عوامی بہتری کی ترمیم کب آئے گی ؟

کوئی بھی بندہ اپنے اندر سے ہدایت ملنے پر اپنے تشخص میں اپنی بول چال میں ،اپنے کردار میں ترمیم کرتا ہی رہتا ہے اپنی باتوں کی تصیح بھی ترمیم کے ضمرے میں ہی آتی ہے مقصد ِ کلام یہ ہے کہ انسان اپنی روزمرہ حیات میں ترمیمی مراحل سے گزرتا ہی رہتا ہے چونکہ اسے اپنی و دیگر وارثین کی بہتری درکار ہوتی ہے تو وہ اپنی سوچ میں بہتر تجاویز کو جب عملی زندگی میں داخل کر لیتا ہے تو ترمیم بن جاتی ہے جس روز گار ِ زندگی کی راہیں متعین کرنے میں آسانیاں ہوتی ہیں آج کل ملک کے ایوانوں میں سوشل میڈیا میں 27ویں ترمیم کا اک شور سا برپا ہے اور ہر بندہ تجزیہ کا ر بنا بغیرحقائق کو جانے اپنی رائے سے خوش گمانیاں کم اور بدگمانیاں زیادہ پھیلا ئے جا رہا ہے یہ ہماری معاشرتی عادت بنی ہوئی ہے کہ ہم منفی باتوں کی تشہیر بغیر کسی دلائل کے پھیلاکر افلاطونی فلاسفر بنتے رہتے ہیں 27ویں ترمیم نے ابھی جنم بھی نہیں لیا تھا تو اُس کے متعلق غیرمصدقہ،غیر سنجیدہ جنھیں من گھڑت کہنا بیجا نہ ہو گا تبصرے شروع ہو گئے اب چونکہ ترمیم اپنے جاہ و جلال کے ساتھ حکومتی اراکین کی مشاورت سے لاگو ہو چکی ہے اور اس کے ثمرات سے فیض یاب ہونے والوں کے چہرے چمک تو رہے ہیں مگر استثنی کی غیر ضروری سیاہی کاغذ پہ بکھری حسن ِ جمہوریت کو ماند کر گئی ہے27ویں ترمیم کی نقاب کشائی سے پہلے جتنے خدشات تھے اُس میں استثنیٰ کا باب نصاب ِ آئین میں جچا نہیں گو کہ ہمارے آئین میں بہت سی عوامی بہتری کی باتیں دیکھنے کو پڑھنے کو ملتی ہیں مگر ان کی عملی شکل سے واقف کوئی بھی نہیں وکلاء برادری بھی کبھی یا انسانی حقوق کی تنظمیں ،سیاسی جماعتوں کے نظریاتی قائدین نے بھی کبھی ان عوامی بہتری کی آئین میں موجود شقوں کو لاگو یا اُن پر عمل کرنے کی جہدوجہد نہیں کی آئین اپنے صفحات میں بہت سی انسانی بہتری کی ،فلاح و بہبود کی قانونی شکل لئے اُن سیاسی ہستیوں کا مشکور و ممنون نظر آتا ہے جو ایک دوسرے کے مخالف ہونے کے باوجود عوامی بہتری کی ترمیم پر یکجا ہوتے تھے یہ وہ سیاسی قائدین تھے جو اپنے نظریات کو لے کر اُن پر عمل پیرا بھی ہوتے تھے وہ سیاسی ہستیاں جو دنیا سے پردہ کر گئیں ہیں اُن میں سے کوئی بھی بدعنوانی کا مرتکب نہیں ہوا تھا جن میں شہید ذوالفقار علی بھٹو ،خان عبدالقیوم خان ،خان عبدالولی خان ، صاحبزادہ نصراللہ خان ،جماعت اسلامی کی سرکردہ اعلی اوصاف شخصیات ،اصغر خان وغیرہ تھے اور نہ ہی ان کی سیاسی تاریخ میں کوئی مطلق العنانیت قسم کی طاقت کے حصول کی کاوشیں تھیں پتہ آج کا سیاست دان کوئی خود کو الوئیت کے ہالے میں تصور کرتے ہوئے مختار ِ کُل ہونے کی کوششوں میں سرگرداں رہتے ہیں اب صدر پاکستان کے منصب کو استثنیٰ کی طاقت سے لبریز کر کے قانون و عوام کو اُن کے سامنے سر جھکائے کھڑا رکھنا آئین کی نہیں انسانیت کی تذلیل ہے جو انسانی روح کو مجروح کرتی ہے اور اس میں عوامی رائے کی بجائے پارلیمنٹرین کے مفادات پنہاںہیں جو جمہوریت داغدار کرنے کے غماز ہیں جمہوری حکومت میں یہ المناک منظر بھی دیکھنے کو ملا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے حق میں 231ووٹ آئے صرف 4ووٹ اس ترمیم کی مخالفت میں پائے گے جو ثابت کرتا ہے کہ ایوان کی اکثریت جمہوری نظام کی آڑ میں آمرانہ نظام کو فوقیت دینے کے حق میں ہے ہم عام شہریوں کے ووٹوں سے ایوان میں پہنچنے والے یہ عام انسان بالا و برتر ہونے کے لئے دوسروں کی تحقیر و تضحیک کے رویے کو اپناتے ہیں جس سے طبقاتی تفریق کی اصلی صورت آج کل ہمارے سامنے ہے میری نو عمری کے دوست ڈاکٹر حفیظ الرحمن مدتوں بعد ملے بہت ساری باتوں کے دوران کہنے لگے کہ کسی عام آدمی کی زندگی کا ذرا بغور مطالعہ کریں تو معاشرتی تربیت کی شدید کمی دیکھنے کو ملتی ہے عام آدمی جب بھی گند پھینکے گا راستے میں پھینکے گا بغیر سوچے سمجھے کسی کی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی کھڑی کرکے اپنے کسی کام سے چلا جائے گا دوسرے کی تکلیف کو اپنی آسانی پر قربان کر دیگا دفتری اوقات میں اپنے ذاتی کاموں کو ترجیح دے گا اپنے عزیز و اقارب کو کسی بھی کیس سے نجات دلانے کے لئے اپنے عزیزوں کو کسی بھی سرکاری منصب پر فائز کرنے کے لئے ہر تعلق کو استعمال کرے گا تو بتائیے کہ ایسے معاشرے کا کوئی بھی فرد کیسے درست یا راست ہو سکتا ہے ؟تو یہ ہماری بیوقوفی ہے نا اہلی ہے کہ ہم ایسے لوگوں سے بہتری کی اُمیدیں وابستہ کر لیتے ہیں جنھیں عوامی بہتری کا شعور ہی نہیں ہوتا بہتر ہوگا کہ ہم حالات کے آئینے میں ذرا اپنا جائزہ لے لیں کہ ہم اپنی ریاست سے کس قدر مخلص ہیں پھر جو نتائج بھی سامنے آئیں اُس کو مد نظر رکھتے ہوئے عوامی بہتری کی ترمیم عملی طور پر ممکن ہو گئی تو پھر ہمیں نہ احتجاج کی ضرورت ہو گی اور نہ ہی ایوان سے دکھاوے کا کوئی بائیکاٹ کرے گا ۔



