مضحکہ خیز!
دھرنے
ہر طرف بے چینیاں برپا ہوئیں
سامنے محشر مجسم آگیا
زندگی میں تلخیاں بڑھنے لگیں
ملک میں دھرنوں کا موسم آگیا!
ہماری حکومت نے بجلی چوروں کو سبق سکھانے اور انہیں قانون کی زد میں لانے کے لئے علیحدہ تھانے قائم کرنے اور الگ پولیس بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور بڑی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس نئے انتظام کا سارا خرچ عوام سے وصول کیا جائے گا یعنی عوام پہلے ہی سے قیامت خیز بلوں کی ادائیگی کے ساتھ یہ زائد رقم بھی ادا کریں گے۔ اس وقت حکومتی اور نجی بجلی کمپنیز کی لوٹ کھسوٹ پورے ملک کی بحث کا محور بنی ہوئی ہے۔ عبوری حکومت کے وزیر جن کے دائرہ اختیار میں بجلی کے محکمے بھی آتے تھے بجلی کے تمام معاہدوں کی تفصیل اور بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو اربوں روپے فائدہ پہنچانے کی معلومات بھی اپنے ساتھ لے آئے اور جوں ہی انہوں نے یہ درپردہ حقائق آشکار کئے اور بجلی کے لرزا دینے والے بل منظر عام پر آئے تو پورے ملک میں افراتفری پھیل گئی۔ ذرائع ابلاغ ہر روز عوام کی دگرگوں صورت حال کی تفصیل بتارہے ہیں کہ کس طرح بہت محدود آمدنی رکھنے والوں سے بھی بجلی کے بلوں کے ذریعے خطیر رقم وصول کی جارہی ہے۔ فی زمانہ اور خصوصاً اس گرم موسم میں بجلی کا استعمال ناگزیر ہے۔ اس لئے مجبوراً اور طوعاً و کرہاً عوام قرض ادھار لے کر یا اپنے اثاثے فروخت کر کے یہ بل ادا کررہے ہیں۔ اس ذیل میں ایک اطلاع اور بھی ہے کہ آنے والے مہینوں میں ان بلوں کی رقم میں مزید اضافہ ہو جائے گا نوبت بہ ایں جا رسید کہ ذرائع ابلاغ نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ ایک بیمار عورت نے اپنی بیماری کے علاج کے لئے جو رقم اکٹھی کی تھی وہ مجبوراً بل کی ادائیگی میں دے کر اور اپنے علاج سے مایوس ہو کر خودکشی کر بیٹھی۔ بجلی کے بلوں نے پورے ملک میں ہاہا کار مچا رکھی ہے۔ ہر جگہ یہی ذکر ہے کہ بجلی کے بل مار گئے۔ حکومت ہر ممکن کوشش کررہی ہے کہ کسی طرح عوام کو اس ذیل میں کچھ سہولت دی جائے۔ اس نے اس سہولت کے ذیل میں کئی سو ارب روپے سبسڈی دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ حکومت کے ذہن میں کئی چیزیں ہیں مثلاً بلوں کو قسطوں میں ادا کرنے کی سہولت دی جائے۔ دیر سے ادائیگی کے جرمانے سے صرف نظر کی جائے لیکن بنیادی طور پر بل کی رقم اتنی خطیر ہوتی ہے کہ ان آسانیوں سے بھی عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور اس تمام خرابی کی جڑ ہیں وہ بجلی بنانے کے ادارے جن سے معاہدہ کرتے وقت کسی بات کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ یہ ادارے پوری بجلی بنائیں یا نہیں انہیں پوری رقم ادا کی جاتی ہے اور اس رقم کی ادائیگی ہی نے حکومت کو گلے گلے قرض میں ڈبو دیا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم نے بجلی کے بلوں میں اضافہ آئی ایم ایف کی ہدایت پر کیا ہے اور ہم یہ اضافہ کرنے پر مجبور ہیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو آئی ایم ایف ہم سے معاہدہ ختم کرلے گی اور خدانخواستہ ہم ’’دیوالیے‘‘ کی دہلیز تک پہنچ جائیں گے۔ باخبر افراد بتاتے ہیں کہ حکومت میں شامل کئی افراد یا ان کے اہل خاندان بھی حکومت کو بجلی فراہم کرتے ہیں اس لئے حکومت اس ذیل میں کوئی قدم اٹھانے سے مجبور ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان نازک حالات میں حکومت یہ عظیم ذمے داری قبول کر لے گی کہ بجلی بنانے والے اداروں سے نرخوں میں کمی کی بات کرے یا کم سے کم انہیں اس بات پر ’’مجبور‘‘ یا قائل کرے کہ ملک کی بگڑتی ہوئی صورت حال میں وہ معاہدوں میں ردوبدل کر کے عوام کو بھاری بلوں سے نجات دلائیں۔ اس وقت ملک دھرنوں کی زد میں ہے۔ نئی سیاسی جماعت ’’عوام پاکستان‘‘ علامتی دھرنا دے چکی ہے اور جمعیت علمائے اسلام دھرنا دینے اور احتجاج کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔ جماعت اسلامی یہ کالم قلمبند کرتے وقت دس دن سے دھرنے پر موجود ہے اور وہ یہ دھرنا پورے ملک میں پھیلانے کا اعلان کر چکی ہے بلکہ کراچی میں وہ گورنر ہائوس کے سامنے دھرنا دے چکی ہے۔ سندھ کے گورنر نے دھرنے میں شامل افراد کا بڑے تپاک سے استقبال کیا اور اعلان کیا ہے کہ بزرگ اور بیمار حضرات گورنر ہائوس میں آرام کر سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی برملا اعلان کررہی ہے کہ بجلی بنانے والے اداروں میں حکومت شریک غالب ہے وہ غالباً آغا حشر کاشمیری کے اس شعر کو اس طرح پڑھ رہے ہیں؎
داورِ حشر مرا نامہ اعمال نہ پوچھ
اس میں کچھ تخت نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
بجلی چوروں کے لئے حکومت نے اعلان کیا ہے کہ پہلے پولیس اور تھانوں کی شروعات خیبرپختونخوا سے ہو گی آج کل حکومت اور خیبرپختونخوا کے تعلقات جس طرح چل رہے ہیں ان کے پس منظر میں خیبرپختونخوا وہاں اس طرح کی پولیس کے اور تھانوں کے قیام کے ذیل میں کبھی بھی حکومت سے تعاون نہیں کرے گی۔ بجلی کی قیمتوں کو کم کرنے اور رکھنے کے لئے حکومت کو بادل نخواستہ بجلی پیدا کرنے والے اداروں سے بات کرنی ہو گی اس مسئلے کا یہی واحد حل ہے۔ خدا کرے کہ حکومت جلد اس بات پر عمل پیرا ہو سکے۔