ہفتہ وار کالمز

تزویراتی صبر

سر ہنری مورتمر ڈیورنڈ چودہ فروری 1850 کو بھوپال میں پیدا ہوے۔ وہ ایک برطانوی ڈپلومیٹ ہونے کے علاوہ انڈین سول سروس کے ممبر بھی تھے۔ ہندوستان اور اسکے ہمسایوں کی تاریخ سے آگاہی کے سبب انہیں افغانستان کے ساتھ برطانوی سلطنت کے سرحدی تنازعے کو حل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ امارت افغانستان کے امیرعبدلرحمٰن خان کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد Mortimer Durand نے بارہ نومبر 1893 کوایک معاہدے پر دستخط کئے۔ یہ معاہدہ اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے باوجود صرف ایک صفحے پر لکھا ہوا ہے۔ اسکی ایک اہم شرط یہ ہے کہ برطانوی سرکار افغانستان کی 1.1ملین روپے کی سالانہ سبسڈی یا مالی امداد کو بڑحا کر 1.8 ملین کر دے گی۔اس معاہدے نے اس سوال کو جنم دیا ہے کہ افغانستان سے مختلف تنازعات کی وجہ سے دو طویل جنگیں لڑنے والی برطانوی حکومت جو اسوقت ایک عالمی طاقت تھی نے ہر سال کابل کو یہ زر کثیر دینے کی شرط کیوں قبول کی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ برطانوی حکمران جانتے تھے کہ صدیوں سے ہندوستان پر حملے آور رہنے والے افغان جنگجوکسی مالی منفعت کے بغیر امن قائم کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس تقاضے کی وجہ یہ حقیقت تھی کہ افغانستان کے معاشی حالات ہمیشہ سے دگر گوں تھے۔ ایک لینڈ لاکڈ ملک ہونے کی وجہ سے افغانستان کے ہر حکمران کو ہندوستان کی دولت اور وسائل پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ اسی دائمی غربت کی وجہ سے دسویں صدی میں غزنوی اور اسکے بعد غوری‘ تیمور ‘ مغل اور درانی حکمران ہندوستان پرحملے کر کے لوٹ مار کرتے رہے۔
برطانوی حکمران یہ بھی جانتے تھے کہ دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلوں‘ کوہ ہندو کش‘ قراقرم اورکوہ ہمالیہ ‘ کے دامن میں واقع افغانستان کی بے آ ب و گیاہ سرزمین کے ایک بڑے حصے پرفصل کاشت نہیں کی جا سکتی۔ یہ علاقہ پھلوں اور خشک میوہ جات کی دولت سے مالا مال ہے مگر ان بر آمدات کی آمدنی نہایت قلیل ہے۔ صدیوں تک حالت جنگ میں رہنے کی وجہ سے افغانستان کی معیشت پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ہے۔ Global Poverty Index برائے 2023 کے مطابق اٖفغانستان میں 64.9 فیصدلوگ شدید غربت کے عالم میں زندگی گذارتے ہیں۔ (پاکستان میں غربت کی شرح 39.4 فیصد ہے۔)ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کی لگ بھگ 49.5 ملین آبادی میںسے 85 فیصد لوگ ایک ڈالر یومیہ سے کم پرگذارہ کرتے ہیں۔ گذشتہ نصف صدی میں بیرونی حملہ آوروں‘ خانہ جنگی‘ مزاحمتی تحریکوں اور عدم استحکام نے افغانستان کو جنوبی سوڈان کے بعد دنیا کا غریب ترین ملک بنا دیا ہے۔
پندرہ اگست 2021کو امریکی افواج کے انخلا کے بعد کابل میں قائم ہونیوالی طالبان کی عبوری حکومت کو آج تک صرف روس نے تسلیم کیا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی پختونخواہ اور بلوچستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں کی وجہ سے طالبان حکومت کے پاکستان کیساتھ تعلقات نہایت مخدوش ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب‘ ترکیہ‘ قطر اور چین کی سفارتی کوششوں کے باوجود دونوں ممالک کئی ماہ سے حالت جنگ میں ہیں۔ پاکستان یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ طالبان حکومت اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کوٹھکانے نہیں بنانے دے گی۔ اس مطالبے کی اصابت سے طالبان حکومت اس لیے انکار نہیں کر سکتی کہ وہ 2021 کے دوحہ معاہدے میں اس بات کی ضمانت دے چکی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گی۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اپنے اس مطالبے کو منوانے کے لیے کس حد تک جانا چاہیئے۔ اسلام آباد میں افغان پالیسی کے کئی ماہرین اس رائے کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان کو کابل کیساتھ اپنے تعلقات کوتلخی اور تصادم سے بچانا چاہیئے۔ اکتوبر کے مہینے میں اسلام آ ّباد میں دونوں ممالک کے تعلقات پر ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوے ریٹائرڈ جنرل احسان الحق جو آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جینس کے سربراہ رہنے کے علاوہ طویل عرصے تک افغان سیل کے انچارج بھی رہے ہیں نے کہا کہ 2002 میں جنرل پرویز مشرف نے واشنگٹن میں صدر جارج بش سے ایک ملاقات میں کہا کہThere is no military solution in Afghanistan. جنرل(ر) احسان الحق نے کہا کہ بیس برس تک ہم امریکہ کو افغان طالبان کیساتھ جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیتے رہے اور اب ہم خود کابل ‘ خوست اور پکتیکا پر فضائی حملے کر رہے ہیں۔ جنرل صاحب کی فکر انگیز گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان کو افغانستان کیساتھ Strategic Patience یعنی تزویراتی صبر کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیئے۔
نظر یہی آ رہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تصادم کی اس کیفیت سے بھارت خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اکتوبر کے مہینے اور وزیر تجارت نورالدین عزیزی نے نومبر میں بھارت کا دورہ کیا۔ دونوںمہمانوں کا دہلی میں غیر معمولی طور پرپُر تپاک استقبال کیا گیا۔ امیر خان متقی نے ایک موقع پر کہا کہ ’’ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے اور اس حوالے سے افغانستان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘‘ یہ بات ایک دنیا جانتی ہے کہ ڈیورنڈ لائن بین الاقوامی طور پر ایک تسلیم شدہ سرحد ہے۔ حکومت برطانیہ کئی مرتبہ اس تنازعے میں مورتمر ڈیورنڈکے کئے ہوے معاہدے کو حرفِ آخر قرار دے چکی ہے۔ افغانستان اگر اسے متنازعہ سمجھتا ہے تو وہ تاریخی طور پر اس تنازعے سے فائدہ اٹھاتا رہا ہے۔ افغان حکمران پہلے بھی اس جھگڑے کا تصفیہ بات چیت کے ذریعے طے کرچکے ہیں اور اب بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ ایک بڑے تصادم سے بچنے کے لیے پاکستان کو ’’ تزویراتی صبر ‘‘ کی پالیسی پر عمل کرنا ہو گا۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button