ہفتہ وار کالمز

سولہ دسمبر! آج بھی یوں لگتا ہے جیسے کل ہی یہ سانحہ گزرا ہو!

ہم پچھلے کئی برسوں سے سولہ دسمبر سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے آپ کو یہ واقعہ سناتے ہیں کہ اس سانحے کی خبر ہم نے اور ہمارے اہل خان نے کس کرب، دکھ اور غم کے ساتھ ایک دیار میں سنی تھی۔ ہمارے والد کی آر سی ڈی (علاقائی تعاون برائے ترقی) کی طرف سے تہران میں تقرری تھی، یہ معاہدہ پاکستان، ایران اور ترکی کے مابین طے پایا تھا اور تینوں ممالک کے نمائندگان جو مختلف شعبوں سے وابستہ تھے تہران میں تعینات تھے۔ کمیونیکیشن کے شعبے میں ہمارے والد وہاں تعینات تھے۔ 1971؁ ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد انٹر میں داخلے کے درمیان کے وقت ہم اپنے والدین کے ساتھ تہران میں مقیم تھے۔ دونوں 1947؁ء میں تقسیم کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور دوبارہ سے نئی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ ان دنوں مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان اورانڈیا کے حوالے سے ہم لوگ دیار غیر میں کافی متفکر رہتے تھے، روزانہ کا معمول یہ تھا کہ والد کے آفس سے آنے کے بعد دوپہر کا کھانا ٹیبل پر لگادیا جاتا تھا اور پاکستان کی خبروں کا واحد ذریعہ ریڈیو پاکستان کی اُردو ایکسٹرنل سروس کی دوپہر 3بجے نشر ہونے والی خبروں کا بلیٹن تھا،16 دسمبر کی سہ پہر ہم سب کھانا شروع کرنے سے پہلے خبروں کا انتظار کررہے تھے ڈائنگ ٹیبل پر کان ریڈیو پر لگائے، اچانک خبر نشر ہوئی کہ پاکستان کی افواج نے جنرل اے اے کے نیازی کی قیاد ت میں بھارتی لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے ہاتھوں پر ڈھاکہ کے پلٹین میدان میں 4 بجکر 31منٹ پر ہتھیار ڈال دئیے ہیں اور اب مشرقی پاکستان دنیا کے نقشے پر نیا ملک بنگلہ دیش کے نام پر قائم ہو گیا ہے، خبر سنتے ہی والد کا چہرہ جذبات روکنے کی کوشش میں سرخ ہوتا چلا گیا اور وہ اٹھ کر اپنے روم میں چلے گئے، ہم نے ساری زندگی اپنی والدہ کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہ دیکھے تھے مگر اس وقت وہ بھی فرط جذبات سے مغلوب ہو کر ڈوپٹے سے آنکھیں پونچھتی ہوئی اٹھ کر چلی گئیں، ہم یہ سب کچھ بہادر بنتے ہوئے چپ چاپ دیکھتے رہے مگر کچھ دیر بعد یوں محسوس ہوا کہ جیسے ہماری آنکھیں بھی جلنے لگی ہوں۔
16دسمبر کا وہ دن اور آج کا د ن ہم کبھی اس افسردہ سہ پہر کو اپنے ذہن سے محو نہ کر سکے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ چبھن ہمیشہ ہمارے ساتھ ہی رہے گی، جس وقت ہم یہ کالم / نیوز ویوز لکھ رہے ہیں تو آنکھیں دھندلا رہی ہیں اور ریڈیو پر بھی آپ یہ لائیو نہیں سن رہے ہیں بلکہ آج کا نیوز ویوز ریکارڈڈ ہے، پتہ نہیں کیوں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے آواز بھرا جاتی ہیں اور آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو ٹپکنے لگ جاتے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ریڈیو کے سامعین یہ گمان کریں کہ سلیم سیدکمزور آدمی ہے، آج تک ہمیں یہ اندازہ نہیں ہو پایا ہے کہ یہ کیفیت سقوط ڈھاکہ کی وجہ سے ہوتی ہے یا کہ زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے والدین کی کیفیت ذہن پر نقش ہو جانے کے باعث ہوتی ہے۔ کاش کہ ہمارے فوجی جرنیل بھی اس بات کا اندازہ لگا سکیں کہ انہوں نے صرف پاکستان کےدوٹکڑے نہیں کئے بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے، حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں درج ہے کہ مشرقی پاکستان کو توڑنے کا آغاز جنرل ایوب خان نے کیا تھا اور اس کو ایک عیاش اور بدقماش جنرل یحییٰ خان نے انجام تک پہنچایا، ظاہر ہے کہ یہ ایک مصدقہ بات ہے کہ TRICKLE EFFECT اوپر سے نیچے تک آتا ہے، بنگلہ دیش بننے کے بعد ڈھاکہ کے پلٹین میدان میں شیخ مجیب الرحمن نے تقریر کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ پاکستانی فوج اس بات کا جواب دے کہ بنگالی مائوں سے پیدا ہونے والے ہزاروں بچوں کا باپ کون ہے؟ یاد رہے اور آپ گوگل کریں کہ یہ وہی شیخ مجیب الرحمن ہے جس نے پاکستان کی جدوجہد آزادی میں قائداعظم کی مسلم لیگ کے شانہ بشانہ بھرپور حصہ لیا تھا۔ ایوب خان اور فاطمہ جناح کے1964؁ ء کے الیکشنز کے دوران فاطمہ جناح نے مشرقی پاکستان سے اپنی الیکشن کی مہم کیلئے شیخ مجیب الرحمان کو منتخب کیا تھا۔ ویب پر آج اسٹیج پر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی تصاویر آج فوجی جرنیلوں کا منہ چڑا رہی ہیں جنہوں نے مجیب الرحمان کو غدار پاکستان کا لقب دیا تھا، مجیب الرحمن غدار نہیں تھا بلکہ مغربی پاکستان کے فوجی جرنیلوں نے اپنے اپنے مفادات، عیاشیوں اور اللے تللے کیلئے اسے ایک رکاوٹ جانا، مغربی اور مشرقی پاکستان میں 1970ء ؁کے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی اور اس کے سربراہ کو اقتدار حوالے نہ کر کے مجیب الرحمن کو دیوار سے لگا دیا اور انڈیا کی غیر معمولی سپورٹ کیساتھ اس نے مغربی پاکستان کے ساتھ بغاوت کردی اور بنگلہ دیش بنا دیا۔
اگر دیکھا جائے تو آج بھی پاکستان میں وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ الیکشن میں تین چوتھائی اکثریت حاصل کرنے والی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوئے ایک اور جنرل حافظ سید عاصم منیر شاہ نے PTI کو حکومت بنانے سے روک دیا، اقلیت کو حکومت دے کر وہی مثال دہرادی،مجیب الرحمان کی طرح سے ۔ عمران خان کو قید میں ڈال دیا، اس کی بات، اس کی تحریر، اس کی تقریر اور اس کی تصویر پر پابندی لگا کر یہ ذہنی مریض یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ لوگوں کی ڈیمانڈ پر قابو پا لے گا تو یہ اس کی جنرل یحییٰ کی طرح سے ایک اور بھول ہے۔ اب 70ء کا دور نہیں ہے، آج 2025ء کا زمانہ ہے ،سوشل میڈیا کا دور ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کے نقشے پر16دسمبر 1971؁ ء کو ابھرنے والے نئے ملک بنگلہ دیش کے ذمہ دار براہ راست پاکستانی جنرل ہیں، دنیا کے ممالک میں ایک نئے بنگلہ دیشی پرچم کا ذمہ دار پاکستانی جنرلز ہیں اور دنیا کے ممالک کے قومی ترانوں میں نئے قومی ترانے کے بانی پاکستانی جنرلز ہیں تو کیوں نہ آج ہم بنگلہ دیش کا قومی ترانہ آپ کو سنوا دیں شاید ان جنرلوں خاص طور پر جنرل عاصم منیر کو شرم آجائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button