ہفتہ وار کالمز

ظہران ممدانی

کہا جاتا ہے کہ کارل مارکس،ڈارون،ہیگل اور فرائیڈ کے بغیر دنیا نہیں چلتی،یہ سچ ہے اور اپنے وقت کا بڑا سچ، مگر سیاست کی اپنی دنیا ہے جہاں جھوٹ کو کچھ اس طرح بولا جاتا ہے کہ سچ لگنے لگتا ہے سچ لگتا ہے سچ بن نہیں جاتا،سچ کی اپنی دنیا ہے جہاں نور ہے روشنی ہے اور کوئی دھوکہ نہیں،سکون ہے راحت ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ سب کا اپنا اپنا سچ ہوتا ہے کسی نے کہا ہے Whatever you say ,its you opinionand what ever you
see is not a fact.Its your perception.یہ درست ہے کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ ہماراخیال ہی ہوتا ہےNo truth is obsolute.اسی لئے بحث مباحثہ ہوتا ہے اور بہت سے نئے پہلو سامنے آتے ہیں کبھی کبھی لوگوں کی بے خبری سے فائدہ اٹھانے کے لئے so called posivity کا سہارا لیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ مت کہو کہ گلاس آدھا ہے یہ کہو کہ آدھا گلاس بھرا ہوا ہے ایک رخ یہ بھی ہے کہ کوئی آدھا گلاس پی گیا ہے سیاست میں ایسی باتیں بہت ہوتی ہیں،زراعت کی بہتری کے لئے حکومت اقدامات کا اعلان ہر سال کرتی ہے مگرزراعت کا حال برا ہی رہتا ہے تھک ہار کہ تجزیہ کار یہی کہتے ہیں کہ یہ سب اعداد و شمار کا چکر ہے جو کاغذ پر ہوتا ہے وہ اصل میں ہوتا نہیں کارل مارکس، ڈارون۔ ہیگل اور فرائیڈ نے جو کچھ کہا ہے وہ اتنا بڑا سچ ہے جو جھٹلایا نہیں جا سکتامارکسزم کی مغرب اور امریکہ میں بہت مخالفت ہوئی،باقاعدہ سرد جنگ رہی،اس کے باوجود کمیونزم کامیابی سے بہت سے ملکوں میں چلتا رہا،سوویٹ یونین نے 1915 سے 1945 تک تین پانچ سالہ منصوبے مکمل کرکے دنیا کو حیران کردیااور کامیابی سے تمام اہداف مکمل کر لئے،یہ کمیونزم کی بہت بڑی کامیابی تھی کمیونزم کی مخالفت کے باوجود مغرب نے سائنسی سوچ کے ساتھ economics of planning پر کام شروع کیا اور مغرب میں معاشیات کی نوع کو باقاعدہ curriculum میں شامل کر لیا گیا،welfare کا concept بھی کمیونزم سے آیا ہر چند کہ یہ modified تھا سرمایہ داری نے فرد سے بہت کچھ لیا مگر دیا کم،اگر فرد کو دیا جاتا تو منافع کم ہو جاتاسرمایہ دار کو یہ منظور ہی نہ تھا کہ وہ اپنا منافع کم کر لے،اور اب ہم سرمایہ دار کے ایسے غلام ہوئے کہ زندگی کے ہر شعبے میں ہم وہی اشیاء استعمال کرتے ہیں جو سرمایہ دار بنا کر دیتا ہے اس کی marketing لاجواب ہے فیشن اور برانڈزبھی سرمایہ داری کا جز ہیں کبھی ہمارے گھر کے appliances ایک مدت تک قابلِ استعمال رہتے تھے یہ reliable ہوتے تھے اور ان کو بدلنے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی مگر اب ہمیں یہ appliances ہر پانچ سال کے بعد تبدیل کرنا پڑتے ہیں،یہ ہماری مجبوری ہے،کاریں بھی زیادہ durable نہیں رہیںگویا فرد عملی طور پر سرمایہ دار کا غلام بن گیا ہے پچھلی دہائی میں consumers economy بھی متعارف ہو چکی اب سرمایہ دار ایک اچھا consumer مانگتا ہے جو اپنی آمدنی کا بڑا حصہ اشیاء کی خریداری پر خرچ کرے اور وہ جو ایسا نہیں کرتے ان کو معاشرے میں کم تر سمجھا جاتا ہے،ہم سب اس روش کے شکار ہیں اور مجبور ہیں ،مڈل کلاس اس کوشش میں رہتا ہے کہ اعلی طبقے کی نقل کرے مگر ساتھ ساتھ یہ سوچ بھی پنپتی رہتی ہے کہ یہ سب کچھ غلط ہے سرمایہ دار نے globolization کا ایک منصوبہ بھی لانچ کر رکھا ہے جس کی گرفت تیسری دنیا کے وسائل پرہے امریکہ اور یورپ کے عوام کو پیٹ بھر کر روٹی ملتی ہے مگر پھر بھی یہ سوچ ذہنوں میں موجود ہے کہ ان کی جیبوں پر بہت مہارت سے ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے ،globalization خلاف مضبوط تحریک چل رہی ہے اخبارات اور رسائل میں مسلسل
لکھا جا رہا ہے گویا ایک لاوا موجود ہے ظہران ممدانی بھارتی نژاد ہیں ان کی والدہ ہالی وڈ میں کئی فلمیں بنا چکی ان کی بنائی ہوئی فلموں میں Monsoon
wedding بہت مشہور ہوئی اور اس فلم، نے پبلک کی توجہ حاصل کی ظہران ممدانی کے والد محمود ممدانی کا تعلق ایک مسلم گھرانے سے ہے وہ یوگنڈا سے تعلق رکھتے ہیںممدانی کی والدہ میرا نائیر نے محمود ممدانی سے شادی کی،ظہران ممدانی یوگنڈا کے شہر کمپالا میں پیدا ہوئے اور 2018 میں یو ایس کی شہریت اختیار کی،ممدانی نیویارک اسمبلی کے ممبررہے ہیں اچھے orator ہیں وہ اپنی تقریر میں slangs /adverb/adjective کا استعمال خوبصورتی سے کرتے ہیں،ان کی وائف راما دعاجی ایک آرٹسٹ ہیں ممدانی اور ان کی وائف کی مجموعی سالانہ آمدنی 400kہے وہ نیویارک میں Queensمیں رہتے ہیں جو مڈل کلاس لوگوں کی جگہ ہے ظہران ممدانی کا بیک گراؤنڈ مڈل کلاس کا ہے وہ اپنے آپ کو مسلم کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ Democratic Socialist ہیں مسلم ہونا شائد ان کا ذاتی معاملہ ہومگر یہ اہم ہے کہ وہ اپنے آپ کو Democratic Socialist کہیں ،یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ ایک مڈل کلاس فیملی کے فرد ہیں ایک مڈل کلاس سوسائٹی
میں رہتے ہیں وہ مڈل کلاس معاشرے کی سوچ سے اچھی طرح واقف ہیں ان کے دکھوں اور مسائل سے واقف ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں کے مسائل کا حل socialist democracy میں ہے اس پس منظر نے ظہران ممدانی نے Affordibilityکا نعرہ دیا،اس کے پیچھے وہی عوامل ہیں جو میں نے اپنی طویل تمہید میں بیان کئے ہیں اسی پس منظر میں ظہران ممدانی نے نیویارک سٹی کے لئے فری ٹرانسپورٹ ،child careکا منشور دیا ہے ظہران ممدانی کے اس منشور اور اپنے آپ کو democratic socialist کہنے کی وجہ سے Democrats نے ان سے دوری اختیار کی،سینیٹر چک شومر ان کی مدد کو نہیں آئے،اوباما کو جب یقین ہوگیا کہ ممدانی کی پوزیشن ان حریفوں سے زیادہ مضبوط ہے اور سابق گورنر کومو بھی ان کا راستہ نہیں روک پائیں گے تب کہیں دو دن قبل اوباما نے ممدانی کی حمائیت کا اعلان کیا ،صدر ٹرمپ نے بھی ممدانی کو کیمونسٹ کہا،ممدانی نے اس شدت کی مخالفت کے باوجود کہا کہ نیویارک کے کھرب پتی افراد کو ٹیکس کی چھوٹ دی جا رہی ہے ان کو ٹیکس دینا ہوگا،یہ باتیں غیر معمولی تھیں ،ممدانی کو نیویارک سٹی کے مڈل کلاس نے باہر نکل کر ووٹ دیا،اس بار ووٹرز کی غیر معمولی تعداد باہر نکلی اتنی بڑی تعداد میں نیویارک کے مئیر کے الیکشن میں ووٹ نہیں پڑے کچھ بہت معتبر پولز کے مطابق ووٹ دینے والوں میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی ،کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ نیویارک کا نوجوان اپنے حالات سے مطمئن نہیں اور نوجوان طبقے نے بلا جھجھک ایک Democratic Socialist کو ووٹ دیا۔یہ بات حیران کن ہے،ممدانی کی مخالفت نیویارک کے کچھ سرمایہ داروں کی جانب سے بھی آئی ایکس کے مالک ایلون مسک نے بھی اپنی سی کوشش کی،مگر یہ کوششیں ممدانی کو روک نہیں سکیں،کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ نیویارک کی ورکنگ کلاس،نوجوان، بیروزگار، طلباء اور وہ لوگ جن کی آمدنی ان کے اخراجات کا ساتھ نہیں دے رہی وہ سرمایہ داری نظام سے کچھ اکتا گئے ہیں،کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو ان کی محنت کا مناسب معاوضہ نہیں مل رہا؟کیا وہ سمجھتے ہیں کہ Corporations کا منافع غیر ضروری حد تک بڑھ گیا ہے،اگر امریکہ کے سب سے بڑے شہر میں سوچ بدل رہی ہے اور غیر محسوس انداز میں ایک بے اطمینانی کا اظہار ہو رہا ہے تو یہ بات ارباب حل و عقد کے لئے لمحہء فکریہ ہونی چاہیئے اور میرے خیال میں دانشور اور تھینک ٹینک ضرور اس بارے میں سوچیں گے،یہ سوال Hypothetical ہی صحیح اگر ممدانی اپنے منشور کو proclaim کرنے میں کامیاب ہوں یا یا ناکام ہوں ان کی سوچ نے اپنا راستہ بنا لیا ہے دونوں صورتوں میں ممدانی کی جیت ہے اگر وہ ناکام ہوئے تو کہا جائے گا کہ بڑے سرمایہ داروں نے ان کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور اگر وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو کیا ان کی سیاسی سوچ بہت تیزی سے رینگتی ہوئی سارے شمالی امریکہ میں نہیں پھیل جائے گی اور کیا South America کی ریاستوں کواس جیت سےتوانائی حاصل نہیں ہوگی،ممدانی کی بحیثیت مئیر کامیابی اہم نہیں رہی،اہم یہ ہے کہ امریکہ کا تنخواہ دار طبقہ، بے روزگارطبقہ،طلباء،homeless,سیاہ فام، اسپینش،ساؤتھ ایشین،وغیرہ اس بات پر غور نہیں کرینگے،کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ممدانی کی سوچ کو اگلے صدارتی انتخابات میں کوئی صدارتی امیدوار اپنالے اور اس کو عوام کے دل کی آواز بنا دے،یہ سارے امکانات ہیں ان کو فی الحال probablities کہیئے مگر ان کو possibilitiesبننے میں کتناوقت لگتا ہے،یہ امریکی سیاست کا ایک بڑاturning point ہے ،ممدانی کی بہت مخالفت ہوئی مگر یہ بھی سب نے دیکھا کہ Bernie Sanders ممدانی کے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا،ممکن ہے اس بات کو جھٹک دیا جائے مگر ممدانی کے ساتھ Berbie Sandwrs کا ساتھ دینا سیاسی طور پر بہت اہم ہے ،ممدانی نے اپنے منشور میں Free Transportationکی بات کی نیویارک کی گورنر نے سٹی کو بسیں دینے سے انکار کر دیا،بسیں نہ دی جائیں مگر یہ یاد رکھا جائیگا کہ یہ نیویارکرز کی ضرورت ہے،ٹرمپ لاکھ ممدانی کو کیمونسٹ کہیں مگر یہ یاد رکھا جائے گا کہ اس کے باوجود نیویارک سٹی نے ممدانی کے منشور کو ووٹ دیاممدانی ایک سوچ بن جائے گی تو امریکہ کو اپنا مزاج بدلنا ہوگا ۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button