سوشل میڈیا

ہم اس وقت نئے millenniumمیں جی رہے ہیں اور اس ہزاری سال کی بھی نصف صدی گزر چکی،عیسوی سال کے دوسرے ہزاری سال میں اتنی تبدیلیاں دیکھنے اور سننے میں آئیںکہ پچھلی ساری صدیاں انگشت بدنداں رہ گئیں معاشرہ،معاشرت، کلچر بدلتا ہے مگر پچھلے پچیس سالوں نے دنیا کو جس تیز رفتاری سے بدلاوہ حیران کن ہے،مگر انسان کو بھی بہت دادکہ اس نے اس تیز رفتاری کاساتھ دیاوہ اس سے زیادہ حیران کن ہے forth generation /six generationکی بات پرانی ہوئی اس وقت Z generationکی بات ہو رہی ہے،جب جان ایف کینیڈی امریکہ کے صدر بنے تھے تو انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ پرانی نسل نے قیادت کی شمع اب نئی نسل کو منتقل کر دی ہے تو اس وقت اخبارات نے اس بات کو پسند نہیں کیا تھا اور اس بات کی سختی سے تردید کی گئی کہ پرانی نسل نے نئی نسل کی قیادت قبول کر لی ہے جان ایف کینیڈی کے بعد امریکی صدور عمر رسیدہ ہی تھے اور ان کے ادوار میں بھی مادی اور غیر مادی ترقی رکی نہیںمگر اس سچ سے انکار کس کو ہے کہ نئےMillennium کی پہلی ربع صدی نے دنیا پر حیرت انگیز تبدیلیاں اثر انداز ہوئیںجس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی،کمپیوٹر کی ایجاد کو عرصہ ہوا مگرکمپیوٹر کا حالیہ استعمال کبھی ذہن و گمان میں بھی نہ تھا،یہ ساری ترقی کچھ لہروں کی محتاج رہی جس کو ایتھر کی لہریں کہتے ہیں جس کی بابت سائنس میں بات ہوتی تھی ان لہروں کو اول اول ریڈیو اور Transister کی صورت میں نظر آیا مگر سائنس دان کی جستجو کب ختم ہوتی ہے یہ بھوک بڑھتی ہی رہتی ہے یہ پیاس سراب کو دریا کرتی ہے ،ایتھر لہروں پر قابو پانے کے لئے دنیا بھر کی ترقی یافتہ تہذیبوں میں ایک دوڑ شروع ہو گئی،ظاہر ہے اس کا تعلق کامرس سے جڑ گیا تھا اور ہر ترقی یافتہ ملک کو زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس تھی اس لئے ایجادات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوگیا،اس ہزاری سال سے قبل ہی دو ایجادات نے سائنس کی دنیا میں ہلچل مچا دی ایک GPXجس کا استعمال امریکی فوج نے لیبیامیں کیا اور معمر القزافی کے خیمے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی،یہ ایجاد جب Refineہوگئی تو ابتدائی شکل کو کمرشل استعمال کے لئے مناسب سمجھا گیاپھر اس میں تیزی سے تبدیلیاں آتی چلی گئیںاس وقت ہر کار میں ایک چھوٹے باکس میں پوری دنیا کا نقشہ بند ہے اور ہرمحلے گلی اور مکان کا پتہ جو آپ کی کار کو Preciselyآپ کی مطلوبہ لوکیشن پر لا کھڑا کرتا ہے ،اس کے بعد پچھلی صدی کے اواخر میں iphoneکی ایجاد نے دنیا ہی بدل ڈالی جس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پر مرتب ہوئے اس کا پھیلاؤ اس قدر زیادہ تھا کہ دنیا کاکوئی شخص اس کے استعمال سے بچ نہیں سکا،ظاہر ہے کہ چاقو بنانے والے نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ چاقو سے کسی کی زندگی لے لی جائے اور بارود ایجاد کرنے والے نے تو یہ نہیں چاہا تھا کہ ناگا ساکی اور ہیروشیما کو جلا کر راکھ کر دیا جائے مگردنیا کسی شئے کے استعمال کو مثبت رہنے پر مکتفی نہیں رہ سکتی اور منفی استعمال اگر طاقت دیتا ہے تو اس کے استعمال کو مثبت استعمال تک محدود نہیں رکھا جا سکتااور نہ ہی کوئی قانون بنایا جا سکتا ہے کہ چاقو سے سبزی ہی کاٹی جائے اور بارود کو کانوں میں دھماکے کرنے کے لئے استعمال کیا جائےآئی فون نے شروع شروع میں اشخاص کے درمیان Communication کو آسان بنایاان سے رابطے ممکن اور آسان ہو گئے جو کبھی مشکل اور مہنگے تھے پھر Business gruops/companies نے اس کو استعمال کرنا شروع کر دیا اور اب حال یہ ہے کہ پوری کمرشل دنیا اس کی محتاج ہو گئی ہے رابطوں کی اس سہولت نے تجارت
کو بہت آسان اور تیز بنا دیا ہے اس کو ای کامرس کا نام دیا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ فرد کی سطح پر بھی اس کا استعمال بڑھ گیا مجھے یاد ہے کہ جب آئی فون استعمال میں آیا تو کہا گیا تھا کہ ریڈیائی لہریں انسانی دماغ کے سیل کو متاثر کریں گی مگر آئی فون کا استعمال ساری دنیا میں اس تیزی سے پھیل چکا تھا اور دنیا بھر میں اس کا Multi-Trillionبزنس تھا سو اس بات پر کان نہیں دھرےگئےاور ایک وضاحت سامنے آئی کہ ریڈیائی لہروں کے اثرات بہت Nominal ہو سکتے ہیں،آئی فون کے فوائد اور اس کا سحر اتنا زیادہ تھا کہ افراد نے بھی اس بات کو زیادہ درخور اعتنا نہیں جانااور اب آئی فون زندگی کی ضرورت بن چکا ہے یہ ضرورت جب سے فیشن کا روپ دھار چکی ہے صارفین نے رشتوں اور دوستیوں کو بھی نظر انداز کرنا شروع کردیا،اور تکلیف دہ مرحلہ وہ تھا جب آئی فون پر نفرتوں کو محبتوں اور رشتوں پر مقدم جانا گیا،پہلے پہل تو یہ کہا گیا کہ اس Communicationسے کم ازکم یہ تو اندازہ ہوا کہ افراد کے پاس کہنے اور سننے کو کتنا کچھ تھا جو بس اس کے سینے میں ہی محفوظ تھامگر جلد ہی اس نے منفی رخ اختیار کیا تو معلوم ہوا کہ کدورتوں اور نفرتوں کا ایک سیلاب تھا جو رکا ہوا تھا اس نے جب بند توڑ دئے تو بہت کچھ تباہ ہونے لگا،اس میں بھی دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی مغرب میں حکومت کی پالیسیوں پر شدید تنقید سامنے آئی،انسانی حقوق اور فیمنزم پر گفتگو ہوئی، معاشیات کو زیر بحث لایا گیا،طبقاتی جات کے بارے گفتگو ہوئی یہ سارے عنوانات کسی نہ کسی طرح معاشرے کی فلاح کی طرف اشارہ کرتے تھے مگر جب Unknown ID’sکی طرف سے قومی راز فاش ہونے لگے اور سیکرٹ دستاویزات سامنے آنے لگیں تو مغرب کی آنکھیں کھل گئیں اور سوشل میڈیا کو قابو میں رکھنے کے لئے قوانین بنائے جانے لگے اور اب بہت سے ملکوں میں پندرہ سال سے کم عمر بچوں کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال ممنوع قرار دیا جا رہا ہے،مختلف سماجی انجمنوں نے بھی ان اقدامات کی حمایت کی اور مغربی ممالک بشمول امریکہ نے سوشل میڈیا کو قانونی ضابطوں میں لانے کی کوشش کی اور مزید اقدامات کئے جا رہے ہیں۔تیسری دنیا کی صورت اس سے مختلف رہی، تیسری دنیا میں یہ تو نہیں ہوا کہ حکومتی پالیسیوں کو زیربحث لایا جاتا بلکہ دوسری حکومت کے افراد اور عہدیداروں کو ہدفِ تنقید بنایا جانے لگا اور افراد کے خلاف نفرت پھیلنے لگی،اس کی وجہ ایک طرف تعلیم کی کمی تھی تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر آنے کے لئے صرف ایک موبائیل فون کی ضرورت تھی کوئی شرط نہیں تھی کہ سوشل میڈیا پر آنے کے لئے کسی تعلیم یا تہذیب کی ضرورت ہے لہٰذا جس کی سمجھ میں جو آیا اس نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا ،پاکستان میں شروع شروع میں لکھنے والوں نے بنیاد پرستی اور رجعت پسندی کو موضوع بنایا اور پھر آہستہ آہستہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو ہدف تنقید بنانا شروع کیا جس پر الیکٹرانک میڈیا بھڑک اٹھا اس نے پوچھنا شروع کر دیا کہ سوشل میڈیا کی ولدیت کیا ہے۔مین اسٹریم میڈیا کو معلوم تھا کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ سب کچھ ذاتی معلومات کی بنا پر لکھا جا رہا ہے ان کو مان تھا کہ ان کی خبروں کے پیچھے پورا ایک سسٹم ہے ،عمران دور میں ایک تو جنرل آصف غفور نے fifth generation warکے نام سے سوشل میڈیا کو پروموٹ کرنا شروع کیا پھر عمران نے کہنا شروع کردیا کہ یہ دور سوشل میڈیا کا ہے،عمران ایوانِ وزیراعظم میں خود وی لاگرز،یو ٹیوبرزاور social media influencers سے ملاقات کرتے تھے،انہوں الیکٹرانک میڈیا کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا،سوشل میڈیا ان کا نکتہ نظر پوری شدت سے دنیا کے سامنے لاتا،اگر اس کی مخالفت کی جاتی تو سوشل میڈیا نہ صرف اس کو مسترد کرتا بلکہ نئی تراش خراش کی گالیوں سے ان کی تواضع کی جاتی،ان میں خواتین صحافیوں کی ٹرولنگ کی جاتی ان کی خانگی زندگی کو اچھالا جاتااور ان پر بہت قبیح الزامات بھی لگائے جاتے،اس کام کے لئے باقاعدہ activists کی بھرتی کی جاتی اور ان کو گالم گلوچ کی پوری آزادی ہوتی جتنی موٹی گالی اتنی بڑی شاباش،ایک عشرے میں پی ٹی آئی نے پورا میڈیا کلچر ہی تبدیل کر دیا،عمران کو چار سال ملے تھے کہ وہ نواز شریف اور زرداری کو چور اور ڈاکو ثابت کرتے اور ان کو سزا دیتے مگر ان کی کامیابی یہ تھی کہ نواز شریف اور زرداری کو چور اورڈاکو ہی سمجھا جانے لگا اور یہ دھبہ چھٹائے نہیں چھوٹ رہا،پی ٹی آئی کوئی دلیل ماننے کے لئے تیار نہیں،چند دن پہلے عمران اور بشرہ بی بی کو توشہ خانہ کیس 2میں سزا ہوئی مگر کوئی ماننے کے تیار نہیں لاکھ سمجھائیے کہ عمران عدالتی فیصلے کی وجہ سے ہی رہا ہونگے مگر وہ اڈیالہ توڑنے اور احتجاج کی ہی بات کرینگے،اس دوران جو ایک کروڑ ساٹھ لاکھ نئے ووٹرز بنے ہیں وہ اسی سوشل میڈیا سے متاثر ہوکر عشقِ عمرانیہ میں گرفتار ہیں،حال ہی میں اقبال اکیڈیمی کے احمد جاوید جو اچھے پڑھے لکھے انسان ہیں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوان غیر مشروط طور پر عمران کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا ہے اب احمد جاوید سے کون پوچھے کہ سیاست میں غیر مشروط طور پر کس سیاسی عقیدے پر ایمان لایا جاتا ہے،اسی لئے عمران کے مخالفین گروہِ عمرانی کو ایک کلٹ کہتے ہیںکیونکہ ان سے مکالمہ ہو ہی نہیں سکتا،جب کہ مکالمہ ہی سیاست کی جان ہے ،نو مئی کا سانحے میں تین سو نو عمر بچے بھی پکڑے گئے تھے جن کو نہیں معلوم تھا کہ وہ آگ کیوں لگا رہے ہیں،ایسی ہی بے سمت حمایت آج کل لبیک کے لئے دیکھنے کو مل رہی ہے آپ اختلاف کریں تو لبیک کے عاشقان ِرسول سب سے پہلے ننگی گالیوں سے نوازتے ہیں،اسی دوران واٹس اپ پر Blasphemy Business gang نمودار ہوا جس نے واٹس اپ پر ہنی ٹریپ کر کے چھ سو معصوم بچوں کو گستاخِ رسول بنا دیا وہ اب جیل میں ہیںاور مقدمات عدالتوں میں ہیں،کینسر اتنا پھیل چکا ہے کہ میجر سرجری کے بغیر کوئی دوسرا علاج ممکن نہیں،،یا پھر چین کانظام لے آئیے تاکہ اس غلاظت سے چھٹکارا ممکن ہو ۔



