ہفتہ وار کالمز

پاکستا ن !کرپشن میں بھی سب سے آگے۔۔۔

حال ہی میں دو اہم بین الاقوامی اداروں سے رپورٹیں شا ئع ہوئی ہیں۔ پہلی پاکستان کے بارے میں ہے اور دوسری تمام دنیا کے بچوں پر ہے۔اس میں پاکستان کے بچوں پر کوئی خاص تبصرہ نہیں ہے، اور کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں جو اکثر ایسی رپورٹوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس لیے اس پر تھوڑا ساتبصرہ آخر میں کریں گے اور پہلے آئی ایم ایف کی رپورٹ سے کچھ اہم نکات پیش کریں گے۔
یہ تو سب پاکستانی جانتے ہیں کہ پاکستان میں کرپشن اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔لیکن ہمیں کچھ یہ بھی خیال تھا کہ باہر کے لوگوں کو اس کا کیا پتہ ہو گا؟ گاہے بگاہے جب دنیا میں کرپشن پر کوئی رپورٹ آتی ہے تو پاکستان ایسی فہرست میں نیچے سے چوتھے یا پانچویں نمبر پر ہوتا ہے، یعنی بہت کرپٹ۔ لیکن اب تو دنیا کے سب سے معتبر مالی ادارے، آئی ایم ایف نے پاکستان پر اپنی تفصیلی رپورٹ شائع کر دی ہے۔ یہ در اصل تین ماہ پہلے پاکستان کو دی گئی تھی لیکن حکومت اس کو اپنی سیٹ کے نیچے رکھ کر بیٹھی ہوئی تھی۔اب آخر تنگ آ کر آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا کہ رپورٹ کو عام کیا جائے تا کہ پاکستانیوں کو پتہ چلے کہ ان کے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟
تو دوستوں، یہ پاکستان میں حکمرانی اور کرپشن کی تفتیش اور اس کی تشخیص پر ہے اور نومبر 2025ء میں شائع کی گئی۔ اس کے مصنفین میں آئی ایم ایف کے شعبۂ قانون اور تین دیگر محکمے شامل ہیں۔اس کے ابتدائیہ میں بتایا گیا ہے کہ یہ رپورٹ حکومت پاکستان کی درخواست پر اور تعاون سے جنوری 2025ء میں شروع کی گئی۔اس میں عالمی بینک کے نمائندے بھی شامل تھے۔اس تحقیق کے پس منظر میں، 37 ماہ اور7ارب ڈالر کا قرضہ تھا جو پاکستان کے لیے ستمبر 2024ء میں منظور کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق اگرچہ پاکستان نے خاطر خواہ ترقی کی ہے اور اپنی مالی حالت کو بہتر بنایا ہے، پاکستان کی اقتصادی ترقی کی راہ میں ابھی بڑی رکاوٹیں ہیں۔آئی ایم ایف اور پاکستا ن، دونوں اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان کو بہت ضروری اصلاحات کرنے کی اشدضرورت ہے۔ماضی میں یہ معاملات تسلی بخش نہیں رہے۔پاکستان اپنے مشرقی ہمسایہ ملکوں کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ انسانی سرمایہ اور مادی سرمایہ پر کم سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ابھی تک کا تاثر یہ ہے کہ پاکستان میںکرپشن پر قابو نہیں پایا گیا۔ جس کی وجہ سے قومی خزانہ سے جن منصوبوں پر رقمیں لگائی گئیں وہ غیر موثر تھیں، مالیہ نہیں اکٹھا ہوا، اور عدلیہ پر اعتماد نہیں بحال ہوا۔ کرپشن حکومت کے ہر شعبہ میں دیکھی گئی، سب سے زیادہ ایسے اداروں میں جو معاشی شعبہ میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں، بشمول ان کے جو سرکارخود چلاتی ہے۔ان معاملات کو اس نظر سے دیکھا جائے کہ کرپشن کے خلاف اقدامات محض دکھاوے کے ہیں، عوام میں ان پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔
پاکستا ن جب معرض وجود میں آیا تو اس کے بانی محمد علی جناح نے 1947ء میں کہا کہ کرپشن کی بیخ کنی کرنی چاہیے۔ اور ستر سال کے بعد کرپشن پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی کی راہ میں سنگ گراں ہے۔یہ قومی خزانہ کے اثاثوں کو غلط کاموں پر لگاتی ہے اورمارکیٹس کو تباہ کرتی ہے، جائز مسابقت کو روکتی ہے ، عوامی بھروسہ کو خراب کرتی ہے، اور بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری کو روکتی ہے۔
دنیا کے مانے ہوئے جائزوں میں، اور عوامی رائے کے جائزوں میں کرپشن کو ایک اہم موضوع جانا گیا ہے۔ اور پاکستان کو ان ممالک میں گردانا گیا ہے جہاںکرپشن پورے عروج پر ہے۔2017 کے جائزے میں پاکستان کے بارے میں بیرونی سرمایہ کاروں نے کرپشن کو ایک منفی عنصر قرار دیا تھا۔ عالمی انصاف کے منصوبے میں،پاکستان میں کرپشن پاکستان کے عدالتی نظام میں کمزور ترین پہلو تھا۔ ایک چارٹ کی مدد سے دکھایا گیا ہے کہ انڈیا، بنگلہ دیش، ملیشیا اور مصر کے مقابلے میں، پاکستان میں کرپشن 2009سے 2024تک متواتر سب سے زیادہ رہی ہے۔
عالمی بینک کے ایک جائزے کے مطابق،11فیصد سے اوپر کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ نہ لگانے کی بڑی وجہ کرپشن بتائی، یہ تناسب جنوبی ایشیا میں 7.4 فیصد تھا۔ شرح نمو اور بیرونی سرمایہ کاری میں کمی کی بڑی وجہ کرپشن ہے۔ کرپشن اور شرح نمو میں کمی ، بیرونی سرمایہ کاری میں کمی، اور سست ترقی سب کرپشن کا شاخسانہ ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ کرپشن کے نظریاتی انڈکس میں اگر ایک فیصد بھی بہتری ہو تو ملک کی معاشی ترقی میں چار فیصد بہتری ہوتی ہے۔
پاکستان کا ٹیکس اور شرح نمو کا تناسب کم ہے اور مزید گر رہا ہے، یہ سب کرپشن پر قابو پانے میں ناکامی کا مظہر ہے۔حکومت کا مالی وسائل کا بے محابا استعمال ، جس کو بجٹ اور حقیقی اخراجات میں تفاوت سے پتہ چلتا ہے کیونکہ اس ماحول میںجس میں عوا می اداروں کو جوابدیہی نہیں کی جاتی۔انتظامی نظام ایسا ہے کہ جو سیاستدانوں کی خوشنودی پر چلتا ہے۔سرمایہ کاری پر منافع کم ہوتا ہے چونکہ حکومتی ادارے کرپٹ ہیں۔
اقتصادی نظام کا ایک حصہ ایسا ہے جہاں کوئی مقابلہ نہیں بلکہ کھلے عام حفاظت کی جاتی ہے،اس کو رعایتیں دی جاتی ہیں اور قومی خزانے سے امدادبھی، جس سے مالیہ اکٹھا کرنے کے وسائل کم اور با اختیار ارباب کو کرپشن سے حاصل کردہ فوائد زیادہ ہو جاتے ہیں۔اس کے ساتھ برآمد کنندگان صنعتوں کو نا موافق حکومتی حکمت عملی اور سیاسی حمایت والی کمپنیوں کو نا جائز فائدے دینے سے بھی ملک کو نقصان پہنچتا ہے۔انہیں حرکات کی وجہ سے برآمدات جو 1990میں شرح نمو کا                     16فیصد تھیں وہ اب صرف9 فیصد رہ گئی ہیں۔ اگرچہ مختصر معیاد رحجان بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں، طویل المدتی رحجانات اس کے مخالف اشارہ کر رہے ہیں کیونکہ بیرونی اور اندرونی کمپنیاں ایسے معاہدے نہیں کرنا چاہتے جولمبے عرصہ کے لیے ہوں کیونکہ انہیں پاکستان کے عدالتی نظام پر بھروسہ نہیں ہے۔ایک عالمی انڈکس کے مطابق پاکستان کی عدلیہ کا تاثر انتہائی کم سطح پر دیکھا گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہر سطح پر کرپشن ہے۔تین سال مسلسل پاکستان کی عدلیہ کو دنیا کی نظر میں انتہائی کرپٹ دیکھا گیا ہے۔ اور عدلیہ کے ساتھ پولیس، ٹنڈر بھرنے اور ٹھیکے دینے کو بھی اسی مدمیں دیکھا گیا ہے۔نچلے درجے کے عدالتی نظام میں خصوصاً کرپشن کی وجہ سے مقدمات میں انصاف کے حصول میںنہ صرف وقت زیادہ لگتا ہے، اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔اس میں بھی کرپشن کا عمل دخل شامل ہے۔اس وجہ سے تجارتی ادارے عدالتی نظام کو معاہدوں اور جائداد کے مقدمات میں الجھانا پسند نہیں کرتے۔اس کے علاوہ ، مالی اداروں پر نگرانی میں کمی اور بے ظابطگیوں کی وجہ سے ضروری سرمایہ ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔گو کچھ ترقی ہوئی ہے لیکن زیادہ ترعوام کو حکمرانی اور سرکاری معلومات تک رسائی محدود ہے۔ سن 2023ء کے ایک جائزے میں دو تہائی جواب دہندوں نے بتایا کہ محتسب اداروں جیسے نیب، اور ایف آئی اے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔بد عنوانیت جیسے قدرتی آفات اور کوویڈ جیسی وبائوں سے نمٹنے کے لیے، عوامی خزانے کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا۔جس کے نتیجے میں وسائل کی غیر مساویانہ تقسیم اور سہولتوں تک پبلک کی رسائی روکتی ہے۔ان سب کے نتیجہ میں عوام کا سرکاری اداروںپر سے اعتماد بہت کم رہ گیا ہے۔حکومتی ارکان کی کرپشن کی وجہ سے اکثر معلومات عوام سے چھپائی جاتی ہیں۔ نجی اداروں کو باقاعدگی سے کہا جاتا ہے کہ وہ رشوت کا پیسہ دیں۔سرکار کا کوئی بھی کام ہو وہ رشوت دئیے بغیر نہیں ہوتا، خواہ کاروبار ہو اور خواہ کوئی اکیلا شخص۔ اس معاملے میں کسی کو نہیں بخشا جاتا۔عدالتی نظام پر قابض طبقہ کرپشن کی پرورش کرتا ہے۔اور اس سے حاصل شدہ دولت کو ملک کے باہر بھیج دیا جاتا ہے جو ملک کے کام آ سکتی تھی۔
ریاست اقتصادی میدان میں بہت عمل دخل رکھتی ہے۔ جو سرکاری انتظام سے چلنے والے کاروباری ادارے ہیں، پورے سالانہ شرح نمو کا 12فیصدہیں۔ اور ان کی مجموعی مالیت کل شرح نمو کی 48فیصد بنتی ہے۔ بینکنگ کے شعبہ میں بھی ریاستی حصہ ہے۔ اورحکومت بینکوں سے کثرت سے قرضے لیتی ہے۔ یعنی بینکوں کا 80فیصد قرضہ حکومت لیتی ہے۔گذشتہ تحقیق بتاتی ہے کہ سیاستدانوں سے جڑی نجی کمپنیاں 45فیصد سرمایہ بینکوں سے لیتی ہیں اور ان کا 50 فیصد بینک کو واپس نہیں ملتا۔سرکار 72فیصد افراد کو ملازمتیں دیتی ہے، اس لحاظ سے ملازمتیں دینے کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ (سول سروس کے لاکھوں ملازمین کے علاوہ، جیسے پولیس، صرف دفاع کے شعبہ میں سات لاکھ افراد سرکار کے خرچے پر ہیں۔)
2023 میں کمانڈر ان چیف کی نگرانی میں، سپیشل سرمایہ کاری کی سہولت کونسل(Special Investment Facilitation Council) بنی۔اس کونسل کو خاصی رعایتیں اور اختیارات دیئے گئے۔ لیکن اس کی کوئی کارکردگی دیکھنے میں نہیں آئی۔(بلکہ دیکھا گیا ہے کہ ملک میں جن بیرونی کمپنیوں نے کاروبار بنائے تھے وہ بھی تیزی کے ساتھ واپس جا رہی ہیں)۔سرکاری اخراجات میں گھپلے بازی کی واضح مثالیں ملتی ہیں۔ مختصراً، آئی ایم ایف کی اس رپورٹ نے صاف صاف لفظوں میں جو کرپشن کی چارج شیٹ بنائی ہے، پاکستانی حکومت ایک عرصہ تک اپنے زخم چاٹتی رہے گی۔لیکن بندے ڈھیٹ ہیں، ان سب باتوں کے باوجود پرنالہ وہیں گرے گا، اور آئی ایم ایف کومطمئن کرنے کے لیے کوئی عارضی ضوابط بنا دیئے جائیں گے جن پر عمل ہو گا یا نہیں، یہ بعد کی بات ہے۔
اب ذرا دیکھیں کہ یونیسیف کیا کہتا ہے۔
یونیسیف (اقوام متحدہ کا بچوں کا فنڈ) نے اپنی تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے، کہ ’’ غربت بچپن کو بھی تباہ کرتی ہے، بچوں کے لیے جان لیوا بھی ہوتی ہے، ان کی صحت اور نشو ونما کو روکتی ہے، اور ان کی سیکھنے کی اہلیت کو بھی کم کرتی ہے۔اس کے علاوہ، غربت معاشروں کے لیے زہر قاتل ہے۔بچوں کو اپنی پوری استعدادکو حاصل کرنے سے روکتی ہے، یہ مستقبل کی اقتصادی خوشحالی کا راستہ بھی روکتی ہے۔ جن کے پاس ہے اور جن کے پاس نہیں ہے، ان میں تقسیم پیدا کر کے یہ ان رشتوں کو برباد کرتی ہے جو ہم کو جوڑتے ہیں، اور آبادیوں سے ان کی امیدیں چھین کر یہ وہ حالات پیدا کرتی ہے جن میں فتنہ فساد اور شدت پسندی پروان چڑھتے ہیں ۔آج ہم تاریخ کے اس مقام پر ہیںجب کہ دنیا میں فوجی اخراجات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں، یعنی 2.72 Trillion (کھرب) ڈالر۔، اور لاکھوں بچے ہر روز بنیادی ضروریات جیسے تعلیم، صاف پانی اور گھر سے محروم ہیں۔کیوں؟ اس کی وجہ ذرائع کی کمی نہیں، معاشروں کی ترجیحات ہیں۔حفظان صحت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ۶۵ فیصد بچوں کو بیت الخلاء کی رسائی میسر نہیں۔ درمیانی سے اوپر کی سطح کی آبادیوں میں بھی 11فیصد بچوں کو یہ سہولت میسرنہیں۔
باوجود اس کے کہ بے شمار بچے غربت کا شکار ہیں، تھوڑی بہت ترقی بھی ہوئی ہے۔پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں،سن 2000ء میں ہر پانچ میں سے ایک سے زیادہ بچے دو شعبوں میں انتہائی کمی کا شکار تھے جن میں ان کی صحت اور بہتری متاثر ہوتی ہے۔ 2023ء میں یہ تناسب پانچ میں سے دو ہو گیا تھا۔اس بہتری کی وجوحات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔حکومتوں، معاشروں اور بین الاقوامی کوششوں کا نتیجہ تھی۔یہ بہتر نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ مستقل سیاسی حمایت، شہادتوں پر مبنی حکمت عملی، اور بچوں کے حقوق پر سمجھوتا نہ کرنا ،تھے۔مختصراً،اگر حکومتیں تہیہ کر لیں تو حالات بدل سکتے ہیں۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button