ہفتہ وار کالمز

قیمت

کوئی بھی انسان اپنی قدر و منزلت کے لئے اتنا سرگرداں نہیں رہتا جتناوہ روزمرہ اشیائے کی ارزاں نرخوں کی فراہمی میں ہوتا ہے اُس کی وجہ ماہانہ یا روزانہ کی اُجرت ہوتی ہے جو اخراجات کو اپنے تنگی ٔدامن کی وجہ سے پوری طرح سمیٹ نہیں پاتی جس سے معاشرے میںپھیلی معاشی بدحواسی کی کربناک فضا تقریبا ہر موڑ پر دیکھنے کو ملتی ہے انمول انسان ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کی قیمت پانے کے لئے بڑے کرب و تحقیر کے ماحول سے گزرتا ہے اور ایسا رویہ انسان کے انمول ہونے کی نفی اس انداز سے کرتا ہے کہ طبقاتی فرق کی نمایاں شکل امیر و غریب کی صورت کو واضح کر دیتی ہے بیشک امارت و غربت اللہ تباک و تعالی کی جانب ہوتی ہے وہ جسے چاہے بیشمار و حساب اور جسے چاہے نپا تلا رزق دے مگر ساتھ اس کے اللہ تعالی کے دیگر فرمان جن میں انسانوں سے محبت کو لازم و ملزوم بتایا گیا ہے اُس کی نظر اندازی بغیر محسوس کئے ہم اس نافرمانی کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں ہم انسان سے محبت اُس کے منصب و سرمایہ کی قیمت کے لحاظ سے کرتے ہیں کسی نادار ، غریب بندے کو خاطر میں نہیں لاتے ہمارے نزدیک انسانیت سے بڑھ کر منصب و مال کی اہمیت ہوتی ہے جس سے اکثریتی انسانوں کی قیمت معیاری اخلاق کے لباس میں نہیں ملتی تضحیک و تحقیر کے لہجے سننے والوں کو اوقات و قیمت سے آگاہی دے دیتے ہیں ظہران ممدانی مئیر نیویارک جو ابھی ابھی اچھی اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں اُن کے مخالفوں میں بڑی طاقتوں والے سرمائے دار انھیں حقارت کے درجے پر رکھ رہے تھے میرے اللہ کی جانب سے فتح نے ممدانی کو انمول کر کے یہ واضح کر دیا کہ دنیا کی کوئی طاقت بھی اللہ کے فیصلے کو نہیں بدل سکتی ظہران ممدانی کی ایک جو انٹرویو میں انھوں کہی کہ ریاست کاکام اُس کے شھریوں کوبنیادی ضروریات کی سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن انسانوں کی تباہی پر ان وسائل کا ضیاع کرنا کسی طور مناسب نہیں ۔اس باتوں سے اخذ یہ ہوتا ہے کہ انسانی جانیں دنیا کا بہترین سرمایہ ہیں انھیں کوئی بھی ریاست بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے استعمال کرے اُن پر ظلم تشدد کر کے اُن پر بم گرا کر اُنھیں شہید کر دینا کسی صورت بہتر نہیں ہے ہم مقبوضہ کشمیر اور غزہ کی صورت ِ حال کا جب ایک سرسری سا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں وہاں مسلمانوںکے جان و مال کی قیمت نہیں ملتی اُنھیں حقارت و نفرت کے شعلوں میں جلانا ،اُنکے اظہار آزادی پر اُن کی مذہبی رسومات کی ادائیگی پر رکاوٹیں کھڑی کرنا انسانیت سوز سلوک ہے جسے ایک عام غیر جانبدار آدمی بھی محسوس کر سکتا ہے گلا دبانے والے کا جرم تو سامنے نہیں لایا جاتا لیکن جس کا گلا دبانے سے آنکھیں باہر آتی ہیں اُسے مجرم تصور کر لیا جاتا ہے انصاف کا ناپید ہونا یا انصاف کے فیصلوں کا بڑی طاقتوں کے حبس ِ بیجا میں ہونے سے حقوق کے حصول کی جنگ ختم نہیں ہوتی بلکہ جو جہدوجہد جاری ہوتی وہ اپنی کاوشوں میں انصاف کے حصول کو جانوں کی قربانی دے کر حاصل کرتی ہے جس سے عملی طور پر انصاف کی بیش قیمت شکل دیکھنے کو ملتی ہے آج ہم بہت ساری سچائیوں سے ،حقوق سے نا آشنا کسی بھی اندھیرے کو روشنی سمجھ کر اُس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اُس کے لئے اپنی ساری توانائیاں بروئے کار لا رہے ہیں مگر وطن ، ریاست کی بہتری کے لئے سوچیں ،منصوبے عملی جہدو جہد یہ سب مفادات ِ ذاتی کے زنداں میں ہیں جہاں ذاتی مفادات کی قیمت کو فروغ کی جہدوجہد ہو وہاں حب الوطنی بھی دم توڑ دیتی ہے اسی لئے کہتا ہوں کہ ریاست کو صرف سیاست کے حوالے نہیں کیا جا سکتا اُس کی نگہبانی کے لئے فوج کا بالا دست ہونا ضروری ہے قیمت سیاست کی نہیں ریاست کی ہونی چائیے ہمیں اپنی اس ارض ِ پاک کے لئے مولانا مودودی مرحوم کی بات یاد آتی ہے کہ انھوں نے فرمایا تھا کہ اس ملک میں آپ کو قرآن و سنت کا قانون نافذ کرنا ہو گا ورنہ یہ ملک اپنے وجود کا جواز کھو بیٹھے گا گویا اس اسلامی فصل ِ گل کو پروان چڑھانا ہمارا مقصد ِ حیات ہونا چائیے بصورت ِ دیگرہمیں کہیںکم قیمت خس و خشاک نہ سمیٹنا پڑ جائے بس دھیان سے اب نظام ِ سلطنت کو معاشی لحاظ سے بہتر کرنا ناگزیر ہے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button