دھرنوں کا موسم!
’’آئی پی پیز‘‘
ہاتھ میں جب آگیا بجلی کا بل
ہر نظر مہلک رقم پر پھر گئی
ملک میں بجلی کا وہ طوفان ہے
سب کے ارمانوں پر بجلی گر گئی!
ہر چند سال بعد ہمارے ملک میں دھرنوں کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔ ایک یا دو سیاسی جماعتیں مختلف سڑکیں روک کر بیٹھ جاتی ہیں لیکن اس بار یہ موسم بہت شدید بلکہ ہمارے منہ میں خاک بہت گھمبیر اور خطرناک ہو گیا ہے اور ان دھرنوں سے ملک کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہونے کا شدید خطرہ ہے۔ کئی دن سے جماعت اسلامی سڑکوں پر دھرنا دئیے ہوئے ہے۔ اس جماعت کے امیر کا کہنا ہے کہ ہمارے کارکن ایک بار تمام رکاوٹوں ہٹا کر اسلام آباد پہنچ گئے تھے یہ مظاہرے کی ایک جھلک تھی۔ اسلام آباد کے قانون نافذ کرنے والوں نے انہیں گرفتار کر لیا اور وقتی طور پر اسلام آباد کی طرف ہماری یلغار تھم گئی لیکن ہم دوبارہ اسلام آباد میں داخل ہو سکتے ہیں۔ حکومت نے ایک بہت مناسب اقدام اٹھایا کہ جماعت اسلامی سے مذاکرات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ آج کل جماعت اسلامی اور حکومت کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ پہلے دن کے مذاکرات کے بعد جماعت اسلامی نے بہت مایوسی کااظہار کیا ہے جماعت کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ حکومت کے اراکین ایسے بچوں کا سا سلوک کررہے ہیں جنہیں نہ حالات کا علم ہے نہ معاملے کی سنگینی کا احساس ہے۔ حکومتی اراکین کا کہنا ہے کہ ہمیں علم ہی نہیں کہ کب اور کیسے آئی پی پیز سے حکومت نے معاہدے کئے۔ یہ بڑے تعجب کی بات ہے۔ حکومت کی مذاکرات ٹیم کو بات چیت شروع کرنے سے پہلے تمام متعلقہ معلومات سے آگاہ ہونا چاہیے تھا یا عبوری حکومت کے وزیر توانائی سے تفصیلی معلومات حاصل کر لینی چاہیے تھیں جو نہ صرف اس ضمن میں تحقیقی اقدام کا مطالبہ کررہے ہیں بلکہ ان معلومات کے لئے رقم دینے کو بھی تیار ہیں اور آئی پی پیز کے معاملے میں سپریم کورٹ جانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ ایک طرف جماعت اسلامی سڑکوں پر ہے تو دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام بھی اپنی انفرادی قوت آزمانے کا اعلان کر چکی ہے۔ نوزائیدہ عوام پاکستان جماعت بھی کراچی میں کے الیکٹرک کے سامنے نمونے کا دھرنا دے چکی ہے اور تیسری طرف پاکستان تحریک انصاف جلسے جلوس کی تیاری میں ہے۔ خدانخواستہ اگر بہ یک یہ تمام جماعتیں سڑکوں پر نکل آئیں تو حکومت کے لئے بڑا بحران پیدا ہو جائے گا۔ حکومت کئی بار مختلف بہانوں سے پاکستان تحریک انصاف کو جلسے کی اجازت دینے سے گریز کر چکی ہے لیکن اب عدالت عالیہ درمیان میں آچکی ہے تو قیاس ہے کہ تحریک انصاف کو بھی جلسے کی اجازت مل جائے گی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نعرے مختلف اوقات میں مختلف ہوتے ہیں لیکن اس بار ایک ہی نعرہ تمام جماعتوں کے لئے بنیاد بنا ہوا ہے اور وہ ہے مہنگائی، ہمیں ادراک ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کی انتھک کوشش کررہی ہے لیکن اسے کامیابی نصیب نہیں ہورہی۔ یوں کووڈ Covidکے بعد پوری دنیا میں مہنگائی نے اپنے پنجے گاڑلئے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ اول دنیا میں لوگوں کی قوت خرید اتنی ہے کہ وہ مہنگائی بھی برداشت کر سکتے ہیں ہمارے یہاں چونکہ لوگوں کی آمدنی محدود ہے اس لئے وہ بجلی، گیس اور تیل کے خطیر بل ادا کرنے سے قاصر ہیں خصوصاً بجلی کے بلوں نے عوام کو سولی پر لٹکا رکھا ہے۔ لوگ خودکشی کررہے ہیں بعض حالات میں تو بجلی کے بل کو لے کر قتل تک کی نوبت آچکی ہے۔ تیل اور گیس کے داموں میں اضافےکے لئے حکومت کے پاس جواز ہے کہ یہ دونوں چیزیں بین الاقوامی بھائو کم یا زیادہ ہونے سے کم یا زیادہ بھائو پر دستیاب ہوتی ہے اور حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتی لیکن جہاں تک بجلی کے آسمان کو چھوتے ہوئے بھائو ہیں انہوں نے لوگوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں اور اس گرانی کا تعلق ان مختلف طرح کے ٹیکسوں سے ہے جو بجلی کی قیمتوں کے علاوہ وصول کئے جاتے ہیں۔ حکومت یقینا آئی پی پیز کے معاملے میں مناسب اقدام کر سکتی ہے۔ اس ذیل میں چین کی کمپنیز سے بات مناسب بھی نہ ہو تو ملکی کمپنیز سے اور خود حکومتی اداروں سے بات چیت ہو سکتی ہے اور ہونی چاہیے کہ اب واحد راستہ حکومت کے پاس عوام کو بجلی کے ہوش ربا بلوں سے نجات دلانے ہی کا رہ گیا ہے۔ نوبت بہ ایں جارسید کہ خود حکومت کے بعض اراکین آئی پی پیز سے بات کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ حکومت کی ایک حلیف جماعت تو اس ذیل میں کھل کر بجلی سے متعلق حکومت کی پالیسی کو غیر مناسب اور ظالمانہ قرار دے چکی ہے۔ ہمیں ادراک ہے کہ ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت ایک دن میں نہیں بگڑی ہے بلکہ بتدریج حکومت نے اسے اس منزل تک پہنچایا ہے۔ اب خدانخواستہ یہ مہنگائی ہی حکومت کوناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا باعث بن سکتی ہے۔ ہمیں اس کا بھی ادراک ہے کہ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتیں ہوں یا مختلف قسم کے ٹیکس ہوں حکومت آئی ایم ایف کے ایماء پر لگاتی ہے لیکن ایک عام آدمی کی سمجھ سے یہ حقیقت بالاتر ہے وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ چند ماہ پہلے تک بجلی کا جو بل3ہزار تھا اب بجلی کے اسی خرچ کے لئے 14,13 ہزارہو گیا ہے تو وہ پریشان ہو جاتا ہے اور حکومت کے لئے اس کے دل میں کوئی نرم گوشہ باقی نہیں رہتا۔ ہم حکومت سے پرزور درخواست کرتے ہیں کہ بجلی کے معاملات کو پہلی فرصت میں حل کر لے ورنہ یہی معاملہ خدانخواستہ حکومت کو حکومت سے محروم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔