ڈونلڈ ٹرمپ اور ظہران ممدانی!

صدر ٹرمپ ایک طویل عرصے سے ظہران ممدانی کو ایک انتہا پسند‘ کمیونسٹ اور نیویارک سٹی کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے کئی مرتبہ نو منتخب مئیر کی شہریت منسوخ کر کے انہیںڈیپورٹ کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ ظہران ممدانی نے جون کے مہینے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے داخلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اسکے بارے میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر نیویارک نے ایک کمیونسٹ کو میئر منتخب کیا تو وہ اس شہر کو وفاقی حکومت کی طرف سے ملنے والے اربوں ڈالرز کے فنڈز روک لیں گے۔انکا خیال تھاکہ لوگ اس دھمکی سے گھبرا کر اپنے پسندیدہ امیدوار کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں گے مگر ایسا نہ ہوا اور ظہران ممدانی چار نومبر کے انتخاب میں بھاری اکثریت سے میئر منتخب ہو گئے۔ اس شہر کی طاقتو رااشرافیہ نے اپنی پوری طاقت استعمال کر کے ایک چونتیس سالہ نوجوان کو شکست دینے کی کوشش کی مگر اسے منہ کی کھانی پڑی۔ ممدانی کے دشمنوں میں صدر ٹرمپ‘ ریپبلیکن پارٹی‘ نیویارک سٹی کی اسٹیبلشمنٹ‘ وال سٹریٹ کے کرتا دھرتائوں کے علاوہ انکی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے با اثر لوگ بھی شامل تھے مگر یہ سب ملکر بھی اسکا راستہ نہ روک سکے۔ نیو یارک سٹی کو اس لیے دنیا کا کلچرل کیپٹل کہا جاتا ہے کہ اس میں ہر رنگ‘ قومیت‘ نسل اور مذہب کے لوگ بستے ہیں۔ ساڑھے آٹھ ملین لوگوں کے اس شہر نے پہلی مرتبہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان نوجوان کو میئر منتخب کیا ہے۔ ظہران ممدانی کے والدین 1998 میں یوگنڈا سے امریکہ آئے۔ اسوقت ظہران ممدانی کی عمر سات برس تھی۔ امریکہ کی شاندار اور مہنگی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ظہران 2020 میں نیویارک کی سٹیٹ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ یکم جنوری کو نیو یارک سٹی کے مئیر کا حلف اٹھانے کے بعد انہیں اس شہر کے 116 بلین ڈالرز کے بجٹ کو استعمال کرنے کے علاوہ تین لاکھ سرکاری ملازمین کی کارکردگی کی نگرانی بھی کرنا ہو گی۔
ظہران ممدانی ایک سال سے زیادہ طویل انتخابی مہم کے دوران کھل کر صدر امریکہ کی مخالفت کرتے رہے۔ انکے اس جارحانہ طرز عمل کی وجہ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کو عوامی مقبولیت اور صدارتی منصب تک پہنچانے میں انکے آبائی شہر نیویارک نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس شہر کی رئیل سٹیٹ بزنس کی وجہ سے ارب پتی بننے والے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے شہر کی کاروباری اشرافیہ کا اہم حصہ ہیں۔ ظہران ممدانی اپنی انتخابی مہم میں اس ایلیٹ کلاس کو مسلسل نشانہ بناتے رہے ہیں۔ انکے میئر منتخب ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس شہر کی نئی نسل کی مشکلات‘ محرومیوں اور امیدوں کی ترجمانی کی ہے۔ انکے جوشیلے انداز خطابت اور سوشل میڈیا کے موثر استعمال نے دیکھتے ہی دیکھتے انہیں ایک ہر دلعزیز لیڈر بنا دیا۔ ممدانی نے بہت جلد یہ کھوج لگا لیا کہ نیویارک کی کمر توڑ مہنگائی نے اسے ورکنگ کلاس کے علاوہ متوسط طبقے کے لیے بھی ایک مشکل اور صبر آزما شہر بنا دیا ہے۔ اسکی تہہ میں چھپی ہوئی عدم مساوات اسے کھوکھلا کر رہی ہے۔ اس تحقیق کی بنیاد پر انھوں نے جو ایجنڈا پیش کیا اس نے بہت جلد محنت کشوں کے علاوہ مڈل کلاس کو بھی متوجہ کر لیا۔ جس شہر میں کرایہ‘ گروسری‘ بچوں کی تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کے لیے ہر فیملی کو سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر کی آمدنی کی ضرورت ہو وہ ترقی کی دوڑ میں زیادہ دور تک نہیں جا سکتا۔ ممدانی کے پیش کردہ ایجنڈے میں بچوںکے لیےDay Careکی مفت سہولت‘ ایسے دو لاکھ گھروں کے کرایوں کو فریز کرنے کا وعدہ جن کا تقریباً نصف کرایہ سٹی گورنمنٹ ادا کرتی ہے‘ گروسری کی قیمتوں میں کمی کے اقدامات اور بسوں میں مفت سفر کی سہولت شامل ہیں۔ اس ایجنڈے کے بل بوتے پر ظہران ممدانی میئر کا الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
انتخابی نتائج آنے کے چند گھنٹوں بعد بروکلین کے فلیٹ بش ایونیو پر واقع شاندار پیرا مائونٹ تھیٹر کے سٹیج پر وکٹری اسپیچ کے دوران انہوں نے کئی مرتبہ صدر ٹرمپ کو مخاطب کیا۔ اپنے ووٹروں کا شکریہ ادا کرنے کے بعد انہوں نے جو بات کی اس پر تا دیر تالیاں بجتی رہیں۔ ممدانی نے کہاDonald Trump since I know you are watching, I have four words for you. Turn the volume up. (اگلے روز وائٹ ہائوس کی پریس سیکرٹری کیرولن لیوٹ سے پوچھا گیا کہ کیا صدر ٹرمپ ظہران ممدانی کی تقریر سن رہے تھے تو انہوں نے جواب دیاMr Trump was indeed watching.۔)فتحمندی سے سرشار نو منتخب میئر نے تالیوں کی گونج میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے زوال کا آغاز اسی شہر سے ہو گا جس نے انہیں شہرت اور طاقت کے عروج تک پہنچایا۔ اس شہر کے واقفانِ حال ان دونوں کی مخاصمت کے بارے میں ایک مختلف رائے رکھتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ نیویارک اگر قلاش ہو گا تو اسکا نقصان صدر ٹرمپ کو بھی اٹھانا پڑے گا ۔ اس شہر میں انکے اور انکے دوستوں اور رشتے داروں کے اتنے کاروبار ہیں کہ وہ اسے ناکام نہیں ہونے دیں گے۔ اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوے صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ نیویارک کو کامیاب ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ظہران ممدانی صدر ٹرمپ کے خلاف مقدمات قائم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ ان تمام حقائق پر سایہ فگن حقیقت یہ ہے کہ صدر ٹرمپ شاید نیویارک کو ناکام نہ ہونے دیں مگر وہ ظہران ممدانی کو ناکام کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ وہ اپنے حریفوں سے حساب برابر کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔



