اصل آزادی کب ملے گی؟اور اولمپکس؟

اصل آزادی کب ملے گی؟اور اولمپکس؟

اہل پاکستان کو 78واںیوم آزادی بہت بہت مبارک ہو۔جس طرح یکے بعد دیگرے ہمارے حکمرانوں نے ملک کو لوُٹا، اور اس کی جڑوں میں پانی بھرا، یہ صرف اُس قادر مطلق کی عنایت ہے کہ ملک ابھی تک قائم و دائم ہے۔ خواہ کسی بھی حال میں۔ جب پاکستان آزاد ہوا تھا تب بھی بجلی آتی جاتی رہتی تھی اور آج بھی وہی سماں ہے۔جس چیز نے ترقی کی اور بے پناہ ترقی وہ صرف پاکستان کی آبادی نے۔جو تین کروڑ سے بڑھ کرچوبیس کروڑ کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔اللہ کی دین ہے۔ اس کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے۔پاکستان جب بنا تو کتنے ہی لوگ چھت کے بغیر تھے۔ اور آج بھی ۔ اس وقت بھی بارشوں کا پانی شہری علاقوں میں سیلاب کی شکل میں آتا تھا، اور آج بھی۔ اس وقت بھی دودھ والے کسی گاہک کو مایوس نہیں لوٹاتے تھے اور آج بھی۔ وہی پانی پتلا دودھ یا ملاوٹی دودھ مل جاتا ہے۔سڑکیں ویسے ہی ٹوٹی ہیں اور شہری سہولتیں بھی کبھی مل ہی جائیں گی۔
صرف حکمرانوں پر سارا الزام دھرنا اچھی بات نہیں کیونکہ ان حکمرانوں کو لانے والے تو اکثر ہم لوگ ہی تھے۔بھلا پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو کون حکومت میں لایا؟ وہ آپ کے ووٹ ہی کی طاقت تھی۔اور جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا کہ فوجی حکمرانوں کو بھی لانے والے سیاستدان ہی تھے۔خیر جنرل صاحب نے تو یہ کہنا ہی تھا۔ جیسے وہ بھولے بھالے، چند سیاستدانوں کے کہنے پرمارشل لا لگا کر حاکم بنتے تھے۔اور پھر انتخابات کا لارا دیکر دس دس سال حکومت چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے تھے۔اس میں بھی عوام کا ہی قصور ہے۔عوام نے نہ تعلیم کا شوق کیا نہ ملکی حالات میں دلچسپی لی۔ وہ کسان کے کولہو کے بیل کی طرح بس ایک دائرے میں چلتے رہے اور چارہ مل جانے پر صابر و شاکر رہتے رہے۔جتنی تکلیفیں آتیں، مہنگائی ہوتی، بجلی کے بل بڑھ جاتے، گیس نہیں آتی، بچوں کو روز گار نہیں ملتا، بیوی بچے بیماریوں میں مبتلا ہوتے اور دوا دارو نہیں ملتا، ہر حال میں اپنی قسمت کو کوس کر صبر شکر کرتے۔کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ ان عوام کو کبھی کسی نے یہ نہیں سکھایاکہ بھائی اپنی مشکلات کا حل تم نے خود نکالنا ہے۔یہ اس لیے کہ اگر عوام نے اپنی مشکلات کا حل نکالنے پرغور کرنا شروع کر دیا تو وہ اپنے پر مسلط حرام خور حاکموں کا محاسبہ کرنے پر بھی غور کر سکتے تھے۔ اس لیے حکومتوں نے اپنی مدد آپ کی رسم کو کبھی پنپنے نہیں دیا۔یہ ایوب خان کے سنہرے دور میں دیہات سدھار مہم کے ذریعے شروع کیا تھا۔ لیکن پانچ سال کے بعد ہی اس منصوبے کو سپرد خاک کر دیا گیا۔اس کے ساتھ ہی تعلیم بالغان، اپنی مددا ٓپ،اور بیسیوں اچھی سکیمیں سپرد خاک کر دی گئیں۔
اب دیکھیے، کہ بنگلہ دیش میں کیا ہوا؟ بنگلہ دیش پر کئی سالوں سے شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی حسینہ واجد ایک مطلق العنان حاکم کی طرح حکومت کر رہی تھی۔ جماعت اسلامی کے قائدین اور ہر وہ شخص جس کس پر پاکستانیوں کی حمایت کا شبہ ہوتا تھا اسے تختۂ دار پر لٹکا دیتی تھی۔وہ سچے دل سے بھارت کی ملازمہ تھی۔اور انہیں کے مشورے پر چلتی تھی۔ اس نے پہلے دن سے قانون بنایا کہ جن لوگوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا ان کو اور ان کے بچوں کو حکومت ہمیشہ نوکریوں میں ترجیح دے گی خواہ وہ اس حیثیت کے قابل ہوں یا نہ ہوں۔یہ سلسلہ اب ان کے بچوں کے بچوں تک آ پہنچا۔ اس ترجیحی نظام کے نتیجے میں جو قابل نوجوان تھے اور ایسی نوکریوں کے زیادہ حقدار ان کو نہیں لیا جاتا تھا، اس سے طلباء میں تشویش بڑھنی شروع ہوئی اور ایک دن یہ لاوا پھٹ پڑا۔ یہ طلباء احتجاج پر سڑکوں پر نکل آئے۔ حسینہ واجد نے حسب عادت پولیس کو کہا کہ انہیںزبردستی روکواور احتجاج ختم کروائو۔ لیکن اس دفعہ حسینہ غلطی کھا گئی۔ جب احتجاجی ہلاک ہوئے تو طلباٗ میں غصہ اور طیش اور زیادہ ہو گیا اور وہ اور بھی زیادہ سڑکوں پر امنڈ آئے۔قصہ مختصر جب چار لاکھ کا ہجوم ہو گیا تو پولیس اور فوج دونوں نے ہاتھ اٹھا لیے اور حسینہ کو بھاگ جانے کا مشورہ دیا۔ اس نے پہلے ہی سوچ رکھا تھا۔ وہ فوجی ہیلی کاپٹر پر بیٹھی اور سیدھے اپنے مربیوں کے پاس بھارت چلی گئی۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ احتجاجیوں نے فوج کی بنائی ہوئی حکومت سے صاف انکار کر دیا اور خود عبوری حکومت بنائی۔جس کے سربراہ بنگلہ دیش کے مشہور رفاہی کارکن اور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر یونس ہیں۔ اب حسینہ کے وفا دار ظالم فوجی افسروں اور دوسرے افسران کو چھانٹ چھانٹ کر گرفتار کیا جا رہا ہے اور انہیں ان کے عہدوں سے الگ کیا جا رہا ہے۔ بالکل انقلاب فرانس کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ کیونکہ پاکستان میں بھی ویسے ہی حالات ہیں جیسے کہ بنگلہ دیش میں تھے، اس قسم کی تبدیلی لائی جا سکتی ہے؟ بات تو سہی ہے۔ لیکن ہمارے طلباء کو ایک مدت سے سیاست میں دلچسپی نہ لینے کا سبق پڑھایا گیا ہے۔ آخری مرتبہ جب پنجاب کے طلباء نے احتجاجی جلوس نکالا تھا اور اس میں راقم نے بھی ٹانگ پر پولیس کی لاٹھی کھائی تھی وہ تب ہوا تھا جب امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے سویز کنال پر حملہ کیا تھا۔ پورے مال روڈ لاہور پر طلباء نعرے مارتے مارچ کرتے کرتے اسمبلی ہال تک پہنچ گئے تھے۔لیکن اس واقع کے بعد حکومت نے طلباء کے احتجاجوں کو ختم کروا دیا۔پاکستانیوں نے کئی موقعوں پر پُر امن اور با تشدد احتجاج ہوئے جن میں بینظیر کے قتل کے بعد سندھی جیالوں نے پُر تشدد احتجاج بھی کیے جن میں لوٹ مار، جلاوء گھیراو، سب کچھ ہوا۔جب عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو احتجاج کروایا گیا اور ۹ مئی کے واقعات سٹیج کیے گئے۔عمران خان کے احتجاجوں کی تاریخ لمبی ہے۔ ایک میں تو ان پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا، لیکن خان نے کبھی اپنے حامیوں کو لوٹ مار اور جلائو گھیرائو پر نہیں اکسایا۔اور آج بھی عمران خان کی وہی پالیسی ہے کہ احتجاج ہمیشہ قانون کے اندر رہ کر اور پُر امن ہونا چاہیے۔
اب خان نے عوام کو13اگست کی شام گھروں سے باہر نکلنے کی دعوت دی ہے کہ وہ نکلیں اور اپنی تکلیفوں کی وجہ سے حکومت وقت سے احتجاج کریں۔ خان کی اور تحریک کے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کریں۔ اگر یہ پیغام عوام اور تحریک کے ارکان تک پہنچ جاتا ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ عوام گھروں سے نکل آئیں۔ ان کی تعداد اور جوش جذبہ سے پھر اندازہ لگایا جا سکے گا کہ آئیندہ کیا لائحہ عمل صحیح رہے گا؟
بنگلہ دیش سے موازنہ کرتے وقت یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ملک ایک آگ سے نکلا تھا اور اس کے باسیوں نے ایک دہشتناک وقت گذارہ تھا۔ اس کے طالب علم پہلے بھی مظاہروں سے اپنے مطالبات منوانے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ پاکستانی طلباء کو ایسا کوئی تجربہ نہیں، اگرچہ ان کو اکسانے اور متحرک کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ پنجاب یونیورسٹی میں ، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور کچھ دوسرے اداروں میںتو یہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے طالب علم اور عوام واقعی مہنگائی، بجلی کے بلوں، اور روز مرہ کی ضروریات کی قیمتوں کے خلاف تحریک انصاف کا ساتھ دیں گے ؟
فوج کو بھی معلوم ہے کہ ان کی راج دھانی کے دن گنے ہوئے ہیں۔ وہ موجودہ غلام حکومت سے زیادہ سے زیادہ مراعات، زمینیں اور عہدے حاصل کر رہی ہے۔ شہباز شریف کو نہ ملک کی پرواہ ہے اور نہ مستقبل کی ، وہ صرف اپنی حکومت کے نشے میں سب کچھ منظور کیے جا رہا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ قوم کو بہت دیر تک بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ جب تک اس کی آنکھ کھلے گی سکھر بیراج سے بہت سا پانی گزر چکا ہو گا۔جب اسے بھنک پڑ گئی کہ اب اور حکومت نہیں چلے گی تو آرام سے کسی بھی فلائٹ سے لندن بھاگ جائے گا۔ وہاں چوری کا پیسہ، آرام دہ فلیٹ اور سب سہولتیں موجود ہیں۔ اور شاید ایک دو بیگمات بھی۔راوی بس چین ہی چین لکھتا ہے۔
بڑے بھائی جان نے فوجیوں سے سودا کیا، اس کے فائدے اٹھائے، لیکن اپنی روح بیچنے کے بعد ، جب انہیں قیمت چکانے کا پتہ چلا تو چل پتہ گیا۔اب نواز شریف بڑی مشکل میں ہیں۔ ان کو نہ صرف عوام نے ان کی توقع کے مطابق ووٹ نہیں دئیے، نہ وہ پذیرائی جس کی ان کو توقع تھی۔ ان کو معلوم ہے کہ جو سیٹ ملی وہ چوری کی ہے اور کبھی بھی چھن سکتی ہے۔ یہ خیال ان کو کھائے جا رہا ہے۔اب ان کو اپنے اصلی وطن جانے نہ دیا گیا تو کیا ہو گا؟
اب جاتے جاتے ایک اچھی خبر کی نشاندہی کرنا ضروری ہے ،پاکستان کے کھلاڑی ارشد ندیم نے نیزہ بازی میں سونے کا تمغہ جیت لیا۔ باقی کے چھ کھلاڑی ایک بھی تمغہ نہیں جیت سکے۔۔ البتہ ابھی ایک دن باقی ہے۔ارشد ندیم میاں چنوں کے شہر کے ایک مڈل کلاس گھرانے کا فرد ہے جس نے اپنی ہمت، محنت شاقہ اور لگن سے یہ رتبہ حاصل کیا۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا’’ذرا نم ہو تو بہت زرخیز ہے یہ مٹی ساقی‘‘ 1992سے اب تک کسی بھی اولمپک مقابلے میں جن میں پاکستان کی ٹیمیں حصہ لیتی رہی ہیںایک تمغہ بھی نہیں لے سکیں تھیں۔اس دفعہ پاکستان نے چار کھیلوں کے مقابلوں میں سات کھلاڑی بھیجے اور ان کی امداد کے لیے تیرہ بندے بھی۔ اس وفد میں ایک لیفٹیننٹ کرنل بھی شامل کر دیے گئے تھے ہو سکتا ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ ہو ۔رانا ثنا اللہ اور ان کی اہلیہ کو بھی دیکھا گیا لیکن وہ غالباً ہنی مون منانے پیرس گئے تھے اور سرکاری وفد کا حصہ نہیں تھے۔پاکستان نے 1954سے 1992تک تین سونے کے تمغے لیے، تین چاندی کے اور چار کانسی کے۔اور پھر 32سال تک ستاروں میں روشنی نہیں رہی۔پاکستان نے اس دفعہ جو ٹیم بھیجی اس میںخواتین بھی تھیں جو ایک اچھا شگون ہے۔آخر کار، 25کروڑ کی آبادی میںایک کھلاڑی تو نکلا جس نے طلائی تمغہ جیت لیا۔بہت بہت مبارک ہو۔ اب اتنا اعزاز حاصل کرنے والے کے ساتھ خدا نہ کرے کہ وہ سلوک نہ ہو جو کپتان عمران خان، ملالہ یوسفزئی ، ڈاکٹر عبدل قدیر خان اور دوسرے اعزاز پانے والوں کے ساتھ کیا گیا۔
انتظامی لحاظ سے،پاکستان میں اولمپکس کی ایک قومی سطح کی کمیٹی ہے جو ان معاملات پر نہ صرف غور و خوض کرتی ہے بلکہ وہی یہ بھی فیصلہ کرتی ہے کہ کون سے کھلاڑی اس قابل ہیں کہ ان عالمی مقابلوں میں کون کھلاڑی قسمت آزمائی کر سکیں۔آپ یہ جان کر حیران تو ہونگے کہ اس کمیٹی کے عہدیداروں کی تعداد 31کے لگ بھگ ہے۔ اور بڑے بڑے معتبر افراد اس کے عہدیدار ہیں۔ اس کا بہت بڑا بجٹ ہے جو مل بانٹ کر کھایا جاتا ہے۔ اگر اس کمیٹی کا ہر عہدیدار کم از کم ایک کھلاڑی کی نگہداشت اور صحیح تربیت کا ذمہ لے لے تو سال میں ہمارے پاس 31کھلاڑی ہو سکتے ہیں جو کسی بھی مقابلے میں فتح مند ہوں۔لیکن یہ ہدف بھی ناکافی ہو گا۔ اصل ہدف تو یہ ہونا چاہیے کہ ہر رکن کمیٹی کسی ایک کھیل کے ذمہ واری لیکر، ملک کے ہائی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز میں اسے مقبول بنائے، اس کے لیے ضروری مالی امداد مہیا کرے اور راہنمائی کرے۔تب تو ممکن ہے کہ پاکستان باعزت طریقے سے ان عالمی مقابلوں میں حصہ لینے کے قابل ہو سکے۔ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر ضلع میں کھیلوں کی ایک ضلعی کمیٹی بنے جو ضلع کے ہر ہائی سکول، کالج اور یونیورسٹی میں کھیلوں کی سہولتیں مہیا کرے، ان تعلیمی اداروں کو کھیلوں سے متعلق اہداف بنائے، اور ان کی مالی امداد کو یقینی بنائے، جیسے مقامی اشرافیہ اور متمول خاندانوں سے فنڈز اکٹھے کر کے تقسیم کرے۔یہ کام اگر ایمانداری اور صحیح جوش وجذبے کے ساتھ کیا جائے تو کیوں نہیں پاکستان ہرعالمی اور علاقائی مقابلے میںدو چار طلائی تمغے تو لے ہی آئے۔
یاد رہے کہ ہر کھیل بہت مہنگی اور قیمتی سہولتیں نہیں مانگتا۔ اس لیے ایسے کھیلوں پر زور دیا جائے جو آسانی سے ، کم ذرائع سے کھیلے جا سکتے ہیں۔صرف یہ ضروری ہے کہ ہو نہار کھلاڑیوں کو اچھی اور مناسب خوراک اور مناسب ماحول ملے اور ان کو صحیح تربیت ملے۔ا س ساری بات کا لب لباب یہ ہے کہ جب آپ کھلاڑیوں کی تعداد کو بڑھائیں گے تو ان میںاولمپکس کی سطح کو عبور کرنے والے بھی مل جائیں گے۔
اگر دل کی تسلی کی بات ہے تو جانئیے کہ بھارت جو سوا ارب کا ملک ہے اس نے ابھی تک صرف ایک چاندی کا اور پانچ کانسی کے تمغے لیے ہیں۔البتہ انڈونیشیانے جوآبادی کے لحاظ سے پاکستان سے بڑا ملک ہے اس کے کھلاڑیوں نے دو سونے کے اورایک کانسی کا تمغہ لیا۔ لیکن آبادی کا کم یا زیادہ ہونا کوئی معیار نہیں۔ ورنہ کیو بہ، جس کی آبادی صرف ۱13لاکھ ہے،اس نے چھ تمغے لیے جن میں دو طلائی تھے۔ایک چاندی کا اورتین کانسی کے۔اب کیا بڑی آبادی والوں کو ڈوب کر مر جانا چاہیئے؟ان میں مصر، نائیجیریا، اور بنگلہ دیش جیسے ملک شامل ہیں، جن کے کھلاڑیوں نے ،10اگست تک،ایک بھی تمغہ حاصل نہیں کیا۔

kamran