ہفتہ وار کالمز

شرم کا لفظ ان کی لغت میں ہے ہی نہیں !

ان دنوں پاکستان کے کٹھ پتلی وزیر اعظم کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہورہی! ظاہر ہے کہ ملک کا وہ نیوز میڈیا جسے "مین اسٹریم” یا مرکزی دھارا کہا جاتا ہے اسےتوفسطائی یزیدی قوت نے اسی طرح اپنے تابع فرمان بنالیا ہے، ایسے ہی عضوِ معطل بنادیا ہے جیسے پاکستان کے عدالتی نظام کو۔ پھر بھی کبھی کبھار اگر تابع فرمان میڈیا میں سے کوئی چینل یا اخبار جرأت دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف یزیدی قوت فورا” انتقامی کارروائی کا حکم صادر کردیتی ہے اور اقتدار کی مسند پر جو کٹھ پتلیاں بٹھادی گئی ہیں ان کی کیا مجال کہ یزیدی فرمان سے سرتابی کی جسارت کرے! پاکستان کے انگریزی زبان کے سب سے مؤقر اور معتبر اخبار "ڈان”، اور یاد رہے کہ اسکا بانیء پاکستان بابائے قوم نے پاکستان تحریک کے دور میں دلی سے اجرا کیا تھا، گذشتہ دنوں اپنے اداریوں میں پاکستان پر مسلط یزیدی ٹولہ کی پالیسیوں پر دبے الفاظ میں تنقید کرنے کی کوشش کی تھی لیکن یزیدی ٹولہ نے جس کی قیادت وردی پوش ملت فروش کر رہے ہیں بابائے قوم کے ہر فرمان کو جیسے اپنے بوٹوں کی نوک پر رکھا ہے اور قائد کے پاکستان کا وہ حلیہ بگاڑا ہے کہ عالمِ بالا میں یقینا” قائد یہ سوچتے ہونگے کہ کیا انہیں یزیدیوں کیلئے میں نے پاکستان کے حصول کی خاطر اپنی صحت کو تباہ کرلیا تھا!
یزید عاصم منیر تو اس کا قائل ہے کہ گربہ کشتن روزِ اول اور اس نے یہ وطیرہ بنایا ہے کہ بقول مرحوم حبیب جالب "جو بولتا ہے بند کئے جارہا ہوں میں۔سو پاکستان پر فی زمانہ، دورِ یزیدی میں، جوآمریت اور فسطائیت مسلط ہے وہ ماضی کے سوویت یونین کے اس دور کا چربہ نظر آتی ہے جب جوزف اسٹالن اس کے سیاہ و سفید کا مالک و مختار تھااور اس نے وہ آمریت کا نظام وضع کیاتھا جسے ونسٹن چرچل نے "آئرن کرٹن” کا عنوان دیاتھا !عاصم منیر کے اشارہ پر ڈان اخبار کے سرکاری اشتہار بند کردئیے گئے۔ صحافتِ پاکستان کی دنیا سے واقف یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایک اخبار کیلئے آمدنے کا سب سے بڑا وسیلہ سرکاری اداروں کے اشتہارات ہوتے ہیں۔
صرف ڈان اخبار کی ہی مشکیں کسنے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ دوسرے وار میں ڈان کی ٹی وی چینل اور ریڈیو کے اشتہارات بند کردئے گئے ہیں جس پر آل پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کی تنظیم نے سخت احتجاج کیا ہےاور ڈان اخبار نے اس انتقامی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اپنے اداریہ میں شکوہ کیا ہے کہ یہ سمجھنا کہ اشہارات کی رقم کسی کی ذاتی جیب سے ادا کی جاتی ہے بہت غلط تصور ہے !ڈان کا شکوہ بجا ہے لیکن یزید عاصم منیر اور اس کے ٹولہ کا رویہ تو پاکستان اور اس کے شہریوں کے حقوق کےضمن میں تو وہ ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا اپنے مقبوضہ ہندوستان کے حوالہ سے تھا۔ بلکہ اس بھی بدتر ہے۔ فرنگی قانون کی عملداری پہ یقین رکھتا تھا لیکن یہ یزیدی جرنیلی ٹولہ تو پاکستان کو اپنا مفتوحہ سمجھنے کے علاوہ اس کے باسیوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے جن کے حقوق کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!
ستم بالائے ستم یہ کہ عاصم منیر اس درجہ کم ظرف ہے کہ جب سےصدر ٹرمپ نے اس کی کم ظرفی کو بخوبی بھانپتے ہوئے اس کے سر پہ اپنی منافقت کا دستِ شفقت رکھا ہے — اور ٹرمپ جیسے ساہوکار کا وطیرہ دنیا کو معلوم ہے وہ ہے جو ایک تاجر کا ہوتا ہے جو بنئیے کی طرح ہر سودے میں اپنا چار پیسے کا فائدہ دیکھتاہے توسودا کرتا ہے — اس کے بعد سے یزید کو یہ زعم ہوگیا ہے کہ جب تک سامراج کے گرو گھنٹال کی حمایت اُسے حاصل ہے وہ ہر ناجائز کام کرسکتا ہے! سو عاصم منیر جیسے کم اوقات اور کم نسب کو کوئی خوف نہیں ہے ۔جب تک یزید عاصم منیرکو یہ یقین ہے کہ "سیاں بھئے کوتوال” تو وہ اپنے مقبوضہ پاکستان کے ساتھ وہی مجرمانہ اور ظالمانہ سلوک کرتا رہے گا جس کی عالمی ادارے شدید مذمت کرتے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے ٹارچر یا تشدد کے خلاف انسانی حقوق کے تحفظ کا! اس کی جو ان دنوں” رپورتور” یا ترجمان ہیں، الس جل ایڈورڈز، انہوں نے یزید کے مقبوضہ پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر شدید تنقید کرتےہوئے خاص طور عمران خان کا حوالہ دیا ہے اور کہا ہےکہ عمران کو جو مسلسل مہینوں سے قیدِ تنہائی کی سزا دی جارہی ہے وہ اقوامِ متحدہ کےاس قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے جو کہتا ہے کہ کسی بھی قیدی کو دو ہفتےسے زیادہ قیدِ تنہائی میں نہیں رکھا جاسکتا!اقوامِ متحدہ کی ترجمان نے حکومتِ پاکستان کو یاد دلایا ہے کہ وہ ان تمام انسانی حقوق کے معاہدوں میں فریق ہےجو انسانی حقوق کی پاسداری کیلئے رائج اور نافذ کئے گئے ہیں اور جن کا پابند اقوام متحدہ کا ہر رکن ملک ہے!
لیکن کائر عاصم منیر، جسے حافظِ قرآن ہونے کا ایک طرف تو دعویٰ ہے لیکن دوسری طرف وہ قرآنی احکامات کے ضمن میں ایسا نابلد اور جاہل ہے کہ اسے یہ علم بھی نہیں کہ اللہ کی عدالت میں ہر فعل کا احتساب ہوگا اور وہاں کسی یزید کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا چاہے وہ دنیا میں تا حیات احتساب سے بچنے کیلئے اپنےمقبوضہ پاکستان کی مجبور و مقہور حکومت سے ا ستثنیٰ لے چکا ہو !
لیکن یزید کسی قانون کا اپنے کو پابند نہیں سمجھتا۔ اپنے سامراجی سرپرست کی دیکھا دیکھی وہ بھی قانون کا ایسے ہی مذاق اڑا رہا ہے جیسے سامراجی گرو گھنٹال بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیر رہا ہے ونیزویلا کی کشتیوں پر کھلے سمندر میں حملہ کرکے اور کھلم کھلا یہ دھمکیاں دے کر کہ وہ ونیزویلا میں حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے تاکہ اس کے عوام پر اپنی پسند کا کٹھ پتلی حکمراں مسلط کردے جیسا سامراج نے پاکستان کو یزید تحفہ میں دیا ہے !ہاں عاصم منیر کے اشارہ پر کٹھ پتلی حکومت اور مقبوضہ نیوز میڈیا نے شدید مذمتی مہم چلائی ہے اسلام آباد میں ناروے کے سفیر کے خلاف جس کا جرم یہ تھا کہ وہ سپریم کورٹ میں اس عدالتی کاروائی میں دیگر سامعین کی طرح خامشی سے موجود تھا جو پاکستان میں انسانی حقوق کی ایک بہت بہادر اور نڈر کارکن اور وکیل ایمان مزاری اور ان کے شوہرہادی کی انسانی حقوق کی پیٹیشن کی سماعت کیلئے عدالتِ عالیہ میں ہوئی تھی!ناروے کے سفیر نے نہ کوئی بیان دیا نہ کوئی ایسی حرکت کی جو سفارتی طور طریقوں کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہو!
یاد رہے کہ سفارتی طور طریقوں کیلئے دنیا کے دو سوممالک اس کنونشن کے پابند ہیں جو "ویانا کنونشن” کہلاتا ہے۔ ناروے کے سفیر کا رویہ ویانا کنونشن کے کسی بھی ضابطہ کی خلاف ورزی نہیں کہا جاسکتا۔ ہم نے 36 برس اسی کنونشن کے تحت دنیا کے درجن بھر ممالک میں سفارت کاری کی ہے۔ ہم جہاں بھی جمہوریت کا راج ہوتا تھا اقتدار کی جماعت کے ساتھ ساتھ حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں سے مسلسل رابطہ میں رہتے تھے لیکن کہیں یہ نہیں ہوا کہ حکومتِ وقت نے ہمارے طور طریقہ پر کوئی اعتراض کیا ہو!
ہمیں یاد ہے کہ انقرہ، ترکی، میں اپنی سفارت کے دوران ہم سابق وزیر اعظم نجم الدین اربکان سے ان کے گھر پہ ملاقاتیں کرتے تھے۔ اربکان کو اس الزام پر جرنیلوں کی سازش سے بالکل اسی طرح برطرف کیا تھا جیسے عمران کو باجوہ جیسے ملت فروش کی سازش سے اقتدار سے محروم کیا گیا ہے! ہماری نجم الدین اربکان کے ساتھ ملاقاتوں پر حکومت ترکیہ نظر رکھتی تھی لیکن مجال ہے کہ ہمیں کبھی ٹوکا گیا ہو یا باز رکھنے کی کوئی کوشش کی گئی ہو!لیکن یزیدی ٹولہ کے حکم پر ناروے کے سفیر کو دفترِ خارجہ میں طلب کیا گیا اور یہ احتجاج ان کے گوش گذار کیا گیا کہ انہوں نے عدالتی کارروائی کی سماعت کرکے پاکستان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کی کوشش کی ہے!
یزیدی ٹولہ اپنی فسطائیت سے ویسے ہی پاکستان کو اقوامِ عالم میں ایک اچھوت اور جگ ہنسائی کا سامان بنا چکا ہے لیکن اس غیر سفارتی حرکت سے اور رسوائی ہوگی ملک کی ۔ لیکن یزیدی ٹولہ کو اپنی ناک کے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا حلوہ مانڈہ سلامت رہے باقی ملک جائے بھاڑ چولہے میں!
تو اب اس کا ذکر ہوجائے جس سے ہم نے اس کالم کا آغاز کیا تھا!
پاکستان کا کم نسب چھٹ بھیا کٹھ پتلی وزیر اعظم شہباز شریف ایک بین الاقوامی کانفرنس میں روس کے صدر پیوتن سے ملاقات کا خواہش مند تھا۔ روسیوں کو اس بوٹ پالشئیے کی اوقات معلوم ہے اسلئے انہوں نے اسے ٹالنے کیلئے انتظار کرنے کو کہا۔ یہ چھٹ بھیا خبر کے مطابق چالیس منٹ باہر انتظار کرتا رہا جبکہ اندر پیوتن کی ملاقات ترکی کے صدر طیب اردوان سے جاری تھی۔ظاہر ہے کہ کوئی پڑھا لکھا، سمجھدار اور ظرف والا وزیر اعظم ہوتا تو ویسے ہی انتظار کرنے کی زحمت نہ اٹھاتا لیکن یہ نام کا شہباز تو کم ظرفی اور کم نسبی کی مثال ہے۔ اور پھر یہ سفارتی طور طریقوں کے باب میں بھی کٹر جہل کا شکار ہے۔ عمران خان ایسے ہی چھٹ بھیوں کیلئے کہتا ہے اور سو فیصد سچ کہتا ہے کہ اول تو یہ پڑھے لکھے نہیں ہیں دوسرے یہ پڑھنے اور سیکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے !کوشش یہ کم اوقات کیوں کرینگے جب انہیں ان کی جہالت کے صلہ میں وزارتیں تقسیم کی جاتی ہیں، انہیں عوام کی مرضی کے خلاف ان کے سروں پر بٹھادیا جاتا ہے!تواپنی جہالت اور کم نسبی کا اس چھٹ بھئیے نے ثبوت یوں دیا کہ چالیس منٹ کے انتظار کے بعد اس نے بلا اجازت اور بین الاقوامی ضابطوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اس کمرہ میں گھسنے کی کوشش کی جہاں پیوتن اور طیب اردوان کی ملاقات جاری تھی!اس کی اس حرکتِ رندانہ پر روسی پروٹوکول بھی انگشت بدنداں تھا کہ یہ کیسا جاہل وزیر اعظم ہے جسے پروٹوکول کی الف ب کا بھی علم نہیں ہے!
ظاہر ہے کہ یزیدی ٹولہ اور تابع فرمان کٹھ پتلی حکومت نے اس واقعہ کی صداقت سے انکار کیا ہے اور اسے پاکستان دشمن بھارتی پروپیگنڈا کی کارروائی بتاکے اس شرمندگی پر پردہ ڈالنا چاہا ہے جو چھٹ بئیے شہباز کی اس جاہلانہ بلکہ طفلانہ حرکت سے پاکستان کے نصیب میں آئی ہے۔ اور رہی شہباز یا دیگر یزیدی کٹھ پتلیوں کی شرمندگی کی بات تو ان کی لغت میں تو شرم کا لفظ ہی ناپید ہے!
آخیر میں آپ وہ قطعہ پڑھئیے جو ہم نے اپنی قوم کے نام لکھا ہے اس فسطائی اور طاغوتی نظام کے حوالہ سے جس کا پاکستانی قوم شکار ہے اور اس وقت تک رہے گی جب تک اسے اپنی تقدیر آپ بدلنے کا ہوش نہیں آجاتا !
کم ظرفوں کا ہے راج، سنو جاگتے رہو
قزاقوں کا ہے راج، سنو جاگتے رہو
شبخوں پڑا ہے بستی پہ یہ دھیان میں رہے
عیاروں کا ہے راج، سنو جاگتے رہو !

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button