شور ِ سلاسل !
آزاد بندوں کے اذہان جب مختلف پابندیوں کے مقید ہو کر رہنے لگیں اور اُمید ِ آزادی دل کے کسی روزن ِ در سے دکھائی نہ دے تو قلب ِ بد حواس کے نہاں سے اک شور ِ سلاسل اُٹھتا ہے جس سے بدن کی بیرونی حصار بھی اپنے مقام پر دکھائی نہیں دیتے ایسے مقام ِ مصیبت پہ چیختے چلاتے بندگان ِ خدا کی آہ بکا کو شور ِ سلاسل سے تشبیح دینا مجھے برمحل لگتا ہے سیدھی سی بات ہے کہ یہ دنیا گناہ کے متلاشی کو گناہ دیتی ہے تو اللہ کے فضل کے متلاشی کو اُس فضل سے آشنا بھی کرتی ہے دنیا بری جگہ نہیں انسانی سوچ اور اُس کا عمل اسے بہتر یا بدترین قرار دیتا ہے ظلم و زیادتی کے اس رواں سیلاب میں ہماری عدلیہ کا مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلہ ہو یا بنگلہ دیش میں حسینہ واجدکی جابرانہ حکومت کو طوالت بخشنے کے لئے بھارتی مدد سے بنگالی مسلمانوں پر گولیاں برسانا ہو یہ ایک جیسا طرز ِ عمل لگتا ہے فرق صرف شدت کی ہوتی ہے ظلم کی ان وجوہات کا مقصد جہاں کسی کو اُس کے حق سے محروم کرنا ہوتا ہے وہیں نفسیاتی طور پر دیگر کو مغلوب رہنے کی تلقین بھی ہوتی ہے ماروائے آئین ایک نہیں آٹھ قابل ترین ججوں کا مختصر فیصلہ دے کر چپ سادھ لینا ان گنت سوال کھڑے کر رہا ہے کیونکہ ایک یا دو آدمی کسی بات کی غلط تشریح کر سکتے ہیں مگر آٹھ منصفوں کا بیک وقت ایک ہی فیصلہ جو آمرانہ انداز سے ملکی پارلیمنٹ کے بنائے آئین کو سبو تاژ کر دے تو عدلیہ کے اس عمل کو ایوبی آمریت کے جسٹس منیر اور ضیاء الحق آمریت کے مولوی مشتاق کی اتباع کہنا بے جا نہیں ہو گا حیرت ہے کہ ان معزز جسٹس صاحبان کو اس بات کا گمان تک بھی نہیں گزرا کہ وہ سنی اتحاد کے آزاد ممبران ِ اسمبلی کو تحریک انصاف کا ممبر قرار دینے پر فلور کراسنگ کروا رہے ہیں ریڈ لائٹ پر تو عام شہری بھی روڈ عبور کر نے کی جسارت نہیں کرتا بھارت کی دلدادہ ،بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم جو ابھی ملک سے فرار ہیں خاتون سربراہ ہونے کے حوالے سے بطور وزیر ِ اعظم ان کا دورانیہ سب سے طویل ہے حسینہ واجد نے جون1996سے جولائی2001تک اور اس کے بعد جنوری 2009سے اگست 2024 تک دسویں وزیر اعظم کے طور خدمات انجام دیں شیخ مجیب نے بھی نہ صرف بھارتی مدد سے پاکستان کا ہاتھ کاٹا تھابلکہ پاک فوج کوجو امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کے انتظار میں تھی محصور کر کے ناروا ظلم ڈھائے تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوب کے آمرانہ دور سے مشرقی پاکستان کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری ہوا جس کا ذکرجاوید ہاشمی صاحب نے اپنی کتاب میں کیاہوا ہے نظراندازی و تحقیرانہ طرز ِ عمل سے جو حصہ یعنی سابقہ مشرقی پاکستان ہم نے گنوایا وہ آج ہم سے معیشت میں، سیاسی شعور میں بہت آگے ہے کوٹہ سسٹم پہ کی جانیوالی بے ضابطگیوں پر عوام نے جس غم و غصہ کا اظہار کیا ہے وہ ایک جمہوری اور جائز طرز ِ عمل تھا مگر یہ حکومتی تشدد کی وجہ سے اور تحریک کو بزور ِ شمشیر دبانے کی کوششوں نے سینکڑوں لوگوں کا خون ریاست کے نام کر دیا اسی افرا تفری میں حسینہ واجد اپنے مرحوم باپ کی قبر کو بھی بے یارومددگار چھوڑ گئی قابل ِ تعریف بات یہ کہ آمریت کی بجائے سر ِ دست عبوری حکومت کو اہمیت دی گئی ہے جو قابل ِ ستائش ہے ہمارے ہاں بھی جماعت ِ اسلامی بجلی کی ناجائز قیمتوں ،بیجا ٹیکسوں اور آئی بی پیز کے ظالمانہ معائدے کے خلاف پر امن دھرنا دئیے ہوئے ہے اس کا اختتام ہونا مشکل لگتا ہے کیونکہ قیمتوں کو کم کرنے کی باگیں حکومت نہیں آئی ایم کے پاس ہیں اس وقت ساری باتوں سے اہم علماء ،مشائخ کی مجلس سے ہمارے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا خطاب ہے جن میں اُن کی سچائیوں کا عکس واضح اور نمایاں ہے جس میں شریعت و آئین کی بالا دستی کو لازمی قرار دیا گیا ہے گو کہ ملک کے طول و عرض سے مسائل اُمہ کو نظر انداز کرنے پر اک شور سلاسل برسوں سے جاری ہے اسی شور میں آئین سے بالا فیصلے لکھنے والوں اور اقتدار کے لئے انتشار کا نو مئی برپا کرنے والوں کی بھی چیخ و پکار نمایاں ہے جس کا فیصلہ جلد کرنے کی ضرورت ہے تا کہ بنگلہ دیش جیسا عمل یہاں نہ دہرایا جا سکے۔