سیاست نہیں ریاست

انسان کے اندر کئی بیماریاں جو محسوس ہوئے بغیر اپنا پھیلائو جاری رکھتی ہیں اُن کا علم اللہ تعالی کے سوا کسی کو نہیں ہوتااس لئے کہ یہ غیر متزلزل ایمانی یقین مسلمان دل میں ہوتا ہے کہ اللہ ہر ظاہر و باطن سے واقف ہے اُس سے کوئی بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی ۔انسانی بیماریوںمیں حرص و لالچ کی لاعلاج بیماری ہر ذی شعور ،بے شعورکے وجود میں پرورش پاتی رہتی ہے پھر ہماری معاشرتی تربیت اس نہج پر منطبق ہوئی ہے کہ ہم نے پیسہ کمانے کو زندگی کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا ہوا ہے آمرانہ طرزِ عمل اور جمہوری ادوار کے طریقۂ کار سے وقتا فوقتا گزرنے کے باوجود بھی معتمد تجربات سے مستفید ہونے سے قاصر رہے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ بار ہاٹھوکریں کھانے بعد بھی اپنی سوچ کے زاویوںکو راہ راست کی جانب گامزن نہ کر سکے جس سے ملی جلی کیفیات کا انتشار موجودہ دور میں بھی برپا ہے جہاں بیکراں جذبات کا جنم تو ہے مگر شعور ناپید ہے اشرافیہ کے مفاد میں پھیلائی گئی مہنگائی سے متاثر ہونے کے باوجود عوام الناس کا بہتر و ایماندار قائدین کا انتخاب نہ کر سکنا جمہوری نظام کی گرفت کسی دوسرے ہاتھوں میں ہونے کی دلیل دیتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ عوامی فیصلوں سے حکومتیں نہیں بنتیں جیسے مداری کی بھوک مٹانے کے لئے بندر کو ناچنا پڑتا ہے یہی حال میرے وطن کا ہے مشکل فیصلے اشرافیہ کرتی ہے فاقہ غریب عوام کو کرنا پڑتا ہے حقائق پہ منطبق یہ درس نوشتۂ دیوار ہے کہ حکمرانوں نے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا اور صرف ذاتی مفادات کی آبیاری کرتے رہے اس حوالے سے ایک حدیث مبارک نے ذہن پر دستک دی ہے کہ 3شخص نظر ِرحمت سے روز ِ محشر محروم رہیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاتین شخص جن سے اللہ تعالی قیامت کے دن نہ بات کریں گے اور نہ ہی انہیں پاک کریں گے اور نہ ان کی طرف رحمت سے دیکھیں گے اور ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہوگا جن میں بوڑھا زانی ،جھوٹا حکمران ،اور متکبر فقیر ہو گا کتنی عجیب بات ہے کہ ہم اسلامی ملک کے شہری ہونے کے باوجود اسلامی نظام سے نا آشنا اور محروم ہیں معاشی نظام جو کسی ریاست کی خوشحالی کی ضمانت ہوتا ہے مگر ہم سودی نظام ِ معیشت کے تحت نظام ِ زندگی کو رواں رکھے ہوئے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے اس قدر عاقبت سے بے خبری اور اسلامی احکامات کی نظر اندازی دورِ جاہلیت کی عکاس ہے اللہ سے امید لگانے کی بجائے سیاسی قائدین کو اہلیت کے ہالے میں بٹھا کر اُن سے امیدیں باندھ لینا شرک ہے لیکن ہم اس جاہلانہ راہوں میں اتنے آگے جا چکے ہیں کہ سیاسی قائد کو صادق اور جو امین گردانے لگے ہیں ایسی خوابیدہ قوم کو لیڈر بھی اُنہی جیسے ملتے ہیں جنھیں وعدے پورے کرنے کا ہنر آتا ہی نہیں نتیجہ معاشی بربادی کی صورت ہمارے سامنے ہے ایکسپورٹ تنزلی کا شکار اور امپورٹ پورے عروج پر ہے قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم ،ٹیکسسز کی بھرمار ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کی آئینہ دار ہیں آمدن محدود اور اخراجات لا محدود ہونے بدعنوانی و جرائم کے بڑھنے کی وجوہات ہیںعالمی کرپشن انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 135ہے ایسے معاشی و اخلاقی سانحات مسند نشینوں کی توجہ سے مبرا رہےہیں جن کا سامنا آج بھی ہے سیاسی کردار کو درست سمت کی جانب رکھنے کے لئے عوامی سطح پر شعور کی بیداری ناگزیر ہے شکر اس بات پر ہے کہ ہمیں ریاستی دفاع پاک فوج کی صورت میں ملا ہے وطن عزیز کے استحکام کے لئے ان کی جانوں کا نذرانہ ہم پر احسان ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا ذرا سا غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم سب نوکریاں تنخواہ کے لئے مراعات کے لئے کرتے ہیں لیکن پاک فوج کا قد اس وجہ سے ہم سے بلند ہے کہ وہ وطن کی نوکری میں سر قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ملکی سیاست کو جب نااہل لوگوں کے پلڑے میں بےشعور عوام نے ڈال دیا ہو تو فوج کا قومی معاملات میں مداخلت کرنا درست اقدام ہوتا ہے ریاست کی مضبوطی کے لئے پاک فوج کا متحرک رہنا اندرونی و بیرونی دشمنوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کا سدِباب کرنا لازمی امر ہے گریٹر اسرائیل اور اکھنڈ بھارت کے ایجنڈوں پر کار فرما بڑی طاقتوں کے ادراک کے لئے سیاست نہیں ریاست اہم ہے اور صد شکر کہ ریاستی دفاع کی ذمہ داری سیاست کے حوالے نہیں ورنہ اس کی حالت بھی معیشت جیسی ہونی تھی۔



