علماء و مشائخ کانفرنس اور فساد فی الارض !
میں پاکستان کے محترم سپہ سالار کی اس بات پر برملا تعریف و توصیف کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہوں کہ انہوں نے "فساد فی الارض” کے تدارک کے لیے اپنی حکمت عملی اور ترجیحات و خیالات کا اظہار کرنے کے لیے "علماء و مشائخ کانفرنس” کا انتخاب کیا۔یقینی طور پر اگر پاکستان کے علماء و مشائخ خلوص نیت سے چاہیں ،تو ملک سے فساد فی الارض کا یقینی طور پر خاتمہ ہو سکتا ہے۔دراصل آرمی چیف نے اپنے خطاب کے لیے جس فورم کا انتخاب کیا ،وہ ملک کو ایک خاص طرح اور ایک دیگر طرز کے معاشرے میں بدلنے کا ہراول دستہ خیال کیا جا سکتا ہے۔یہ علماء و مشائخ ضیاء الحق دور میں مرتب کئے گئے تھے ۔اگرچہ مشائخ و صوفیاء ایوب خان کے عہد میں بھی اسی قسم کی ڈیوٹی پر رہا کرتے تھے اور من کی مراد پاتے تھے۔یہاں تک کہ ایوب خان وفاقی علاقے کے ایک پیر صاحب کو ڈیول شریف بھی کہا کرتے تھے۔پاکستان میں ملٹری ڈکٹیٹرز کو اپنی پسند کا ماحول و معاشرہ تشکیل دینے کے لیے علماء و مشائخ کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے۔ آرمی چیف نے اپنے خطاب میں وہ تمام باتیں بطریق احسن بیان کر دی ہیں ،جو پاکستان کے مستقبل کی صورت گری کے لیے ان کے خیال میں لازمی ہیں ،یا ہو سکتی ہیں۔پہلی بات انہوں نے یہ کہی کہ "جو شریعت اور آئین کو نہیں مانتے ہم انہیں پاکستانی نہیں مانتے ” پاکستان کا ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جو اس الزام یا خدشے کی زد میں آ سکتا ہو۔ اسلام کے سیاسی نظام اور قانونی محرکات کے بارے ماہرین اور فقہاء میں مختلف اور بسا اوقات متحارب آراء پائی جاتی ہیں اور یہی وہ ذہنی کشادگی اور وسیع القلبی ہے جسے اسلام نے اپنے ماننے والوں میں ارزاں کیا ہے۔ دوسری طرف پورے پاکستان میں آئین شکنی صرف ملک میں مارشل لاء لگانے والے ڈکٹیٹرز اور ان کے ساتھیوں کے سوا کسی اور نے نہیں کی ۔ آرمی چیف صاحب کی اس بات سے یہ امید افزاء حقیقت سامنے آتی ہے ہمارے موجودہ سپہ سالار ماضی کے ملٹری ڈکٹیٹرز کو پاکستانی تسلیم نہیں کرتے۔ یہ ایک حوصلہ افزاء بات ہے۔آرمی چیف نے علماء و مشائخ کو ہدایت کی کہ وہ معاشرے میں اعتدال پسندی کو واپس لے کر آئیں اور فساد فی الارض کی نفی کریں۔آرمی چیف کی اس ہدایت یا توقع کو سمجھنے کے لیے علماء و مشائخ کی طرف سے معاشرے میں پھیلائی جانے والی "اعتدال پسندی” کو سمجھنا ہو گا۔جس کی متعدد مثالیں پاکستان کی ماضی قریب کی تاریخ میں مل جاتی ہیں۔فیض آباد انٹرچینج پر سارے راستے بند کر کے دھرنے دینا، توہین مذہب کے جھوٹے الزامات اور مساجد میں ان کے اعلانات کے ذریعے بے گناہوں کے جان و مال کو نقصان پہنچانا ، فتاوی تکفیر کی ارزانی کے علاوہ ، یہ انہی علماء و مشائخ کی سعی پیہم کا نتیجہ ہے کہ پوری دنیا میں ، ناموس رسالت کو ہر دم خطرہ صرف "اسلامی جمہوریہ پاکستان” میں لاحق رہتا ہے ۔ تقدیر پرستی، توہمات کی ارزانی ، دنیا کی بے ثباتی، دنیا کی ناپائیدار زندگی کے عوض کبھی نہ ختم ہونے والی دوسری زندگی کے رنگین اور سنگین تصورات ،یہ سب مل ملا کر معاشرے میں اس اعتدال پسندی کو عام کر رہے ہیں ۔جس میں ایک اطاعت شعار ہجوم تیار کیا جا سکتا ہے ۔علماء و مشائخ کے ہجوم کی صف اول میں ایک رنگین لباس اور رنگین مزاج شف شف پیر بھی موجود تھے کہ جن کی پھونکوں نے میڈیکل سائنس کو حیران بلکہ عاجز کر کے رکھ دیا ہے۔بس اسی طرح اور اسی طرز کا اعتدال معاشرے میں عام کرنا مقصود و مطلوب ہے۔سپہ سالار صاحب نے ایک انکشاف یہ بھی کیا کہ پاک فوج اللہ کے حکم کے مطابق "فساد فی الارض "کے خاتمے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔یہ وضاحت فرما کر انہوں نے بہت اچھا کیا،ورنہ اس سے پہلے عام تاثر یہی تھا کہ ہماری افواج آئین پاکستان میں دی گئی حدود کے اندر رہتے ہوئے دفاع وطن کا فریضہ ادا کرنے کی پابند ہیں۔خیال کیا جاتا تھا کہ افواج کا کام وطن کی سرحدوں ، فضاوں اور سمندری حدود کی حفاظت کرنا ہے۔لیکن اب چونکہ افواج پاکستان براہ راست اللہ تعالی کے احکامات کی پابند ہیں ، لہٰذا فساد فی الارض کے تعین اور سرکوبی کرنے کے لیے انہیں مکمل آزادی حاصل ہے۔یہ بتانے کے ساتھ ہی کہ !اللہ تعالی کے نزدیک سب سے بڑا جرم فساد فی الارض ہوتا ہے ، آرمی چیف صاحب نے ازراہ کرم اپنے "تصور فساد ” کی وضاحت کرتے ہوئے بتا دیا ہے ۔ملک میں اگر کسی نے احتجاج کرنا ہے تو ضرور کرے ،لیکن پر امن رہتے ہوے۔انہوں نے اعلان کیا کہ اگر کسی نے احتجاج کے دوران پاکستان میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی تو "رب کریم کی قسم، ہم اْس کے آگے کھڑے ہوں گے” ایک جمہوری ملک میں سیاسی جماعتوں یا مختلف سماجی گروہوں کی طرف سے احتجاج کرنے کے حق کو تسلیم کیا جاتا ہے۔اگر یہ احتجاج اپنی حدود سے تجاوز کرتا دکھائی دے تو اس کے لیے ریاست کے پاس پولیس فورس کا منظم ادارہ موجود ہے۔استثنائی صورتوں میں ، اگر حالات پولیس کی گرفت سے نکل جائیں ،تو ضلعی انتظامیہ فوج سے مدد مانگ سکتی ہیں ۔لیکن اب شاید ہر احتجاج کے آگے آگے فوجی دستے چلا کریں گے اور جہاں احتجاج کرنے والے نعرے لگانے کے لیے رکیں گے ، سامنے فوج کھڑی ہوگی۔ستم ظریف پوچھ رہا ہے کہ اگر فوج ملک میں پولیس فورس کی ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف ہو گئی ،تو ملکی سرحدوں کی حفاظت کون کرے گا۔؟میں چونکہ اس سوال کا جواب نہیں جانتا ،اس لیے خاموش رہا، تھوڑی دیر بعد ستم ظریف خود ہی بڑبڑانے لگا کہ شاید ہمسایہ ممالک پاکستانی افواج کی اندرون ملک مصروفیات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحدوں کی حفاظت خود ہی کر لیا کریں۔؟ آرمی چیف نے افغانستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ پاکستان نے 40سال
سے زیادہ عرصے تک لاکھوں افغانوں کی مہمان نوازی کی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان انہیں سمجھا رہا ہے کہ "فتنہ خوارج” کی خاطر اپنے ہمسایہ برادر اسلامی ملک اور دیرینہ دوست پاکستان کی مخالفت نہ کریں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید فتنہ خوارج سے مراد وہ گمراہ عناصر ہیں ،جنہیں عمومی طور پر تحریک طالبان پاکستان ، اور اس سے آگے بڑھتے ہوئے اچھے طالبان اور برے طالبان کہا جاتا ہے ، اور جن کا مشغلہ افغان طالبان اور علاقے میں موجود چھپ کر وار کرنے کی شوقین طاقتوں کی شہ پر پاکستان کے اندر دہشت گردی کی وارداتوں میں مصروف رہنا ہے ۔یہ ہمارے فوجی جوانوں پر چھپ کر حملے بھی کرتے ہیں۔مبینہ طور پر ان دہشت گردوں کے اسمگلنگ مافیاز سے بھی نہایت قریبی تعلقات ہیں۔علماء و مشائخ کے روبرو اپنے خطاب میں آرمی چیف نے قوم کو یاد دلایا ہے کہ؛ کشمیر تقسیم پاک وہند کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے۔ لیکن آرمی چیف صاحب نے یہ رہنمائی کرنے سے گریز کیا کہ اس نامکمل ایجنڈے کو کس حکمت عملی کے تحت مکمل کیا جائے گا ۔ویسے یقینی طور پر آرمی چیف صاحب کے علم میں ہوگا کہ سابق آرمی چیف کے طویل ٹینیور میں ہندوستان نے چند سال پہلے(2019ء میں) مسلۂ کشمیر کے نامکمل ایجنڈے کو اپنی پسند اور مفاد کے مطابق حل کرتے ہوئے خطۂ کشمیر کو ہندوستان کا آئینی حصہ بنانے کا اعلان کر دیا تھا، اور اس اعلان کے وقت سابق آرمی چیف اور وزیراعظم واشنگٹن ڈی سی میں موجود تھے۔اور نہایت درجہ مسرور بھی تھے۔اس وقت کے آرمی چیف کو پینٹاگون میں حد سے زیادہ پروٹوکول سے سرفراز کیا جا رہا تھا ،تو اس وقت کے وزیراعظم نے اپنی شادمانی کی سطح بیان کرتے ہوئے دورۂ امریکہ سے واپس آ کر ایئرپورٹ پر موجود پی ٹی آئی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے جوش جذبات میں یہ تک کہہ دیا تھا کہ؛ "ایسا لگتا ہے کہ میں کسی باہر کے دورے سے نہیں آ رہا بلکہ ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔” یہ والا ” ورلڈ کپ ” جیتنے کے بعد انہوں نے اسلام آباد کی وسطی سڑک شاہراہِ کشمیر کا نام بدل کر سرینگر ہائی وے رکھ دیا تھا۔ اور کہا تھا کہ آج سے میں مسلٔہ کشمیر کا وکیل بنوں گا۔گویا سرکاری طور پر پاکستان نے اعلان کر دیا تھا کہ اب پاکستان مسلہ کشمیر کا مدعی نہیں، وکیل ہے۔اب وہ والا وکیل تو ایک سال سے جیل میں بند ہے اور کشمیر ہندوستان کا حصہ۔محترم آرمی چیف صاحب نے یہ رہنمائی فرمانے سے علماء و مشائخ کے روبرو گریز کیا ہے کہ اب وہ تقسیم برصغیر کے نامکمل ایجنڈے کو کس حکمت عملی کے تحت مکمل کریں گے۔ خوارج ہی کے حوالے سے آرمی چیف نے بھارتی شاعر سرفراز بزمی کے جن اشعار کو علامہ اقبال سے منسوب کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔وہ بھی اپنے معنی و مفہوم کے حوالے سے موزوں اور مناسب نہیں تھا۔میں بطور ایک طالب علم ملک کے سپہ سالار کی اقبال فہمی کے معیار اور سطح پر شدید احتجاج کرتا ہوں۔انہوں نے ضیاء الحق دور کی ایجاد کردہ علماء و مشائخ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ اقبال سے منسوب غلط اشعار پڑھ کر پوری قوم کو تشویش میں مبتلاء اور سراسیمہ کر دیا ہے۔گویا سپہ سالار تک معلومات پہنچانے والے ماہرین، تقریر نویس ، مشیران کرام اتنے لاپروا اور سوشل میڈیا سے اڑائی ہوئی سطحی معلومات سے لیس ہوتے ہیں کہ ان کی بنیاد پر کی گئی گفتگو اور کئے گئے فیصلے ایک طرف ہنسی تو دوسری طرف افسوس کا باعث بن جاتے ہیں۔ علامہ اقبال کی اس تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے؛
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور!
سپہ سالار کو علماء و مشائخ کی کانفرنس سے خطاب نہیں کرنا چاہیئے تھا ۔ایک تو سپہ سالار کا یہ منصب نہیں ہے۔پھر اس کے ساتھ ہی زیادہ ضروری بات یہ تھی کہ سپہ سالار کو اپنے علماء ومشائخ کے روبرو علامہ اقبال کا حوالہ پیش نہیں کرنا چاہیئے تھا۔اگر اقبال کبھی ان کے مطالعے اور توجہ کا مرکز رہا ہوتا تو انہیں علم ہوتا کہ اقبال ان ملاؤں سے اس قدر بے زار اور مایوس تھے کہ انہوں نے ان کو اندیشہ و نظر کا فساد تک قرار دے رکھا تھا ۔ جن ملاوں کے ہجوم میں سپہ سالار اپنے افکار عالیہ بحوالہ علامہ اقبال پیش فرما رہے تھے ، علامہ اقبال اپنے فارسی مجموعہ کلام "جاوید نامہ” میں انہی ملاوں کا تفصیلی تعارف بھی کرا چکے ہیں یعنی؛
کم نگاہ و کور ذوق و ھرزہ گرد
ملت از قال و اقولش فرد فرد
مکتب و ملا و اسرار کتاب
کور مادر زاد و نور آفتاب
دین کافر فکر و تدبیر جھاد
دین ملا فی سبیل اﷲ فساد!
خیر اتنی بات تو سمجھ آ جاتی ہے کہ یہی علماء و مشائخ معاشرے کو اسیر رکھنے کے لیے ، عامتہ الناس کو زمین کے معاملات سے لاتعلق کرکے آسمان کے خواب دکھانے کے لیے، علم کی بجائے توہمات اور جدوجہد کے عوض دم اور وظائف پر لگانے کی ذمہ داری بطریق احسن پوری کر رہے ہیں۔اور جب سے حکمت سازوں نے توہین مذہب کا بیلچہ ان ملاؤں کے ہاتھ میں تھمایا ہے ،یہ پورے کے پورے ” وحشی ملا” بن چکے ہیں ۔ اقبال کے اس شعر کی روشنی میں جناب سپہ سالار کو کوئی بھی جنگ جیتنے کے لیے ان علماء و مشائخ پر کبھی بھی انحصار نہیں کرنا چاہیئے ، اقبال نے کہا تھا کہ؛
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہوں غازی!
سپہ سالار کے علماء ومشائخ کانفرنس سے خطاب کے دوران علامہ اقبال کے نام سے سوشل میڈیا پر گھومنے والے اور اقبال کے نام منسوب کئے جانے والے اشعار نہیں پڑھنے چاہیئں تھے۔اپنے خطاب میں سپہ سالار نے یہ اشعار پڑھ کر روح اقبال کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو بھی اداس و پریشان کر دیا ہے ؛
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ ٔ تکبیر بھی فتنہ!
سیدھی سی بات ہے ،یہ کسی تقریر نویس کی غلطی ہو سکتی ہے ،لیکن اس تسامح کا بوجھ تو سپہ سالار صاحب کو خود اٹھانا پڑے گا۔اس سطح کے عہدے داروں کو اس حوالے سے حددرجہ محتاط رہنا چاہیئے۔سپہ سالار کے مخاطب علماء و مشائخ کو ، جن میں بیسیوں طرح کے رنگارنگ نفوس شامل تھے ، بعضے نمونے بھی تھے، چشم فلک بھی حیرت سے دیکھ اور سن رہی تھی ۔چشم فلک دیکھ رہی تھی کہ علماء و مشائخ کے وہ منہ، جو عمومی طور پر آگ اور جھاگ اگلتے رہتے ہیں،اس تقریب میں وہی منہ زور سے بند ،بلکہ مقفل تھے۔ستم ظریف کا خیال ہے کہ فساد فی الارض کے تدارک کے لیے بنیادی کوشش کے طور پر علماء و مشائخ ہی کو سمجھانا بجانا اور دھمکانا ضروری تھا۔میں نے اسے متوجہ کیا کہ سپہ سالار نے اپنے خطاب میں بظاہر دھمکانے والی تو کوئی بات نہیں کی تھی، جبکہ اس کا موقف یہ ہے کہ؛ ایک ڈیڑھ گھنٹے تک منہ بند کر کے بیٹھے رہنا بھی علماء و مشائخ کے لیے کسی دھمکی اور سزا سے کم نہیں ہوتا۔اتنی دیر تک خاموش رہنے سے تو بعضے منہ کافی عرصے تک غیر موثر اور بے آواز رہتے ہیں۔