تم ہو کون؟ ہم بتاتے ہیں تمہیں !

ہمارے جاگیردارانہ معاشرہ میں بیوروکریسی میں بھی اور فوج میں بھی عہدوں کے نام ایسے ہوتے ہیں جس سے ایک عام آدمی رعب میں آجائے!
جاگیرداری کلچرمیں، جسے یہ حقیر "چوہدری کلچر” کہتا ہے، مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ایک عام آدمی، جسے جاگیرداری کی زبان میں”کمی” کہا جاتا ہے، جس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ چوہدری آسمانی مخلوق لگے اور عام آدمی اس کے مقابلہ میں ہمیشہ اپنے آپ کو کمتر گردانے، اپنے میں کوئی کمی محسوس کرے !
تو چھہ (6) دسمبر جب پوری قوم کو ، خصوصا” اس نام نہاد اشرافیہ کو جو یزیدی عسکری ٹولہ کی عنایت سے (ہندی کا لفظ عنایت کیلئے بہت اچھا ہے "کرپا”) مسندِ اقتدار پہ کھل کھیل رہا ہے اور بازیگروں کےاشارے پر ہر وہ کام کر رہا ہے جو اس کے اور بازیگروں کے مفاد میں ہے، چوبیس کڑوڑ پاکستانی عوام کا مفاد جائے، ان کی بلا سے، بھاڑ چولہے میں، اسے بابری مسجد کے اسی سیاہ دن کے آج سے 33 برس پہلے کے انہدام کی برسی منانی چاہئے تھی!
لیکن اس یزیدی ٹولہ نے جو پاکستان کو اپنا مقبوضہ بنایا ہوا ہے اس سیاہ دن کا انتخاب اپنے ایک اور سیاہ کرتوت میں اضافہ کیلئے کیا!اس دن افواجِ پاکستان کا وہ بد نہاد نقیب، نام کا احمد شریف ( ایک تو ان شریفوں نے "شریف” نام کو پاکستان میں ایسا بدنام کیا ہے کہ اب ہر کوئی شریف نام پہ شک کرنے لگا ہے ) جس کا سرکاری ٹائٹل، یا عہدہ، افواجِ پاکستان کے شعبہء تعلقاتِ عامہ کے ڈائرکٹر جنرل کا ہے (ہے نا ایسا ٹائٹل کہ ایک عام آدمی سن کر ہی رعب میں آجائے)، اس نے پاکستان کے مقبوضہ نہوز میڈیا کے بڑے بڑے ناموں کو اپنا بھاشن سننے کیلئے جمع کیا۔ اور بھاشن کا موضوع اور کیا ہوسکتاتھا سوائےعمران خان کی کردار کشی کے !
ہم احمد شریف کو جب بھی دیکھتے ہیں ہمیں بے اختیار اللہ بخشے اپنی اماں یاد آجاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس بدزبان، بدکلام اور بد نہاد کی کوئی ایک صفت بھی میری فرشتہ اماں سے ملتی جلتی ہے بلکہ اسلئے کہ اماں ایک مقولہ اکثر احمد شریف جیسے لوگوں کو دیکھ کر دہرایا کرتی تھیں۔ کہتی تھیں، بیٹا اللہ غلام بنائے لیکن غلام صورت نہ بنائے! اور پھر یہ کہکر توبہ کرتی تھیں کہ شکل صورت اللہ کی بنائی ہوئی ہوتی ہے لیکن انسان کے کرتوت اس کے چہرے کے خد و خال میں نظر آجاتے ہیں!احمد شریف نے اپنے ڈیڑھ گھنٹے کے بھاشن میں، جس کا تمام تر ہدف عمران کی ذات تھی، یہ توثابت کردیا کہ اس شخص میں، جس کو دیکھ کر ہمیشہ یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ شخص دائمی قبض کا مریض ہے اور اس کے پیٹ میں ہر وقت مڑوڑ اٹھتی رہتی ہے، اس کا تو بھرپور ثبوت دے دیا کہاس بدنہاد میں تہذیب اور شائستگی نام کی کسی شئے کی تو رمق بھی نہیں ہے لیکن جس انداز میں اس نے عمران کوہر طرح سے مطعون کرنے کی ناکام کوشش کی اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اس میں تعلیم کی بھی شدید کمی ہے!تعلیم تو پاکستان بھر کو علم ہے کہ ہمارے ان فوجی افسروں میں برائے نام ہی ہوتی ہے جو اپنے بدن پہ وردی پہننے لینے کے بعد اپنے آپ کو خدائی مخلوق سمجھنے لگتے ہیں اسلئے کہ فوج میں افسری کا کمیشن تو ہارہویں جماعت پڑھنے کے بعد ہی مل جاتا ہے لیکن جس انداز اور اطوار سے احمد شریف نے عمران کی کردار کشی کی اس سے تو لگ رہا تھا کہ محلہ کی کوئی لڑاکا عورت اپنی پڑوسن کے خلاف دل کا غبار نکال رہی تھی!
میرے مولا علی کا قولِ صادق ہے کہ الفاظ وہ درندے ہیں جنہیں کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھاتے ہیں!اور مولا نے یہ بھی فرمایا تھا کہ عقلمند کی زبان اس کے دل کے تحت ہوتی ہے لیکن احمق کا دل اس کی زبان کےنیچے ہوتا ہے !تو جنہیں مولا علی کے ان اقوال کی تفسیر دیکھنی ہو تو وہ ڈیڑھ گھنٹے کا وہ بھاشن سن لے جو اس بد نہاد احمد شریف نے اپنے تابع فرمان صحافیوں کو سنایا، جن میں زیادہ تر وہ تھے جنہیں پاکستانی قوم "لفافہ” صحافی کہتی اور اسی حیثیت سے جانتی ہے !
بد کلام احمد شریف نے عمران خان سے سوال کیا کہ "تم ہو کون” اور خود کو کیا سمجھتے ہو؟
لیکن اس سوال کا جواب تو عمران دینے سے رہا اور اس نے دیا بھی تو جس طرح کی فسطائیت کی زنجیروں میں پاکستانی عوام کے دلوں کے محبوب کو اس یزیدی ٹولہ نے پابندِ سلاسل رکھا ہوا ہے اس کے بعد یقین ہے کہ عمران کے جواب کو نمک مرچ لگا کے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے گا!
ہم اس کا مدلل جواب اس بدنہاد اور بدکلام کو دینگے لیکن اس سے پہلے اس کے عمران کے کردار پر اس رکیک حملہ کی بات ہوجائے تو بہتر ہے جسے اس فحش زبان نے عمران کو "ذہنی مریض” کہہ دیا !
یہ بدنہاد خود کتنا بڑا ذہنی مریض ہے اس کا اندازہ تو اس کے کریہہ چہرے کو دیکھ کر ہی ہوجاتا ہے لیکن اس کے خمیر میں بھی ذہنی مرض اسے ورثے میں ملا ہے اس کا بھید تو پاکستان کے معروف استاد اور سائنسداں، پرویز ھود بھائی نے کھولا۔
اس بد نہاد کے والدِ بزرگوار، جن کا نام عمر بشیر بتایا جاتا ہے پاکستان کے ایٹمی توانائی کے ادارہ میں کام کرتے تھے جہاں موصوف کا وہ کارنامہ ھود بھائی نے بتایا جس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس بدکلام کی رگوں میں کونسا خون بہہ رہا ہے۔ والد بزرگوار نے یہ تجویز دی تھی کہ ہم انسان تو مٹی سے بنے ہیں لیکن جن تو آگ سے بنے ہیں لہٰذا جنوں کو قبضے میں کرکےان سے توانائی حاصل کی جاسکتی ہے اور پاکستان کا بجلی کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے!
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ باپ کا گناہ بیٹے کے سر نہیں تھوپا جاسکتا لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ
پتا پر پوت نسل پر گھوڑا
بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا!
چلئے اس کے خون اور خمیر کا تذکرہ جانے دیتے ہیں اوراب آجاتے ہیں اس بھونڈے سوال پر جواس کم اوقات نے عمران کا نام لئے بغیر کیا تھا کہ تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو !
تو اس کا جواب یہ ہے کہ عمران اپنے کو کیا سمجھتا ہے یہ اہم نہیں ہے یہ اہم ہے کہ پاکستان کے عوام اور خواص کی بھاری اکثریت اور اس کےساتھ ساتھ باہر کی دنیا عمران کو کیا سمجھتی ہے!
عمران، احمد شریف اور اس کے یزیدی ٹولہ کے حواری سن لیں، وہ ہیرو ہے جو اپنے مداحوں کی آنکھوں کا تاراہے!
عمران اصابتِ کردار کی اس منزلت پر فائز ہے جہاں ان یزیدیوں کی پہنچ کی بھی پرواز نہیں ہے !
عمران خدا کی ذات اور اس مالکِ ارض و سماء کی مدد پر ایسا بھروسہ رکھتا ہے جس کا عشرِ عشیر بھی اس نام کے احمد شریف یا اس کے نام نہاد حافظ سرپرست کو نصیب نہیں ہوا اور نہ کبھی ملے گا !عمران کو اس یزیدی ٹولہ نے ہر طرح سے توڑنا چاہا لیکن اس کا عزم اور خدا کی ذات پر یقین ہمالہ کی بلندی سے اونچا ہے لہٰذا اس نے ٹوٹنے سے انکار کردیا۔ ان یزیدیوں کے تجربہ میںتو نواز شریف اور زرداری جیسے اٹھائی گیرے اور نوسرباز تھے جو سودے بازی کرکے ان کی گرفت اور ان کے چنگل سے ہر بار نکل جاتےتھے لیکن عمران نے ان کے ساتھ کوئی سودا یا سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا کیونکہ وہ ان ملت فروش یزیدیوں کے کرتوت جانتا ہے۔ یہ ملت فروش سامراج اور اس کےخلیجی گماشتوں کے غلام ہیں۔ گویا غلاموں کےغلام ہیں۔
عمران بندہءآزاد ہے جو مفکر ِ پاکستان حکیم الامت علامہ اقبال کے اس شعر کی جیتی جاگتی تصویر اور تفسیر ہے:
؎اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی!
اور عمران اس شعر کا بھی چلتاپھرتا اور جیتا جاگتا مفہوم ہے
تندیء بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھےاونچا اڑانے کیلئے!
تو عمران جو مردِ مجاہد ہے اور اپنی قوم کے حقوق ان غاصبوں ، ملت فروشوں، آئین توڑنے والے نوسربازوں اور غداروں کے سامنے نہ تو جھکے گا، نہ ان سے کوئی سمجھوتہ کرے گا نہ ہی کوئی ایسا کام کرے گا جس سے پاکستان کی بدنامی ہو!
پاکستان کو جگ ہنسائی کا ہدف بنانے والے تو یہ یزیدی ہیں جو اپنے مفادات اور اثاثوں کو دوام بخشنے کیلئے بار بار پاکستان کے آئین کی دھجیاں بکھیرتے رہے ہیں اور اب بھی اسی روش پر گامزن ہیں جس سے دنیا یہ کہنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ دنیا میں ہر ملک کیا،ایک فوج ہوتی ہے لیکن پاکستان میں فوج کیلئے پورا ملک ہے !
پاکستان کی رسوائی کا باعث تو احمد شریف جیسے بھانڈ ہیں جن کی زبان اور لہجہ کو سن کے آخری تاجدارِ مغلیہ، بہادر شاہ ظفر کا یہ لافانی شعر یاد آجاتا ہے
ظفر آدمی اس کو نہ جانئے گا ،ہو وہ چاہے صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا !
کیا کچھ نہ کہا اس بھانڈ احمد شریف نے اپنے ڈیڑھ گھنٹے کے ہذیانی بیان میں عمران کے خلاف؟
منہ سے جھاگ نکل رہا ہے اس لعین کے عمران کی کردار کشی کرتے ہوئے۔ اور باتوں کے علاوہ اس نے عمران کو ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ بھی قرار دے دیا !
سلامتی کا خطرہ تو یہ وردی پوش نوسرباز بابائے قوم کی ہمشیرہ، مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھی قرار دے چکے ہیں۔
وہ تو بابائے قوم اس الزام سے نہ جانے کیسے بچ گئے اور شہید ملت لیاقت علی خان کا کانٹاتو ان ملت فروشوں نے سازش کے تحت نکال ہی دیا تھا ورنہ وہ بھی ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ قرار پاسکتی تھیں!
ملک کی سلامتی کو خطرہ نہیں ہوتا ان وردی پوش ملت فروشوں کے مفادات پر جب آنچ آنے لگے تو یہ پاکستان کی سلامتی کو خطرہ کا نعرہ لگادیتے ہیں۔
اپنے اپنے دور میں ذوالفقار علی بھٹو، ان کی نامور دختر بینظیر بھٹو، محسنِ پاکستان ڈاکٹر قدیر اور ہر وہ قومی ہیرو جو پاکستان کے مفاد کو اپنی ذات پہ ترجیح دے اور آئین ، قانون اور دستور کی بات کرے ان ملت فروشوںکیلئے خطرہ بن جاتا ہےاور یہ اسے غدارِ ملک و قوم قرار دیکے پابندِ سلاسل کرتے ہیں اور پھانسی کے تختہ پر بھی گھسیٹ لیتے ہیں!
ملک کے سب سے بڑے غدار یہ ملت فروش ہیں جو اب سامراجی ایجنڈا کو پورا کرنے کیلئے عمران کی قربانی اسے پیش کرنا چاہ رہے ہیں تاکہ ان کی تجوریاں لوٹے ہوئے مال و منال سے بھری رہیں!
اس یزیدی ٹولہ کی ہمنوائی میں اس کی سیاسی کٹھ پتلیوں نے بیان بازی شروع کرنے میںپل بھر کی دیر بھی نہیں لگائی!
سیاست کے بھانڈ، جو اپنےوردی پوش آقاؤں کی سنگت پر تالیاں پیٹ رہے ہیں ملک کے جانے پہچانے شعبدہ باز ہیں، خواجہ آصف، احسن اقبال، عطا تارڑ اور سب سے بڑھکر وہ رذیل فیصل واوڈا جو کلبِ جرنیل ہونے کا کلنک اپنے ماتھے پر لئے فخر سے مقبوضہ ٹیلی وژن چینلز پر آجاتا ہے، اپنا حقِ نمک ادا کرنے کیلئے اور واہی تباہی بکتا رہتا ہے۔ یہ اوربلاؤ سے ملتا جلتا فیصل واوڈا (نام ہی ایسا ہے جسے لینے میں تھوک سے حلق بھرجائے) اصل گماشتہ ہے اس سیاسی قبیلے کا جس نے پاکستان کے عوام کو مجبور کردیا ہے کہ وہ سیاست کےگھناؤنے کھیل سے دور ہی رہیں!
لیکن عوام کی سیاست سے یہ بیزاری ان یزیدی جرنیلوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ سیاست کرنے کا اپنا پسندیدہ کاروبار جاری رکھیں !
یہ وہ فوج ہے جس نے آج تک دشمن کی ایک انچ زمین بھی فتح نہیں کی اور یہ المیہ یوں ہے کہ اس کی عسکری قیادت کی تمام تر توجہ اور دلچسپی تو ملک کی سیاست میں مستقل دخیل رہنے میں ہے ! یہ فوج نہیں رہی بلکہ ایک مافیا بن چکی ہے جو دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہی ہے اور ہر اس سیاسی رہنما، عمران خان جیسے، کو گرانا اور ختم کرنا چاہتی ہے جسے عوام کی قبولیت اور تائید حاصل ہو !
عمران اپنی قوم سے، اپنے عوام سے یہ گلہ کرنے میں حق بجانب ہوگا کہ ان کی بے حسی ان عسکری نوسربازوں اور ان کے سیاسی گماشتوں کے حوصلے بڑھاتی ہے !
احمد شریف جیسے عسکری بھانڈ کے ناچ کے بعد تو کسی ذی ہوش پاکستانی کو کوئی شک و شبہ نہیں رہناچاہئے کہ یہ ملت فروش ٹولہ اور پاکستان اب مزید ایک ساتھ نہیں چل سکتے !
اگر ان کا گندا اور پاکستان دشمن کھیل یونہی جاری رہا اور عوام نے اپنے سروں سے کفن باندھ کر ان ظالموں کا حساب ویسے چکتا نہ کیا جیسے پچھلے برس بنگلہ دیش کے حریت پسند نوجونوں نے اپنی ظالم حکومت کو چلتا کیا تھا تو پھر، میرے منہ میں خاک، پاکستان کاوجود خطرے میں پڑجائے گا !
آخری فیصلہ پاکستان کے عوام کو کرنا ہے: وہ ایک زندہ اور حریت پرست قوم کی حیثیت میں دنیا میں فخر سے سر اٹھا کر جینا چاہتے ہیں یا ان وردی پوش دشمنانِ ملک و ملت کے غلام بن کر سسک سسک کر مرنا چاہتے ہیں؟
یزید عاصم منیر نے 27ویں آئینی ترمیم کرکے اور اپنے آپ کو تا حیات ہر احتساب سے استثنیٰ دلوا کے یہ سمجھ لیا کہ اب اس کے فرعونی اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ہے !
اس یزید کو یہ یاد دلانے کی ذمہ داری اب صرف اور صرف پاکستانی عوام کی ہے کہ عوام کی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے!
زبانِ خلق کو نقارہء خدا اسی لئے کہا جاتا ہے!
عمران خان کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی، اور پاکستان سے محبت کرنے والے ہر پاکستانی کی ، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں رہ رہا ہو، یہی دعا ہے کہ پاکستانی عوام کی آنکھیں کھل جائیں اس سے پہلے کہ یہ عسکری یزیدی ٹولہ ملک و قوم کا سودا کرلے !
ان کا کوئی بھروسہ نہیں۔ یہی تو وہ مجرم ہیں جنہوں نے مشرقی پاکستان کو ملک سے علیحدہ ہونے پر مجبور کیا تھا اور بابائے قوم کے پاکستان کو دو لخت کیا تھا، ان کا گھناؤنا کھیل آج بھی اسی شد و مد سے جاری ہے۔ بھانڈ احمد شریف کا ناچ اس کا بھرپور مظاہرہ نہیں تو اور کیا تھا ؟!
تو ہمارے یہ چار مصرعے پڑھئیے اور ہمیں اگلے ہفتے تک کیلئے اجازت دیجئے :
ذہنی مریض اصل میں عاصم منیر ہے
اک تنگ ظرف، حاسد و بزدل فریب کار
اعمال سے لعین یزیدی صفات ہے
ملت فروش اپنی ہوس کا جسے خمار !



