ذہنی معذور!

ہم اس شخص کو ہی ذہنی معذور کہتے ہیں جو معمولاتِ زندگی میں عقل کا کم استعمال کرتا ہو،کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہویا سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہویا معمول کے مطابق اپنے روزمرہ کے کام انجام دینے کی صلاحیت نہ رکھتا ہوبعض اوقات انسان صحت مند نظر آتا ہے اپنے روزمرہ کے کام بھی بخوبی انجام دے سکتا ہے مگر مسائل اور معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہو،یا وہ معاملات کو اپنے طریقے سے انجام دیتا ہواور وہ اس میں کسی قسم کی لچک نہ ہو،اس ساری تفضیل کے باوجود شائد میں ذہنی معذوری کی گرہیں نہ کھول سکا،ایک اچھے معاشرے میں ہم اس ترکیب کو استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیںیہ فقرہ بہت سخت اور نا پسندیدہ اظہار ہوتاہے کسی کو ذہنی معذور کہنے سے پہلے ہم کئی بار سوچتے ہیں کہ یہ فقرہ استعمال کیا جائے یا نہیں،ہم اس کے لئے متبادل الفاظ تلاش کرتے ہیںمگر مڈل کلاس اور لوئیر مڈل کلاس میں کم پڑھے لکھے یہ ترکیب بلا سوچے سمجھے استعمال کر لیتے ہیں اور اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں کرپاتے ،یہ اسوقت ہوتا ہے جب شدید برہمی کے عالم میں یہ ترکیب منہ سے نکل جاتی ہے یہ صورت انگریزی میں بھی موجود ہے یہ جملہ اکثر منہ سے نکل جاتے ہے کہ He is sick/he is mentally sick.یہ بھی زیادہ تر Colloquial language کا حصہ ہے اس کا استعمال کبھی کبھی سیاست میں دکھائی دیتا ہے،مگر اچھے سیاست دان اس سے پرہیز کرتے ہیں،مگر آج کل سیاست دان اپنی پریس کانفرنس میں indecent الفاط کا استعمال کر جاتے ہیں یہ رواج امریکہ میں جو بائیڈن اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈالایہ غصہ عام طور پر سخت سوال کرنے والے صحافیوں کو سہنا پڑتا ہے اور اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی شہہ سرخیاں بن جاتی ہیں ،یہ سب public consumption کے لئے ہوتا ہے سیاست دان اپنی طاقت کے نشے میں کبھی معذرت بھی نہیں کرتے ہندوستان میں جب آزادی کی تحریک چلی تو آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے تقریباً تمام لیڈرز ہی لندن پلٹ تھے آکسفورڈ سے فارغ التحصیل ،مہذب اور اعلی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے،ان میں زیادہ تر Barristorsتھے لہٰذا گفتگو میں نفاست برتی جاتی تھی کبھی ان کے درمیان تو تکار سنی نہیں،ایک دوسرے پر حملے ضرور ہوئے مگر شائستگی کے ساتھ،پاکستان کے قیام کے بعد علی گڑھ کےطلباء نے لفظی گولہ باری شروع کی تھی یہ لیاقت علی خان کو جہالت علی خان کہنے لگے تھے،کچھ کالم نگاروں نے بھی سیاست دانوں کی بیگمات کو مختلف ناموں سے پکارا،مگر یہ بات محض گپ شپ کا حصہ تھی،اس وقت اخبار کا قاری بھی پڑھتا اور مسکرا کر رہ جاتا آج کل کی طرح نہیں کہ یہ بات تھڑوں پر زیر بحث آنے لگی ہے جہاں ذمہ داری کوسوں دور رہتی ہے،سیاست میں بد تہذیبی اسوقت دیکھنے میں آئی جب ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے لگائے گئے اور نعرے لگانے والوں اور نعرہ ایجاد کرنے والوں کو کبھی شرمساری نہیں ہوئی وہ شائد یہ سمجھتے ہونگے کہ انہوں نے ایک بڑا قومی فریضہ انجام دیا،اس وقت تک سیاست میں پہلی بار اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ ہوا،بھٹو صاحب کو بھی ملال نہ ہوا انہوں نے خود سیاست دانوں کی تذلیل کو سیاست کا حصہ جانا،سیاست دانوں کے نام رکھے ان کا مذاق اڑایا،دولتانہ کو چوہا کہہ کر پکارا،اسی زمانے میں ۔اوئے اوئے۔کلچر روشناس ہو چکا تھابھٹو کے زمانے میں عمران ہوتے تو بھٹو ان کو بھی نشانہ بنا چکے ہوتے،جنرل ضیا الحق کے زمانے میں undiplomatic زبان کا خوب خوب استعمال ہوا،بے نظیر کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے پہلی بار ایک اخباری بیان میں کہا کہ ان کا بس چلے تو تو وہ نواز شریف کی کھال ادھیڑ دیں،اس وقت اس زبان درازی پر میں ایک کالم میں احتجاج کیا تھانواز شریف کو بھی اپنی زبان پر قابو نہ تھا انہوں نے لاہور گوالمنڈی کی زبان بولنی شروع کر دی اور وہی گوالمنڈی والے روئیے،یعنی سیاسی گراوٹ کو معمول سمجھ لیا گیا،عمران نے اپنی سیاست کی ابتدا ہی ـاوئے نواز شریف اوئے زرداریـ ۔کے القابات سے کی اے آر وائی کے ننھے منے اینکر وسیم بادامی جو آج کل عمران کے حامی ہیں اس وقت ان کی اس زبان کے بڑے ناقد ہوا کرتے تھے ،اس کے بعد عمران کبھی رکے نہیں انہوں نے بازاری زبان کو سیاست کا حصہ بنا دیا،mimckery بھی کی،انہوں نے اپنے overseas social media keyboard warriorsاور اندرون ملک سوشل میڈیا کو پوری آزادی دی کہ وہ گندی زبان استعمال کر سکتے ہیں پھر تو مغلظات کا وہ طوفان آیا کہ اللہ دے اور بندہ لے،ہم نے نواز شریف اور بے نظیر کے دور میں معاشرے میں تعلیم،صحت، سیاست، اور امن و امان کا Decline دیکھ لیا تھا لہذا ہم نے شروع شروع میں عمران سے امیدیں باندھ لیں تھیں مگر جلد اندازہ ہو گیا کہ عمران کے پاس نہ ٹیم ہے نہ پلان،ہم نے مخالفت کی تو ہم نے بھی سوشل میڈیا پر گالیاں کھائیں،اس وقت ایک کرنل نقوی امریکہ میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرتے تھے،تحریک عدم اعتماد مکمل طور پر آئینی تھی اس پر عمران کا غصہ دیدنی تھا پہلے تو یہی قیاس کیا جا رہا تھا کہ عمران untouchable ہیں عمران گرفتار ہوئے تو شدید رد عمل آیا نو مئی ہو گیا،نو مئی کے بعد فوج کا موڈ بدل گیا اور اس نے chip by chip عمران کو توڑنا شروع کردیا،عمران خود بھی اپنے آپ لو untouchable سمجھتے رہے ہمارا بھی خیال تھا کہ کوئی عالمی طاقت ان کی پشت پر ہے مگر جلد معلوم ہوگیا کہ فوج میں ان کے ہم نوا کچھ جنرلز موجود ہیں اور عمران کو امید تھی کہ یہ جنرلز فوج میں بغاوت کرا سکتے ہیں جنرل عاصم منیر کو فوج میں حالات اپنے حق میں کرنے میں تقریباً ایک سال لگ گیا اس کی نشاندہی ایک یو ٹیوبر اسد علی طور نے اپنے ایک وی لاگ میں کی تھی،جنرل عاصم منیر کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی اور عمران کی مشکلات میں اضافہ ہوا ،عمران کی بہنیں اس صورت حال سے فائہ اٹھاتی رہیں اور ایک Momentum بنا رہا،حال ہی میںعمران کی بہن عظمیٰ خان نے بھارتی چینل پر ایک متنازعہ انٹرویو دیادیا اور فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیاعمران سے عظمی خان کی آخری ملاقات میں عظمیٰ خان سے درخواست کی گئی تھی کہ آپ ملاقات کرلیں مگر بعد از ملاقات کوئی پریس کانفرنس اڈیالہ سے باہر نہ کریں اور ملاقات کو سیاسی نہ بنائیں مگر عظمیٰ خان نے یہ وعدہ پورا نہ کیا،عمران خان گو کہ قید میں ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ان کی ناز برداری بہت زیادہ کی گئی اس کی کئی وجوہات ہیں،ایک وجہ تو شائد یہ تھی کہ عمران کے ہم نوا کچھ جنرلز حاضر سروس میں تھے اور فوج میں کسی ممکنہ بغاوت کا خطرہ تھا،دوم یہ امید بھی تھی کہ شائد عمران زمینی حقائق کو سمجھ لیں اور اپنا جارحانہ رویہ ترک کر دیں کچھ تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے تھے کہ حکومت پر عالمی دباؤ ہے اس وجہ سے نرمی برتی جا رہی ہے،ہمارا خیال تھا کہ عمران کو پتہ تھا کہ کہ پختون،پاکستانی طالبان،وہ افغانی جو پاکستان میں بس گئے ہیں،افغانی حکومت ،ٹی ٹی پی اور ممکنہ طور پر داعش خراسان سب کے سب ان کے حامی ہیںاور یہ گروپ ان کو اکیلا نہیں چھوڑینگے اور وقت نے یہ ثابت بھی کردیا،پاکستان میں یہ قوتیں مسلسل دھماکے کرتی رہیں روز چار پانچ جوان مرتے رہے مگر جب یہ تعداد درجنوں میں پہنچ گئی تو فوج کو کاروائی کرنی پڑی۔
اسی دوران عمران کمزور بھی ہوتے چلے گئے یہ ایک فرسٹریشن تھی جو اس ٹوئیٹ میں نکلی جو بیرون ملک عمران کے ٹیوٹر ہینڈل سے ہوئی،جس میں جنرل عاصم منیر کے خلاف گندی زبان استعمال کی گئی تھی اور ان کو ذہنی مریض کہا گیاغالباً فوج اسی لمحے کا انتظار کر رہی تھی اور ردِ عمل سامنے آیا، اب عمران اور پی ٹی آئی کے لئے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں ،سیاست میں بہت گندگی دیکھنے میں آئی مگر اتنی گندگی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی،سیاست دانوں اور فوج سے فاش غلطیاں ہوئیں مگر پھر مصالحت کی راہ نکل آئی دنیا نیوز کے ایک تجزیہ کار نے ایک بار کہا تھا کہ عمران سسٹم کا باپ ہے اور پی ٹی آئی نے بھی عمران کو سسٹم کا باپ کہنا شروع کر دیاعمران جو Hallucinationکا شکار تھے ان کو بھی یہی لگا کہ وہ سسٹم کے باپ ہیں اور فوج ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ایسے اندازوں میں کہیں نہ کہیں شدید غلطی چھپی ہوتی ہے فوج ملک کی ایک طاقت ہے جس کا سیاست میں عمل دخل بھی ہے ملک کی معیشت میں بھی عاصم منیر کی کوششوں کا دخل ہے کوئی معاشی قدم ان کی حمائیت کے بغیر نہیں اٹھایا جاتا سارے معاشی معاہدوں میں ان کی ضمانت ہی طلب کی جاتی ہے ،مجھے نہیں معلوم کہ عمران کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی جب اس نے تنِ تنہا فوج کو للکارنے کا فیصلہ کر لیا،یہ صائم فیصلہ تھا ہی نہیں کئی مواقع تھے جب درمیان کا راستہ نکالا جا سکتا تھا اور سسٹم میں واپس آکر سیاسی کردار ادا کیا جا سکتا تھامگر عمران نے یہ مواقع ضائع کر دیا ۔ان کو موقع دیا گیا کہ وہ نو مئی پر معافی مانگیں اور آگے چلیں،نتائج کچھ بھی ہوں مگر لگتا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ عمران کو نتایج بھگتنے ہونگے ایم کیو ایم نے ریاست مخالف رویہ اپنایا ریاست کو یرغمال بنا لیا طاقت کا یہ ماڈل اتنا دلفریب تھا کہ پی ٹی آئی اور لبیک کو یہ ماڈل بہت پسند آیا اب دونوں ہی نتائج کا سامنا کریں گی ۔



