سہیل آفریدی کتا، عاصم منیر ذہنی مریض، پاکستانی میڈیا میں نیو نارمل

کہتے ہیں کہ وقت کیساتھ ساتھ اقدار زبان بھی تبدیل ہوتی جاتی ہے اور وہ الفاظ، جملے، ویڈیو امیج اور تصاویر جو ماضی میں بہت معیوب سمجھے جاتے تھے وہ وقت کے ساتھ نیو فام ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ یا شخص بسکٹ یا کوکیزکو چائے یا دودھ میں ڈبو کر کھاتا تھا تو امی کی گھورتی ہوئی آنکھیں منع کرتی تھیں پھر گھر آ کر بچے کو تنبیہ کی جاتی تھی کہ چائے یا دودھ میں بسکٹ ڈبو کر جاہل لوگ کھاتے ہیں پھر آج کے دور میں اشتہار میں ایک بچی اپنے ابو کو سکھاتی ہوئی نظر آتی ہے کہ کس طرح سے بسکٹ دودھ میں بھگو کر کھائے جاتے ہیں۔ اسی طرح سے ماضی میں خواتین کی براکی صرف جلدی سے اشتہار میں تصویر دکھائی جاتی تھی۔ آج کے اشتہار میں پاکستان کے ٹی وی چینلز پر خواتین مختلف سائز کی برا پہنے ہوئے نمائش کرتی نظر آتی ہیں، اسی طرح سے پہلے اگر کسی گھر میں ڈاکو دروازہ توڑ کر گھس آتے تھے تو وہ بہت بڑا واقعہ تصور کیا جاتا تھا اور سارا محلہ اکٹھا ہو کر ڈاکوئوں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیتا تھا مگر پھر حالات تبدیل ہوئے اور پچھلے خصوصاً تین سالوں میں نامعلوم افراد ویگو ڈالوں میں گھر پر حملے کر دیتے ہیں اگر گیٹ نہ کھول سکیں تو وہ اپنے ساتھ سیڑھی لے کر آتے ہیں اور چھلانگ مار کر گھر میں گھس جاتے ہیں، گھر والوں کو زدوکوب کرتے ہیں، توڑ پھوڑ کرتے ہیں، سیدھی گولیاں چلاتے ہیں اور اگر مطلوبہ شخص مل جائے تو اغواء کر کے، فائرنگ کرتے ہوئے نامعلوم افراد اس شخص کو نامعلوم مقام پر لے جاتے ہیں اور تو اور جنرل عاصم منیر کے یہ پالتو غنڈے بھری دوپہر میں چلتی گاڑی کو چاروں طرف سے ویگوڈالوں سے گھیر کر گن پوائنٹ پر گاڑی میں سوار شخص یا اشخاص کو اغواء کر کے لے جاتے ہیں۔ دہشت اتنی پھیلی ہوئی ہے نہ محلے میں کسی کی ہمت ہوتی ہے کہ وہ مزاحمت کر سکے اور چلتی ہوئی ٹریفک میں سے کسی ڈرائیور کی ہمت ہوتی ہے کہ وہ ویگوڈالے والوں سے کوئی سوال بھی کر سکے کہ یہ ڈھاٹے باندھے ہوئے افراد اس شخص کو دن دھاڑے کیوں اغواء کر کے لے جا رہے ہیں کیونکہ سب کو اپنی جان عزیز ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک بے نامی سینٹر اور غلیظ ترین شخص فیصل واوڈا ٹی وی نیٹ ورک پر بیٹھ کر اپنے ایک اور ساتھی سینیٹر خیبرپختونخوا کے خرم ذیشان کو دہشت گرد کی طرح سے مارنے کا اعلان کرتا ہے، پھر اسی رات کو سینیٹر خرم ذیشان کے پشاور میں واقع گھر پر نامعلوم افراد پانچ عدد ویگوڈالوں میں آتے ہیں اور اندھا دھند گھر پر فائرنگ شروع کر دیتے ہیں۔ جواب میں سینیٹر خرم ذیشان کے گارڈز بھی فائرنگ کرتے ہیں اور اس دو طرفہ فائرنگ میں گھر کا ایک پندرہ سالہ ملازم شدید زخمی ہو کر ہسپتال پہنچایاجاتا ہے، خدا کاشکر ہے کہ سینیٹر خرم ذیشان اور ان کی فیملی اس رات گھر پر موجود نہیں تھے تو اب پاکستان میں روزانہ کئی کئی مرتبہ نامعلوم افراد کا گھروں پر حملہ کرنا، گولیاں برساناایک نیونارمل بن گیا ہے، مگر سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں تو پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ہے اور خرم ذیشان بھی پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر وہ پانچ ویگو ڈالوں میں سوار پچیس اغواء کار کہاں سے آئے تھے کیونکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ نامعلوم افراد جنرل عاصم منیر کے تابع ہوتے ہیں تو پھر ان افراد پر FIR کیوں نہ کرائی گئی، پولیس نے گرفتار کیوں نہیں کیا؟ کیا صوبے میں سہیل آفریدی کی حکومت اتنی بے بس ہے کہ ان غنڈوں کو گرفتار بھی نہیں کر سکتی؟ اس سے اندازہ لگالیں کے پاکستان بھر میں وہ لوگ جن کا نہ حکومت سے تعلق ہے نہ کسی پارٹی سے تو ان کا یہ لوگ کیا حشر کرتے ہوں گے۔اس جرنیل کی حکومت میں ایک نیانارمل یہ بن گیا ہے کہ خواتین کو سڑکوں پر بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا جاتا ہے اور ویگو ڈالوں میں ڈال کر رات کے اندھیروں میں کہیں سناٹے میں جا کر پھینک دیا جاتا ہے۔ تازہ مثال اس ہفتے اڈیالہ جیل کے باہر سابق وزیراعظم اور ملک کے مقبول ترین لیڈر عمران خان کی تین بہنوں علیمہ خان، ڈاکٹر عظمیٰ خان اور نورین نیازی کو بتیاں بجھا کر حملہ کیا جاتا ہے اور واٹر کینن سے ان پر اس قدر تیز ستر سال سے زیادہ عمر رسیدہ خواتین پانی کے دبائو سے سڑک پر رگڑتی اور گھسیٹی ہوئے آگے کے طرف چلی جارہی ہیں، عمران خان کی تینوں بہنیں ایک نالے کے نزدیک گھسٹتی ہوئی نالے میں گرنے ہی والی تھیں کہ PTIکے رہنما شاہد خٹک نے سنبھالا دیا ار اس کے نتیجے میں شاہد خٹک کی ٹانگ ٹوٹ گئی جو اس وقت ہسپتال میں ہیں جہاں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے ان کی عیادت کی، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ساری فسطائیت انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر دکھائی گئی، چلیں ایسے نہیں تو ویسے، پاکستان کے مارشل لاء ڈکٹیٹر جنرل عاصم منیر نے اپنا حصہ تو ڈال دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ
ہم پر الزام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی
نام بدنام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی



