ان کی نہ دوستی اچھی ،نہ دشمنی!

سب سے پہلے پاکستانیوں کو یوم قائد اعظم مبارک ہو۔ اور مسیحی برادری کو بڑا دن مبارک ہو۔ ہماری دعا ہے کہ یہ روز سب پاکستانیوں کے لیے ایک نئی صبح ہو اور ظلم کی رات ڈھل جائے۔یہ اتفاق نہیں ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ کو صلیب پر لٹکوایا، وہی لوگ آج فلسطینیوں پر قیامت برپا کیے ہوئے ہیں، جن کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ اپنی سر زمین پر رہنے کا حق مانگتے ہیں۔ اور پاکستان میں بھی، ٹرمپ کے ذریعے، ہمارے سیاسی اور عسکری قائدین کو لالچ دیکر، عوام کی پسند اور خواہشات کوتہہ ِتیغ کر رہے ہیں۔ ان کی حرکات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پاکستان کی ایک بڑی تعداد، سب سے بڑی سیاسی جماعت، اس کے لیڈر اور کارکنوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یا انہیں اذیتیں دی جا رہی ہیں۔عورتوں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ یہ کون لوگ ہو سکتے ہیں، اگر قابض فوج نہیں ۔بلکہ اگر کوئی دشمن بھی پاکستان پر قبضہ کر لیتا تو عوام پر ایسا ظلم نہ کرتا کیونکہ وہ بھی اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے لیے عوا م کو خوش کرنا چاہتا۔ پاکستانیوں کا قصور کیا ہے؟ یہی کہ وہ مسلمان ہیں، اور اپنے سے پانچ گنا طاقتور دشمن سے بچنے کے لیے ، ایٹمی ہتھیار بنا بیٹھے ہیں۔ لیکن پاکستان کے خلاف ان کی کاروائیاں نئی نہیں ہیں۔ اب ذرا تاریخ کے اوراق پلٹیں اور دیکھیں کہ پاکستان بننے کے بعد سے ، انہوں نے اورہمارے حکمرانوں نے پاکستانیوںکے ساتھ کیا کیا؟ ۔
جب سے پاکستان عالمِ ظہور میں آیا، اس کے قائدین کو اپنی خارجہ پالیسی میں دو متضاد سمتوں میں سے ایک کو چننا تھا۔ انہوں نے بھارت کے مقابلے میں، جس نے غیر جانبدارانہ پالیسی اور سوشلزم کو چنا اور روس کے ساتھ دوستی کی،پاکستان نے امریکہ کو اپنا دوست چنا۔اس دوستی کے فائدے بھی ہوئے اور نقصانات بھی۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان نے خود کفالت کا راستہ نہیں اختیار کیا اور غیر ملکی امداد پر بھروسہ کیا، جو کسی نہ کسی مد میں ملتی رہی۔لیکن ہمارے حاکمین نے ظلم یہ کیا کہ امداد کو ان چیزوں پر نہیں لگایا جن کے لیے وہ ملتی تھی۔ اس کی ایک بڑی مثال تعلیم تھی۔ آج کی تازہ خبر ہے کہ قبلہ اسحاق ڈار صاحب نے کہا ہے کہ پاکستان کے ڈھا ئی کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں۔یہ نوازیوں، زرداریوں اور عسکری حضرات کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ جنہوں نے پاکستان پر حکومت کی، 75 سال گذرنے کے بعد بھی، اتنے بچے سکول نہیں جا سکے۔اب سوچئیے کہ جو ملک اپنی افرادی قوت کی بہتری پر سرمایہ کاری نہیں کرے گا، وہ کیسے ترقی کرے گا؟۔
پاکستان کی دوسری بد قسمتی یہ ہے کہ وہ گداگری سے سلطنت چلاتا ہے۔ حالانکہ اب 25 کروڑ آبادی کا ملک ہے، جس میں اچھے خاصے کاروبار ہیں، فیکٹریاں ہیں اور اربوںکا سامان ہے، لیکن عوام پورا ٹیکس نہیں دیتے۔ اس میں کچھ قصور عوام کا ہے اور کچھ سرکار کا۔کہتے ہیں کہ محکمہ ٔمال کے سینکڑوں افسر ہر بڑی کمپنی سے بھتہ لیتے ہیں اور ان کا ٹیکس کم کر دیتے ہیں۔حکومت چونکہ خود اس رشوت کی حصہ دار ہے، وہ اس معاملے پر خاموش رہتی ہے۔ چنانچہ ہر سال پاکستان کا بجٹ خسارے کا ہوتا ہے اور اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے قرضہ لیا جاتا ہے۔ اندر سے بھی اور باہر سے بھی۔اب حالات یہ ہو گئے ہیں کہ پاکستان کو باہر والے بھی مزید قرضہ نہیں دینا چاہتے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ پاکستان کسی وقت بھی دیوالیہ کا اعلان کر دے گا جسے ڈیفالٹ کہتے ہیں۔ادھر ہماری پیاری افواج کو، جو سب سے زیادہ بجٹ کا حصہ وصول کرتی ہے، اس کا تقاضہ بڑھتا جاتا ہے۔اسکونہ کہنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے۔ان حالات میں پاکستان کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہو گیا ہے۔ایک طرف فوج کا سربر اہ طاقت کے نشہ میںچور، اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے چکر میں ہے، تو سیاسی حاکم اپنی جیبیں بھرنے کے چکر میں۔فوج نہ صرف بجٹ کا بڑا حصہ لیتی ہے، اس کا اپنا ایک وسیع صنعتی اور جائدادکا کاروبار ہے۔ نہ وہ اس پر ٹیکس دیتی ہے اور نہ اس کے اعداو شمار پبلک کو دکھاتی ہے۔سیاسی حاکم اور ان کے چیلے چانٹے گھروں میں اربوں روپے دبا کر بیٹھے ہیں۔ اگر یہ رقمیں قومی خزانے میں ہوتیں تو پاکستان کو قرضے لینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔اب نہ صرف پاکستان پائی پائی کا محتاج ہے، اس میں جو غیر ملکی سرمایہ کاری تھی وہ بھی تیزی کے ساتھ واپس جا رہی ہے۔ جس سے کاروبار کوتو جو نقصان پہنچا، وہ پہنچا، ہزاروں کارکن بے کار ہو گئے، اورصنعتیں ٹھپ ہو گئیں۔کروڑوں پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے چلے گئے ہیں، جس کے اثرات ہولناک ہو نگے۔
ہم اس مقام پر کیسے پہنچے ہیں؟ اس میںزیادہ قصور ہمارا ہے اور کچھ دوسروں کا۔ یعنی ہمارے دشمن ملکوں کا، جو بنیادی طور پر ڈھائی ہیں۔ امریکہ ہمارا نہ دوست ہے اور نہ دشمن بلکہ دشمنوں کے مشورے پر چلنے والا۔ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم نے، یا ہمارے سیاستدانوں نے، دشمنوں کی ہدایت پر عمل کیا بغیر سوچے سمجھے کہ ان کی ہدایت ہمارے فائدے میں ہے یا نقصان میں۔ بنیادی طور پر پاکستان کے سیاستدان یا تو سمجھتے تھے کہ پاکستان ایک عارضی سلسلہ ہے اس سے جتنا جلدی اور جتنا زیادہ فائدہ اٹھا لیں اتنا ہی ان کے لیے بہتر ہو گا۔یہ سیاستدان اکثر اوقات جاگیر دار اور بڑے زمیندار تھے۔یہ اپنی برادری کے علاوہ عام پاکستانیوں کو ہاری یا مضارع سے زیادہ کی اہمیت نہیں دیتے تھے۔اور غالباً یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کبھی بھی تعلیمی سہولتوںکے لیے اتنا بجٹ نہیں دیا جتنا کہ ضرورت تھی۔جو خرچ تعلیم پر کیا وہ بھی اس لیے کہ نظم و نسق چلانے کے لیے افرادی قوت کی ضرورت تھی جسے لکھنا پڑھنا آتا ہو۔ وہی پالیسی جو انگریزوں کی تھی۔ اگر ہر کوئی پڑھ لکھ جاتا تو ان کو اپنے انسانی حقوق کی آگاہی ہو جاتی جو کہ ان بڑوں کو قابل ِقبول نہیں تھی۔پاکستان کے شروع کے دنوں میں تو انگریزوں کا دیا تعلیمی نظام چلتا رہا لیکن آہستہ آہستہ یہ نظام بڑھتی ہوئی آبادی اور پڑھانے والوں کی کمی کے باعث نا کافی ہو گیا۔اگرچہ ملک سے باہر جانے والوں نے اپنے بچوں کی پڑھائی کے لیے رقوم بھیجنا شروع کر دیں، زیادہ بچے یا توسکول جا ہی نہیں سکے یا تین چار سال کے بعد سکول سے اٹھا لئے جاتے رہے کیونکہ غریب والدین ان بچوں کو سستی نوکریوں پر لگوا دیتے تھے۔قصہ مختصر، پاکستان میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے اور جنہیں خواندہ کہتے ہیں وہ بھی بس اپنا نام لکھنا جانتے ہیں۔
ہمارے سیاستدانوں کے خود غرضانہ رویوں کو سب سے بڑا فائدہ اس ادارے نے اٹھایا جسے ہم بہترین منظم اور قابل اعتماد جانتے تھے۔چنانچہ بہت جلدپہلا مارشل لاء لگا، پھر دوسرا اور ہر چند سالوں کے بعد مارشل لاء لگتا رہا۔اور بیچ میں جو سیاستدان حکومت بنا سکے، وہ زیادہ لوٹ مار میں مصروف رہتے تھے اور عوام کی غربت دور کرنے میں کم۔حکومت کبھی نونیوں کے پاس اور کبھی پی پی پی یا زرداریوں کے پاس جاتی رہی۔اس اثنا میں قدرت نے پاکستان کو ایک ایسا حکمران دے دیا جو واقعی غربت دور کرنا چاہتا تھا، معیشت ٹھیک کرنا چاہتا تھا،اور اس کے ساتھ مسلم امہ کی بہتری بھی چاہتا تھا۔ یہ لیڈر عمران خان تھا۔ لیکن اس کا یہ خواب کہ مسلم امہ بھی بیدار ہو جائے، اس کی تباہی کا باعث بنا کیونکہ ایک دشمن ملک کو یہ بات ہر گز پسند نہیں تھی۔چنانچہ منظم ادارے اور بے ضمیر سیاستدانوں کے ساتھ ملکر،اس کی حکومت گرا دی گئی ، اور اس کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔اس طرح پاکستانیوں کی آخری امید بھی ملیا میٹ کر دی گئی۔ بد قسمتی یہ تھی کہ پاکستانیوں کی اکثریت عمران خان کی خصوصیات کو سمجھ کر اس کو پسند کرچکی تھی جس کا ثبوت8فروری کے انتخابات تھے۔ لیکن ان انتخابات کے نتائج کو طاقتور حلقوں نے بدل دیا اور نون لیگ کی حکومت بنا دی گئی۔عمران خان کو لا یعنی اور بے بنیاد مقدمات میں الجھا کر محبوس کر دیا گیا۔ان تمام واقعات میں ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ عوام اٹھ کھڑے ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہونے کا امکان نظر آتا ہے۔نہ صرف یہ، بلکہ انصاف کی آخری پناہ گاہ،یعنی عدالتی نظام کو بھی تہس نہس کر دیا گیا۔
تاریخ کے ان اوراق کو دیکھتے ہوئے کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ کہ ہمارے منظم ادارے اور سیاستدانوں نے کیوں امریکہ کی غلامی آنکھیںبندکر کے قبول کر لی اور بالکل نہیں سوچا کہ پاکستان کی بہتری کس چیز میں تھی؟ مثلاً اگر پاکستان کو ایک ایماندار، مخلص اور قابل لیڈر مل گیا تھا تو اس کو غیر ملکی سازش میں شامل ہو کر کیوں ہٹا دیا گیا؟یہ عمل وطن دشمنی کے برابر نہیں تھا؟ لیکن یاد رہے کہ اس سے پہلے اسی پاکستانی مضبوط ادارے نے سیاستدانوں کے ساتھ ملکر، غالباً امریکہ کے مشورے پر، ملک کو دو ٹکڑے کر دیا تھا، اور اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا تھا۔منظم ادارے اور سیاستدان ملکر پاکستان کو اس موڑ پر لے آئے ہیں کہ ملک سے بیرونی سرمایہ دار اپنے کاروبار بند کر کے چلے گئے ہیں۔ اندرونی سرمایہ دار یا تو غیر پیداواری شعبوں میں پیسہ لگا رہے ہیں یاسٹہ بازار میں۔صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ پاکستان قرضے لے لے کر اب دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔حاکم اپنے عیاشی کے اخراجات روکنے پر تیار نہیں۔ کرپشن اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ آئی ایم ایف جیسے ادارے نے بھی ہاتھ کھڑے کر لیے ہیں۔ ا ن حالات میں ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ ہماری مدد کرے گا؟ اس سے بڑی خوش فہمی کوئی اور نہیں ہو سکتی چاہے ہم اس کے لیے کچھ بھی کر گزریں۔
اس وقت شواہد ہیں کہ صدر ٹرمپ صہیونیوں کے قبضہ میںہے ۔ وہ جو اسے حکم دیتے ہیں وہ بجا لاتا ہے۔ ٹرمپ کا مطالبہ کہ پاکستان ابراہیم معاہدے پر دستخط کرے، اسرائیل کو تسلیم کرے اور غزہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان اپنی فوج لا کر کھڑی کر دے جوحماس سے ان کے ہتھیار نکلوا لے، بھی وہیں سے آیا ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ یہ شرائط پاکستان کے حق میں نہیں خواہ ملٹری کو کتنے بھی فائدے ملیں۔پاکستانیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ کام نکل جانے کے بعدضروری نہیں کہ امریکہ پاکستان کی مالی مدد کرے گا۔اس کی بہت سی مثالیں ہیں کہ امریکہ نے غریب ملکوں کو استعمال کیا اور گندے ٹشو کی طرح پھینک دیا۔پھرطوطےکی طرح آنکھیں پھیر لیں۔تازہ ترین مثال ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان کی ہے۔ افغانستان کے طالبان نے اپنی جانیں دیکر روس کو ایسی شکست دی کہ امریکہ اس کے خواب ہی دیکھتا تھا۔لیکن جب اس کا کام نکل گیا تو امریکہ نے آنکھیں پھیر لیں۔ پھر تو کون اور میں کون۔اور بہت سی مثالیں ہیں۔ اور بات بھی ٹھیک ہے کہ ہر ملک اپنی خارجہ پالیسی کو اپنے مفاد میں بناتا ہے۔ اس میں اگر دوسرے ملک کا مفاد بھی ہو تو اسے فائدہ ہو جاتا ہے۔پاکستان کے ابتدائی دنوں میں امریکہ کوکیمونسٹوں سے خطرہ تھا۔ چونکہ پاکستان بھی کیمونسٹوں کے خلاف تھا، ان کی آپس میں گاڑھی چھنی۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ تاثر بدل گیا جب امریکہ نے پاکستان سے فائدے کم اور خرچے زیادہ دیکھے۔اسی لیے افغانستان میں جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ نے پاکستان کی امداد بھی ختم کر دی۔ اب اس کو پاکستان کی ضرورت نہیں تھی۔
ان وجوہات کی بنیاد پر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جب امریکہ کا مطلب پورا ہو جائیگا، وہ پاکستان کی امدد سے ہاتھ روک لے گا۔جب یہ مطالبہ بھی کسی دوسرے ملک کا ہو تو امریکہ صرف دکھاوے کا کام کرے گا۔اور ہم اس کے لیے دیوانے ہو رہے ہیں کہ جیسے ٹرمپ ہمارا سچا خیرخواہ بن گیا ہے۔یہ صرف دیوانے کا خواب ہو سکتا ہے اور کچھ نہیں۔ اس لیے براہ مہربانی پاکستانیوں کے ساتھ برا سلوک نہ کریں۔ ان کی اکثریت جس پارٹی کی حمایت کرتی ہے اس کے ساتھ مذاکرات کریں اور ان جعلی حکمرانوں کو گھر جانے دیں۔یہی سچی محب الوطنی ہے۔اور بقا کا راستہ ہے۔



