ہفتہ وار کالمز

کریزی ٹائون!

ہر صدر یا وزیر اعظم اپنے ملک کو درپیش تمام مسائل کا ذمہ دار سابقہ حکومت کو قرار دیتے ہوئے اُسے بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ کسی بھی جمہوری ملک میں یہ حکمت عملی زیادہ دیر نہیں چل سکتی کیونکہ لوگ اپنے حالات میں بہتری دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ مہنگائی‘ بیروزگاری اور جرائم میں کمی کی توقع رکھتے ہیں۔ آجکل صدر ٹرمپ کو عوامی محاذ پر نا موافق حالات کا سامنا ہے۔ کئی سرویز کے مطابق انکی مقبولیت چالیس فیصد سے کم ہو چکی ہے۔اس بدلتی ہوئی صورتحال میں صدر ٹرمپ کے مشاہیر نے انہیں عوامی رابطے کی مہم شروع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ انکی رائے میں مہنگائی اور افراطِ زر میں اضافہ ہی بائیڈن حکومت کی ناکامی کا اصل سبب تھا۔ صدر ٹرمپ کی گذشتہ برس کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انکے پہلے دور صدارت میں معیشت بہتر تھی اس لیے لوگوں کو یقین تھا کہ وہ دوسری مرتبہ بھی معاشی مشکلات پر قابو پا لیں گے لیکن گیارہ ماہ گزرنے کے بعد بھی افراط زر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگلے سال ہونیوالے وسط مدتی انتخابات سے پہلے اگر حالات میں تبدیلی نہیں آتی تو ریپبلیکن پارٹی ہائو س میں اکثریت کھودے گی اور سینٹ میں بھی اسکی برتری میں کمی آ جائیگی۔ اس صورت میں صدر ٹرمپ کے لیے اپنے جارحانہ انداز حکمرانی کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائیگا۔ ان حالات کے پیش نظر صدر ٹرمپ نے لوگوں سے براہ راست رابطے کی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ گذشتہ ہفتے انہوں نے پنسلوینیا جیسی اہم سونگ سٹیٹ کے پہاڑی شہر Mount Pocono میں ایک اجتماع سے خطاب کیا۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ وہ ایک بڑے جلسے سے دھواں دھار خطاب کر کے وسط مدتی انتخابات کی مہم کا آغاز کریں گے۔ ایک دنیا دیکھے گی کہ MAGA تحریک اپنے جوبن پر ہے اور صدر ٹرمپ پہلے کی طرح سیاسی منظر نامے پر چھائے ہوے ہیں۔ لیکن Mount Airy Casino Resort کے اس ہال میںمیڈیا کے مطابق صرف بارہ سو افراد آئے تھے اور انکی تالیوں کے شور اور نعروں کی گونج میں وہ جوش و جذبہ نہ تھا جو پہلے ہوتا تھا۔ نوے منٹ کے اس خطاب میں صدر ٹرمپ نے اپنا زور بیان بائیڈن حکومت کی ناکامیوں پر صرف کیا۔ ایک موقع پر ڈیموکریٹس کو مخاطب کرتے ہوے انہوں نے کہا Where you all big mouths were when Biden was raising groceries. بارہ دسمبر کے نیو یارک ٹائمز کی ایک خبر کے مطابق مائونٹ پوکونوکی تقریر میں صدر ٹرمپ نے اکتیس مرتبہ سابقہ صدر کا نام لیا۔ وہ بار بار اپنے پیشرو کو Sleepy Joe, Crooked Joe اور Stupid Joe کہتے رہے۔ اگلے روز چند ٹیلیویژن چینلز نے وہ ویڈیو کلپس چلا دیں جن میں صدر ٹرمپ کابینہ کی میٹنگ کے دوران اونگھ رہے تھے۔ اب یہ بات چل نکلی ہے۔ نامی گرامی کالم نگار بڑھ چڑھ کر خیال آرائی کر رہے ہیں۔ ایک نے لکھاہے کہ اب اوول آفس میں کیمروں کے داخلے پر پابندی لگا دی جائے گی۔ معروف کالم نگار Frank Bruni نے اس عنوان سے پورا ایک کالم لکھ ڈالا ہے۔ Is Sleepy Donald The New Sleepy Joeکالم نگار نے لکھاہے کہ گذشتہ منگل کی میٹنگ میں صدر صاحب کے وزرا ءانکی طرف دیکھ رہے تھے اور انکی آنکھیں بند تھیں۔ فرینک برونی نے لکھا ہے کہ صدر ٹرمپ کی کلائی بھی کافی عرصے سے سوجھی ہوئی ہے اور وہ اپنے ہاتھ کے نشانات کو چھپانے کے لیے اس پر میک اپ کرتے ہیں۔ کالم نگار نے پوچھا ہے And how to solve the mystery of the M.R.I.that he had in October جب رپورٹروں نے صدر ٹرمپ سے اس ایم آر آئی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ I have no idea what they analyzed. صدرٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر جس نتیجے پر بھی پہونچے ہیںوہ نہایت شاندار ہے اور انہیں اس سے بہتر نتیجے کی توقع نہ تھی۔
مبصرین کے مطابق اصل بات یہ ہے کہ نومبر کے مہینے میں ہونیوالے چند انتخابی مقابلوں میں ر ی پبلیکن پارٹی کی شکست نے صدر ٹرمپ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مڈ ٹرم الیکشن سے ایک سال پہلے ہی عوامی عدالت میں آ کھڑے ہوے ہیں۔ عام طور پر کسی بھی جماعت کا صدر وسط مدتی انتخابات میں براہ راست حصہ نہیں لیتا۔نظر یہ آرہا ہے کہ وقت بدل گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی عوامی حمایت اب پہلے جیسی نہیں رہی۔
دیکھا جائے تو ہر امریکی صدر کو کسی بھی دوسرے ملک کے سربراہ سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اسوقت صدر ٹرمپ خارجی محاذ پریوکرین‘ غزہ‘ وینزویلا‘ روس ‘ چین اور یورپ کے تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں اور ملک کے اندر انہیں ا میگریشن‘ مہنگائی‘ عدالتوں کے اختلافات اور ڈیموکریٹک پارٹی کی سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ صدر ٹرمپ 79 سال کی عمر میں ان تمام محاذوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ اکثر بیانات دینے کے علاوہ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروٹھ سوشل پر حریفوں کے لتے بھی لیتے رہتے ہیں۔ اس لیے امریکہ آجکل ایک ایسا کریزی ٹائون نظر آنے لگا ہے جس میں ہر طرف ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے۔ ایسے میں کسی بڑے حادثے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button