ذلت یزید کا مقدر ہے !

عمران خان نے سو فیصد درست کہا ہے۔ یہ نام نہاد حافظ اور خود ساختہ فیلڈ (فراڈ) مارشل عاصم منیر ذہنی مریض ہے۔یہ ذہنی مریض بھی ایسا ویسا نہیں بلکہ وہ ہے جو بلا کا بزدل اور ظالم بھی ہے!پاکستان کی بدنصیب تاریخ میں سب سے نمایاں کردار اس کے طالع آزما عسکری آمروں کا رہا ہے۔ پاکستان بنانے والوں کو تو قدرت نے اس احسان فراموش قوم کے ہاتھوں ذلیل ہونے سے یوں بچایا کہ انہیں اپنے پاس واپس بلالیا، چار پانچ برس کے اندر ہی۔ پھر اس کے بعد سے عسکری طالع آزماؤں نے ملک و قوم پر جو اپنے پنجے گاڑے وہ نحوست آج تک ملک و قوم کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ پچھتر سال ہوگئے لیکن یہ طالع آزما قوم کی جان نہیں چھوڑ رہے، اسے اپنے طاغوتی حصار سے باہر آنے ہی نہیں دے رہے۔عاصم منیر اس طاغوتی سلسلہ کا تازہ ترین کردار ہے اور اس کے ساتھ ہی اپنے پیشروؤں کے مقابلہ پر کہیں زیادہ ہوس گزیدہ اور کم ظرف۔ ایوب خان سے لیکر عاصم منیر تک یہ جو عسکری آمروں کا نحس سلسلہ ہے اس میں اس بزدل عاصم منیر سے پہلے والے اتنے کم ظرف اور کم اوقات نہیں تھے جتنا یہ ہے۔یہ درست ہے کہ عسکری آمروں نے اپنے اپنے تئیں قوم پر مظالم کئے اسلئے کہ یہ پاکستانی جرنیل اپنے آپ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کے سالاروں کا جانشین سمجھتے ہیں اور اسی لئے جو ہندوستانیوں کیلئے فرنگی فوج کے دلوں میں تحقیر اور نفرت کے جذبات تھے وہی کم و بیش ان عسکری طالع آزماؤں کا پاکستان کے عوام کے ساتھ سلوک رہا ہے۔ ہم تو پاکستان کی اعلیٰ ترین سول سروس سے وابستہ رہے ہیں اور پاکستان کے جاگیرداری کلچر میں ہمارا شمار ہما شما میں نہیں بلکہ باعزت افراد میں ہوتا تھا لیکن ہمارے قبیلہ کے سول افسران کے ساتھ بھی ان عسکری جرنیلوں کا جو رویہ ہم نے جھیلا ہے اس سے اس بیان کوتقویت ملتی ہے کہ ان کےفرنگی اور فرعونی دماغوں میں ہم "بالاڈی سویلین” تھے اور رہینگے!تو ہر عسکری آمر نے قوم پر ظلم کیا۔ ایوب خان نے جمہوریت پر جو شبخون مارا تھا اس نے ملک کی سالمیت پر وہ کاری ضرب لگائی کہ اس کا نتیجہ پاکستان کے دو لخت ہونے کی صورت میں نکلا۔یحییٰ خان نے ایوب کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے نہ صرف جمہوریت کے پردہ میں اپنی شخصی آمریت کو مضبوط کرنا چاہا بلکہ اس عمل میں مشرقی پاکستان کے بنگالیوں پر وہ مظالم کئے جنہوں نےنازیوں کی تاریخ دہرادی۔ضیاء الحق نے مذہبی اور شرعی لبادہ میں پاکستانی شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالا اور انہیںبری طرح پامال کیا۔ اس کے علاوہ ان کا سب سے بڑاکارنامہ یہ تھا کہ انکی آمریت نے اس دور کے سب سے مقبول سیاسی رہنما کو عدالتی قتل کے ذریعہ تختہء دار پر بھیج دیا۔پرویز مشرف کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے دنیا سے اپنی آمریت اور جمہور دشمنی کو منوانے کیلئےسامراج کی غلامی قبول کی اور پاکستان کو طشتری میں رکھکر سامراج کے سامنے پیش کردیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کی سرزمین سے سامراج کے ڈرون اڑتے تھے اور پاکستانیوں کا خون بہاتے تھے لیکن پرویز مشرف اپنے اقتدار کیلئے اپنے معصوم شہریوں کا خون بہتے دیکھ رہے تھے
او رمطمئن تھے کہ سامراج کی آشیرواد انہیں میسر تھی اور وہ اسی طرح طاغوتی طاقتوں کے آلہ کار اور آنکھوں کا تارا تھے جیسے آج ملت فروش عاصم منیر ٹرمپ کا فیوریٹ فیلڈ مارشل بنا ہوا ہے!عاصم منیر کی ذات میں اس کے تمام پیشروؤں کی کمزوریاں بدرجہء اتم پائی جاتی ہیں۔سونے پر سہاگہ یہ کہ یہ کم ظرف پاکستان کی تاریخ کے ہر طالع آزماء سے بڑھ کر بزدل ہے اور اسی لئے سب سے زیادہ ظالم ہے۔ یاد رہے کہ بزدل اور کائر ہی ظالم ہوتا ہے جوانمرد اور بہادر ظلم سے ایسے ہی نفرت کرتا ہے جیسے پاکستان کے عوام کی اکثریت اس بزدل اور کم نسب عاصم منیر سے کرتی ہے۔اس کی بزدلی تو اس حقیقت سے ہی مرتشح ہے کہ یہ عمران سے انتقام لینے کے جنون میں مبتلا ہوکر اپنی بزدلی کا ثبوت رات و دن فراہم کر رہا ہے۔ عمران کے خلاف اس کائر نے اپنی غلام عدلیہ سے ساز باز کرکے درجنوں بلکہ سینکڑوں جعلی مقدمات بنوائے ہوئے ہیں جسکا نتیجہ یہ ہے کہ مفتوح اور عاصم منیر کے تابع فرمان عدلیہ کے نام پر بد نما داغ عدالتوں میں سے کسی بیدار ضمیر والے جج سے اگر عمران کو ضمانت مل بھی جاتی ہے تو اسے ایک اور فرضی مقدمہ میں جیل کی سلاخوں سے باہر نہیں آنے دیا جاتا۔عمران کو ظالم عاصم منیر کے نظامِ جبر وطاغوت نے دو سال سے زیادہ ہوگئے زنداں میں محبوس کیا ہوا ہے لیکن اس بزدل کا خوف عمران کی ذات سے اس قدر اور بے پناہ ہے کہ یہ اپنے وضع کردہ نظامِ ظلم میں بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ تو اب اس نے ستائیسویں (27ویں) آئینی ترمیم کا ڈول ڈالا ہے۔پاکستانی قوم اور اس کے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کیلئے فی زمانہ جو موضوع سب سے زیادہ دلچسپی کا ہے وہ عاصم منیر کی یہ تازہ ترین ابلیسی کاوش ہے کہ وہ آئینِ پاکستان کا حلیہ بگاڑ دے صرف اپنی ہوسِ اقتدار کی آگ بجھانے کیلئے۔آئینِ پاکستان ویسے بھی ان عسکری طالع آزماؤں کیلئے کبھی کسی اہمیت کا حامل نہیں رہا۔ ضیا الحق نے اس حقیقت کو یوں بیان کردیا تھا کہ ان کے بقول پاکستان کا آئین محض ایک کاغذ کا پرزہ تھا جسے وہ کسی وقت بھی پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتے تھے۔اب عاصم منیر کا خوفِ عمران اسے یہ ترغیب دے رہا ہے کہ وہ آئینِ پاکستان میں اپنے مفاد اور ذات کے فروغ کیلئے ایسی ترمیمات کرے جو اسے کسی مواخذہ اور کسی بھی جوابدہی سے محفوظ کردیں۔یہ ہے اس نام نہاد حافظ کا کردار جو بات بے بات پر قرآنی آیات کا ورد کرکے اپنی قرآن دانی سے اپنے سامعین کو رعب میں لانا چاہتا ہے لیکن اس کا عمل اس شخص کا ہے جو تارکِ قرآن ہے اور ہر وہ کام کرتا ہے جس سے اس ملت فروش کے ابلیسی چیلا ہونے کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ستائیسویں آئینی ترمیم کا مسودہ تو اسی طرح عسکری ٹولہ کی کمیں گاہ، یعنی پنڈی کے جی ایچ کیو میں تیار کیا گیا جیسے 26ویں ترمیم کا ہوا تھا۔ وہاں سے ایک دن پہلے ہی یہ مسودہ کٹھ پتلی کابینہ کو بھجوایا گیا اس حکم کے ساتھ کہ اسے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے گھڑی کی چوتھائی میں منظور کروالیا جائے۔ کابینہ نے فرمان کی تعمیل کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی جس کے بعد اسے قومی اسمبلی اور ایوانِ بالا، یعنی سینٹ کے سامنے لایا گیا ہے اس حکمِ عاصم منیر کے ساتھ کہ اسے جلد از جلد آئین کا حصہ بنادیا جائے۔آئینی ترمیمات کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعہ عسکری قیادت کے ڈھانچے میں وہ تبدیلیاں کی جائینگی جن سے عاصم منیر کی مطلق العنانی کو قانون اور آئین کا تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ بزدل یہ چاہتا ہے کہ تینوں مسلح افواج کی کمان اس کے ہاتھوں میں سونپ دی جائے تاکہ وہ جیسے چاہے اپنی من مانی کرسکے۔خود ساختہ فیلڈ یا فراڈ مارشل کو تاحیات کسی مواخذہ کا سامنا نہیں کرنا ہوگا۔ اسے تاحیات قانون سے بالاتر رکھنے کیلئے عاصم منیر کو مرتے دم تک یہ عہدہ تمام تر مراعات کے ساتھ اس کی ذات سے وابستہ رہے گا۔اب تک تو عاصم منیر کے پیش روؤں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا تھا کہ وہ ملک کے ہر قانون سے بالاتر ہیں اسلئے کہ وہ بقول شخصے خلائی مخلوق ہیں کوئی عام انسان نہیں لیکن یہ کائر اس امکان سے کہ عمران اپنے واپس آنے اور بحالی کے بعد اس کو عدالت کے کٹہرہ میں نہ گھسیٹ لائے اتنا خائف ہے کہ چاہتا ہے کہ اس کے خلائی مخلوق ہونے کو آئین بھی منظور کرلے اور یہ ہر احتساب سے محفوظ ہوکر پاکستانی قوم کے سینے پر مونگ دلتا رہے۔
لیکن بزدل طالع آزما بھول گیا کہ
؎آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں!
اپنی دانست میں یہ نام نہاد حافظِ قرآن ہر طرح کی پیش بندی کر رہا ہے، ہر طرح کے منصوبے بنا رہا ہے لیکن اسے قرآن میں اللہ کا وہ ارشاد یاد نہیں جو کائنات کا بنانے والا ایسے ابلیسی چیلوں کے ضمن میں ارشاد فرما رہا ہے کہ یہ سب اپنی اپنی چالیں چلتے رہتے ہیں، اپنے اپنے منصوبے بناتے رہتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑا منصوبہ ساز ہے۔ اللہ و خیر الماکرین جو اپنی قدرت سے ایسے ابلیسی چیلوں کے منصوبوں کو خاک کردیتا ہے اور انہیں یہ یاد دلاتا ہے کہ اس کی قدرت اور اس کا فرمان ہر شیطان یزید کے زہر کا تریاق بن جاتا ہے!اس یزید عاصم منیر نے اپنی ذات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان چوروں اور ڈاکوؤں کے آئینی تحفظ کا بھی اپنے شیطانی منصوبہ میں اہتمام کیا ہے جنہیں اس ابلیسی چیلے نے فروری 2024ء کے اس عوامی مینڈیٹ پر ، جو عمران خان اور تحریکِ انصاف کے حق میں دیا گیا تھا، شبخون مار کے اپنی کٹھ پتلیاں بناکے اس بدنصیب اور بے حس قوم پر مسلط کیا تھا۔ستائیسویں آئینی ترمیم کے مسودہ میں یہ شق بھی شامل ہے کہ ہر صدرِ مملکت کو بھی عاصم منیر جیسے بدمست آمر کی طرح احتساب سے تا حیات استثنی حاصل رہے گا!
اس کو کہتے ہیں علی بابا اور چالیس چور کی داستان کو دہرانا!
یہ شق صدر کو تا حیات استثنی دینے کی یوں رکھنا ضروری سمجھا گیا کہ پیپلز پارٹی نے اس مجوزہ آئینی ترمیم کے ضمن میں کچھ ذہنی تحفظات کا ڈرامہ رچایا تھا۔ تو عاصم منیر نے ضروری سمجھا کہ زرداری کو بھی ایسا لالچ دیا جائے جسے وہ اسی طرح رد نہ کرسکے جیسے سگِ زمانہ یاگلی کا کتا اپنے سامنے پھینکی ہوئی ہڈی پر لپکتا ہے!زرداری جیسے عالمی شہرت کے مالک ڈکیت کیلئے ایک اور رشوت بھی عاصم منیر کی انٹی میں ہے اور وہ یہ کہ زرداری کی عصیاں زدہ زندگی کا اب سب سے بڑا ہدف اور خواب یہ ہے کہ اس کا خواجہ سرا بیٹا، بلاول، کسی بھی طرح پاکستان کا وزیر اعظم بن جائے۔ تو عاصم منیراپنا الو سیدھا کرنے کیلئے بلاول کو وزیر اعظم بنا دے گا۔ یہ تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا۔ ویسے اس کے نظامِ جبر میں وزیر اعظم کی حیثیت ایک اردلی سے زیادہ نہیں ہے۔ ہاں بوٹ پالشئیے شہباز شریف کو ہشیار رہنا چاہئیے کہ اس کی مسندِ اقتدار کسی بھی لمحہ اس کے نیچے سے نکالی جاسکتی ہے!منصوبہ ساز تو یہ بھی چاہتے تھے کہ ہر وزیرِ اعظم کو بھی تاحیات مواخذہ سے استثنی مل جائے لیکن جب شیطانی دماغوں میں یہ آیا کہ اس سے تو عمران خان کو بھی استثنی مل جائے گا تو یہ شق نکال دی گئی۔شیطان کا چیلا عاصم منیر یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ جب تک اسے وقت کے سب سے بڑے فرعون کی آشیر واد حاصل ہے وہ ہر مواخذہ سے محفوظ ہے لیکن نادان یہ بھول بیٹھا ہے کہ فرعون وقت پڑنے پر جس گدھے کو باپ بنالیتا ہے کام نکل جانے پر اسے استعمال شدہ کلینکس سمجھ کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیتا ہے۔ عاصم منیر میں اگر فراست کی کوئی رمق بھی ہوتی تو اس کی آنکھیں کھل جانی چاہئیے تھیں اسی گھڑی جب اپنے پسندیدہ فیلڈ یا فراڈ مارشل کے ساتھ کوئی اتحاد کرنے کے بجائے اس نے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سرکار کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا تھا! یہ سب کچھ ابلیسی کارندے کر رہے ہیں لیکن پاکستانی قوم اس بلا کی بے حس ہے کہ اس کے کانوں پر کوئی جوں نہیں رینگ رہی، اس کی آنکھوں پر غفلت کی پٹی ایسی دبیز ہے کہ اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ یہ قوم ایسی غفلت شعار ہے کہ اگر صور بھی پھونکا جائے تویہ غافل ہی رہےگی۔ اسے اٹھانے کا نسخہ تو اللہ کے پاس ہی ہوسکتا ہے کہ وہ قادرِ مطلق ہے اور ہر ابلیس یا ابلیسی چیلا، جیسے عاصم منیر، اس کے سامنے بے بس اور بے دست و پا ءہوجاتا ہے !تو دیکھتے رہئیےکہ پاکستان کی بے حس قوم ان شیطانی طالع آزماؤں کے ہاتھوں اور کیا زک اٹھاتی ہے ۔ ان کے شر سے کیسے محفوظ رہ سکتی ہے۔اس بزدل طالع آزما، عاصم منیرنے اس ملکِ خداداد پاکستان کی سالمیت کو داؤ پر لگا دیا ہے صرف اور صرف اپنی ہوسِ اقتدار کی خاطر۔ اس سے بڑا دشمنِ پاکستان تو ملک و قوم کو اس سے پہلے ملا ہی نہیں تھا۔ اللہ ہی اس کم ذات کے شر سے ملک و قوم کو محفوظ رکھے۔
اس حافظِ قرآن کو کیا نام دیا جائے
جو تارکِ قرآن ہے، ملت فروش ہے
جو ظلم کو اور جور کو ہتھیار بنائے
ظالم جہنمی ہے نوائے سروش ہے !



