ہفتہ وار کالمز

صدر ٹرمپ اور سعودی ولی عہد کی دوستی!

امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے فروری 1945 میں یالٹا کانفرنس سے واپسی پر سوئز کنال کے قریب ایک تفریحی مقام پر چند روز کے لیے قیام کیا تھا۔ یہاں انہوں نے سعودی عرب کے معمار قوم عبدالعزیز بن سعود سے ملاقات کی تھی۔ فرینکلن روزویلٹ وہ پہلے امریکی صدر تھے جنھوں نے سعودی عرب کی شان و شوکت اور تیل کے ذخائر سے مرعوب ہو کر مشرق وسطیٰ کے اس اہم ملک کے سربراہ سے ملنا ضروری سمجھاتھا۔ انکے بعد چھ امریکی صدور نے سعودی عرب کے بادشاہوں کا وائٹ ہائو س میں پر تپاک استقبال کیا۔ مگر ان میں سے کسی کا بھی تعلق سعودی عرب کے بادشاہوں سے اتنا گہرا‘ فائدہ مند اور نتئجہ خیز نہ تھا جتنا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شہزادہ محمد بن سلیمان سے ہے۔ اسکی وجہ دونوںکے سیاسی اور کاروباری تعلقات ہیں۔ صدر ٹرمپ کے بیٹوں اور داماد نے سعودی عرب میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور اب ٹرمپ آرگنائزیشن سعودی عرب کے ایک بڑے تعمیری منصوبے میں شمولیت کے لیے گفت و شنید کر رہی ہے۔ سعودی ولی عہد کی منگل کے روز واشنگٹن میں آمد سے پہلے ہی امریکی میڈیا صدر ٹرمپ کے خلیجی ممالک میں اربوں ڈالرز کے کاروبار کو Conflict of Interest یا مفادات کا تصادم قرار دیکر ان پرکڑی تنقید کر رہا ہے۔ شہزادہ سلیمان کی وائٹ ہائوس میں موجودگی کے دوران ABC ٹیلی ویژن کی چیف رپورٹر Mary Bruceنے صدر ٹرمپ سے پوچھاIs it appropriate Mr. President, for your family to be doing business in Saudi Arabia while you are president. ?اسکے جواب میں صدر ٹرمپ غصے پر قابو نہ پا سکے اور برہم ہو کر بولے’’ تم ایک ناکام رپورٹر ہو۔ مجھے تمہا را سوال نہیں بلکہ سوال پوچھنے کا انداز برا لگا ہے۔ تم سب جوشیلے ہو۔ ABC ٹیلی ویژن میں تمہیں تیار کر کے یہاں بھیجا جاتا ہے۔‘‘ اسکے بعد صدر ٹرمپ نے حکم دیا کہ اے بی سی ٹیلی ویژن کے لائسنس کا جائزہ لیا جائے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’ اے بی سی ٹی وی کا لائسنس منسوخ ہونا چاہئے کیونکہ اسکی خبریں Fake ہوتی ہیں۔ ‘‘
سعودی عرب سے صدر ٹرمپ کے سیاسی مفادات بھی وابستہ ہیں۔ عالم اسلام کا ایک با اثر اور خوشحال ملک ہونے کی حیثیت سے سعودی عرب صدر ٹرمپ کو اتنے فوائد دے سکتا ہے جو آج تک کسی امریکی صدر کو نہیں ملے۔ شہزادہ سلیمان اگر صدر ٹرمپ کی بات مان کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیں تو یہ صدر ٹرمپ کی بے مثال کامیابی ہوگی مگر سعودی عرب کے حکمران نے واشنگٹن آنے سے پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ جب تک اسرائیل فسلطین کے دو ریاستی حل کی طرف واضح پیشرفت نہیں کرتا اسوقت تک اسے تسلیم نہیں کیا جائیگا۔ اس اعلان کے بعد بھی سعودی عرب کے پاس امریکہ کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ مئی کے مہینے جب صدر ٹرمپ نے ریاض کا دورہ کیا تو اسوقت شہزادہ سلیمان نے امریکہ میں 600 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا تھا۔ منگل کے روز وائٹ ہائوس میں انہوں نے اس سرمایہ کاری کو ایک کھرب تک بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ امریکی ماہرین کے مطابق سعودی عرب کے معاشی حالات اتنے اچھے نہیں کہ وہ اتنی بڑی سرمایہ کاری کر سکے۔ لیکن صدر ٹرمپ کے کسی بھی مہمان حکمران نے امریکہ میں اتنی بڑی رقم انویسٹ کرنے کا وعدہ نہیں کیااس لیے ریاض کے چھ سو ارب ڈالرز کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔
سعودی عرب کے ولی عہد کی سب سے بڑی کامیابی F-35 طیاروںکا حصول ہے۔ ان طیاروں کی سعودی عرب کو فروخت اتنا متنازعہ معاملہ ہے کہ پینٹا گون کی ایک حالیہ انٹیلی جنس رپورٹ میں اس پر شدید تحفطات کا اظہار کیا گیا ہے۔ F-35 وہ طیارے ہیں جو اسرائیل نے اکتوبر 2024 اور جون 2025 میں ایران کے خلاف جنگ میں استعمال کر کے فضائی برتری حاصل کی تھی۔ امریکی کانگرس ہمیشہ سے اس اصول پر قائم رہی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک کو ایسے ہتھیار اور طیارے فروخت نہیں کیے جائیں گے جو اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکیں۔ اب سعودی عرب اربوں ڈالرز کے عوض چالیس F-35 طیارے خرید کر خاصی حد تک فضائی مقابلے میں اسرائیل کے ہم پلہ ہو جائے گا۔ یہ ایک ایسی جیو پولیٹیکل تبدیلی ہے جو مشرق وسطیٰ کی سیاست میں دور رس تبدیلیوں کی حامل ہو گی۔ امریکی میڈیا کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے اندر اب اسرائیل کے لیے وہ حمایت نہیں رہی جو پہلے تھی۔ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی نے امریکہ میں اسرائیل کے بارے میں گہرے منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی MAGA تحریک کے اندر بھی اسرائیل کی مخالفت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ Tucker Carlson اور Nick Fuentes جیسے قد آور اور مقبول قدامت پسند کھلے لفظوں میں اسرائیل کو امریکہ کا تزویراتی بوجھ قرار دے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی MAGAتحریک کے بدلتے ہوے تیور دیکھ کر سعودی عرب کیساتھ سول نیوکلیئر معاہدے کے خدو خال ترتیب دئے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کے دفاعی معاہدے نے امریکہ میں اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ واشنگٹن نے اگر سعودی عرب کی دفاعی ضروریات پوری نہ کیں تو وہ چین‘ روس اور پاکستان سے رجوع کر سکتا ہے۔ اس خطرے کو بھانپتے ہوے صدر ٹرمپ نے ستر برس پرانے اتحادی کی بیشتر شرائط مان کر مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظر نامے کو تبدیل کر دیا۔
نظر یہ آ رہا ہے کہ لبرل امریکی میڈیا اسرائیل کی اس بے توقیری پر خاصا برہم ہے اسی لیے اس نے صدر ٹرمپ کے بیٹوں کے خلیجی ممالک میں پھیلتے ہوے کاروبار کو مفادات کے تصادم کا عنوان دے کر سعودی عرب کیساتھ نئے دفاعی معاہدے کی مخالفت شروع کر دی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button