل کرنے والے طالب علموں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ جیسے اچھے کالجز میں داخلہ اور فیسیں معاف، وغیرہ۔امریکہ کے ہر سکول میں طلباء کو مفت یا سستے کھانے کی سہولت ہوتی ہے۔جس سے کھلاڑیوں کو خوراک کی کمی کا مسئلہ نہیں ہوتا۔
غریب ممالک میں، کھیلوں کی زیادہ سہولتیں بڑے شہروں یا دارالحکومت میں ہی ملتی ہیں وہ بھی محدود پیمانے پر۔ خوراک ہر کھلاڑی خود مہیا کرتا ہے۔ اور ٹرینربھی ہر کھیل کے لیے نہیں ملتے۔ ویسے بھی درسگاہوں میں سارا زور تعلیم پر ہوتا ہے اور نصاب سے باہر کی سر گرمیوں پر نہ ہونے کے برابر۔اسلامی ممالک میںتو ایک بڑا مسئلہ مردوں اور عورتوں کے لیے دوہرے انتظامات کا ہوتا ہے۔ان میں عورتیں ہی اکثر محروم رہتی ہیں۔اور اس کے علاوہ شرعی لباس کی بندش کی وجہ سے عورتیں کئی کھیلوں میں حصہ نہیں لے سکتیں ۔ اس طرح سے کھلاڑیوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ جب عالمی اور علاقائی کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں تو سرکاری افسران کی ایک بڑی تعداد چند کھلاڑیوں کے ساتھ ضرور پہنچ جاتی ہے، اگرچہ ایک بھی تمغہ نہ ملے۔یہ خاصا مضحکہ خیز مشاہدہ ہوتا ہے۔جیسے بھارت کا ۱۱۷ کھلاڑیوں کا جتھا پیرسگیا اور صرف چھ نے تمغے لیے اور ان میں صرف ایک چاندی کا اور باقی کانسی کے۔
اب پیرس کی اولمپکس کے حوالے سے کچھ دلچسپ اعداد و شمار ملاحظہ ہوں:
اولمپکس کے مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے دنیا بھر سے ۲۰۶ اولمپکس کمیٹیوںکے تقریباً گیارہ ہزار کھلاڑی آئے۔ کل ۳۲ کھیلوں کے ۳۲۹ مقابلے ہوئے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ۶۳۷ کھلاڑیوں نے کل ۱۲۶ تمغے لیے جن میں ۴۰سونے کے تھے۔ اس کے بعد فرانس نے ۵۹۶ کھلاڑی اتارے جنہوں نے کل ۶۴ تمغے لیے جن میں ۱۶ سونے کے تھے۔کچھ ممالک ایسے ہیں جو کھلاڑی تو بھیجتے ہیںلیکن ان کو کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی جیسے نیپال ، یمن اور کئی اور۔ بنگلہ دیش ۱۹۸۴سے باقاعدگی سے حصہ لیتا رہا ہے لیکن کبھی کوئی تمغہ نہیں لے سکا۔ ان کھیلوں کا ایک دلچسپ اور نمایاں پہلو یہ تھا کہ مرد اور عورت کھلاڑیوں کا تناسب برابر تھا یعنی ۵۰ فیصد مرد اور اتنی ہی فیصدعورتیں ۔
ایک انتہائی قابل غور بات۔ اولمپکس میں اب تک کرکٹ شامل نہیں تھی، لیکن آئندہ آنے والی اولمپکس میں جو ۲۰۲۸ء میں ہوںگی، کرکٹ شامل ہو گی جو غالباً بھارت کی کوششوں کا نتیجہ ہے، کیونکہ بھارت کو اسی کھیل میں سونے کا تمغہ ملنے کا امکان نظر آتا ہے۔اب اس کی تیاری بھارت کر رہا ہے۔ادھر پاکستان نے اپنی کرکٹ کا بیڑہ غرق کر لیا ہے۔ کیا یہ آنے والے چار سالوں میں کرکٹ میں کوئی بھی تمغہ لے سکے گا؟ لگتا تو نہیں پر شاید؟جب تک محسن نقوی جیسے نا اہل اس کھیل کے ساتھ چمٹے رہے، کسی بہتری کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
بھارت نے ـ’’کھیلو بھارتـ‘‘ کے پروگرام میں تمام ریاستوںکو خطیر رقومات دی ہیں کہ وہ کھیلوں پر توجہ دیں۔بھارت ۲۰۳۶ میں اولمپکس کروانے جا رہا ہے۔ ان ۱۲ سالوں میںاگر کھیل کے میدان میں ایک بڑا انقلاب نہ آیا تو بھارت کو شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔ لیکن اس پر کام جاری ہے۔ اگرچہ بھارت کی آبادی نا مناسب اور کم خوراک، بچوں میں پستہ قدی کا مسئلہ اور غربت کے مسائل پاکستان سے بھی زیادہ ہیں،لیکن اس کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ چند اچھے کھلاڑی بنا لینا کوئی ایسا مشکل کام بھی نہیں ہو گا۔لیکن اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان میں ایسے کوئی امکانات نہیں ۔ یہاں پرنالہ وہیں گرے گا۔ جب تک ملک سے کرپشن ختم نہیں ہو گی، اور بنیادی مسائل ختم نہیں ہو نگے، کھیلوں میں کوئی اتفاقیہ ہی کامیابی مل جائے جیسے کہ ارشد ندیم نے دلوائی، ہمارے لچھن ایسے نہیں کہ اولمپکس جیسے مقابلوں میں کوئی اور کامیابی ملے۔ہم دعا کرتے رہیں گے۔