ہفتہ وار کالمز

کون زیادہ قصور وار؟

میں آج شام ہی پاکستان کی ایک نیوز چینل پر خبریں سن اور دیکھ رہا تھا۔ پروگرام کے دوران نیوز چینل کے ایک نمائندے نے ایک رپورٹ دکھانی شروع کی۔ وہ رپورٹ اس نے شہر کے ایک بڑے بازار میں دکانداروں اور خریداروں سے باتیں کرکے مرتب کی تھی۔ ! اس نے بازار کے دکانداروں سے پوچھا کہ ان کا کاروبار کیسا چل رہا تھا۔ ہر دکاندار نے جواب میں یہ کہا کہ کاروبار میں مندے کا شدید رجحان تھا اور گاہکوں کے انتظار میں اکثر انہیں کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑ رہا تھا۔ خریدار ان کی آراء میں یوں بازاروں کا رخ نہیں کر رہے تھے کہ ان کی جیب انہیں اجازت نہیں دے رہی تھی۔ مہنگائی نے بنیادی ضروریات کی چیزوں تک رسائی کٹھن بنادی تھی لہٰذا کپڑے، لتے، جوتے اور دیگرضروریات پر خرچ کرنے کیلئے ان کے پاس وسائل ہی نہیں تھے تو وہ ایسی دکانوں کا رخ کرکے اپنے آپ کو شرمندہ کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ نمائندے نے جن خریداروں اور گاہکوں سے پوچھا تو زیادہ ترکا جواب یہی تھا کہ ہوشربا مہنگائی نے ان کی کمر توڑ دی تھی! ایک خریدار جو اسکوٹر پر سوار تھا اور اس نے اسکوٹر پر اپنے دو بچوں کو بھی بٹھا رکھا تھا اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اس کی جیب اس کی استطاعت رکھتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو کپڑے اور جوتے دلوانے کی عیاشی کر سکے۔
نیوز چینل کے نمائندے نے اسے بتایا کہ وہ پہلا شخص تھا جس یہ کہا کہ اس کی جیب بھاری تھی اور وہ مہنگائی کے بار کو سہہ سکتا تھا جبکہ دیگر لوگوں کا یہ خیال تھا کہ ملک کی معیشت تباہ حالی کی طرف گامزن تھی۔ جس کے جواب میں اس شخص کا کہنا یہ تھا کہ حالات تو ٹھیک سمت میں ہی جارہے تھے۔ اس نے نمائندے کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ موجودہ نظامِ حکومت سے مطمئن تھا اس کا جواب تھا کہ نظام بھی ٹھیک ہی چل رہا تھا! سینکڑوں لوگوں کی آراء کے خلاف اس ایک فردِ واحد کا خیال اور رائے اس طبقہ کی نمائندگی کرتا ہے جنہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ قوم کے افراد کن مصائب سے گذر رہے ہیں، کیا کچھ جھیل رہے ہیں، اگر اس کے حالات ٹھیک ٹھاک ہیں تو وہ مطمئن ہے ۔ صرف مطمئن ہی نہیں ہے بلکہ ان ظالموں کے شیطانی کرتوت بھی اس کی نظر میں جائز ہیں جو پاکستان کے کڑوڑوں عوام کی امنگوں کو دن و رات چکنا چور کر رہے ہیں اور جنہوں نے ملک پر ایسا نظامِ جبروت و طاغوت مسلط کردیا ہے جس نے پاکستانی عوام کی غالب اکثریت کی زندگی کو غلاموں سے بدتر کردیا ہے اور پاکستان کو ایک ایسی فسطائی ریاست میں بدل دیا ہے جس نے انصاف و عدل پر قادر اداروں کو بھی اپنا محکوم بنادیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک سے انصاف و عدل ایسے غائب ہوگیا ہے جیسے کبھی اس کا وجود ہی نہ رہا ہو! وہ جو داناؤں کا قولِ صادق ہے کہ ظلم پر خاموش رہنا بھی ظالم کا ساتھ دینا ہے اور جو ظالم کا ساتھ دے یا اس کے ظلم و طاغوت کو تقدیر کا فیصلہ قرار دے وہ ظالم کو مزید ظلم کیلئے شہ دے رہا ہے! تو یہ کہنا کہ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت یا تو اپنی خاموشی سے ظالم یزید کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں یا پھر اس کے حق میں، اس کی صف میں کھڑے ہوکر اپنے ہی بھائی بند پر ظلم و تعدی کو مزید ہوا دے رہے ہیں! تو کیا تعجب ہے جو رانا ثنا جیسا بھانڈ ( میں اس کم ظرف چھٹ بھیئے کے نام کے ساتھ اللہ کا لاحقہ کبھی نہیں لگاتا اسلئے کہ اس جیسے شاگردِ شیطان کو ثنا اللہ کہنا اللہ کی شان میں گستاخی
ہے) اپنے مربی یزید عاصم منیر کو حضرت خالد بن ولید سے ملا رہا ہے اور یہ ہرزہ سرائی کر رہا ہے کہ عاصم منیر جیسے کائر اور بزدل کی بہادری اور دلیری خالد بن ولید کی یاد دلاتی ہے اس بھانڈ کو! رانا ثنا جیسا جرنیلوں کے در کا بھکاری تو اپنی مسندِ اقتدار کیلئے ظاہر ہے کہ ان کا مرہونِ احسان ہے لیکن تعجب اور حیرت تو مفتی تقی عثمانی پر ہے جن کے خیال میں عاصم منیر جیسا ملت فروش اور ٹرمپ کا خاکروب عالمِ اسلام کے مفاد میں جہاد کر رہا ہے لہٰذا ان کے فتوی کے مطابق اس کے کردار پر تنقید کرنے والا دائرہء ٔاسلام سے باہر ہوجائے گا! اللہ اللہ۔ ایسے دین فروش ملا جب یزیدی ٹولہ کا ساتھ دیں اور یزید کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہوں تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے!
ایک اور ہے پانچوں عیب شرعی دین فروش ملا، طاہر اشرفی (لاحولِ ولاقوہ ) جو عاصم منیر جیسے وطن دشمن کیلئے اس حد تک گرسکتا ہے کہ اس کے بقول اگر عاصم منیر کے ایک ہاتھ پر جنت اور دوسرے ہاتھ پر مدتِ ملازمت میں توسیع رکھی جائے تو وہ جنت کو ٹھکرا دے گا کیونکہ وہ پاکستانی قوم کی خدمت کا وہ بے پناہ جذبہ رکھتا ہے جس کے سامنے جنت بھی ہیچ ہے! یہ ہیں پاکستانی قوم کے سیاسی اور دینی نمائندے جن کے ضمیر جنسِ بازاری ہیں اور جو دنیاوی منفعت کیلئے اپنے ضمیر اور دین کا یوں بے شرمی سے سرِ عام نیلام لگارہے ہیں! دوسری طرف عاصم منیر کے یزیدی ٹولہ کا وہ ہدف برقرار اور سلامت ہے کہ عمران خان کو کسی بھی طرح جیل کی سلاخوں سے آزاد نہ ہونے دیا جائے۔سو اسی ایجنڈا کے حصول کیلئے جو ابلیسی کھیل یہ شر پسند ٹولہ عمراں کا تختہ الٹنے کے بعد سے کھیلتا آیا ہے اس کی حدود میں مسلسل توسیع ہوتی جارہی ہے!اس ابلیسی ایجنڈا میں سرِ فہرست یہ شیطانی عمل ہے کہ عمران کی تحریکِ انصاف کی صفوں میں انتشار پیدا کیا جائے اوراس کیلئے جرنیلوں کے گماشتے ٹروجن ہارس بن کے ان کے مذموم کام کو آگے بڑھا رہے ہیں!
تحریکِ انصاف منتشر ہے اس کی سب سے بڑی وجہ تو عمران کی جبری نظر بندی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یزیدی ٹولہ کا مہلک ترین ہتھیار یہ ہے کہ عمران کو اپنے ان ساتھیوں اور نائبوں سے ملنے نہ دیا جائے جو اس کے ہمنوا ہیں اور اس کی ہدایات پارٹی کی صفوں میں پہچا سکتے ہیں۔ ایک اور ہتھیار جسے یزیدی اپنی ابلیسی کارروائیوں کیلئے آزماتے چلے آرہے ہیں وہ یہ ہے کہ اپنے گماشتوں کے مشکوک بیانات کو الم نشرح کیا جائے تاکہ پارٹی کے وفادار اور جانثار گو مگو کی کیفیت میں رہیں اور انہیں یہ ہی نہ پتہ چلنے دیا جائے کہ ان کا قائد، عمران خان، کیا چاہتا ہے اور اس کی منشاء کیا ہے! فواد چودہری پاکستانی سیاست کی زبان میں ایک معروف لوٹا ہے۔ یہ تھالی کا بینگن رنگیلے پرویز مشرف کے دورِ آمریت سے اپنی شیطانی حرکتوں اور کرتوت کیلئے بدنام ہے۔ ظاہر ہے کہ بدکرداری کے اس مرتبہ پر فائز گماشتہ یزیدی ٹولہ کیلئے کیا خدمات انجام نہیں دے سکتاسو اب فواد چودہری جیسے رسوائے زمانہ گماشتے کو یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ یہ گمراہ کن پروپیگنڈا کرے کہ تحریخ، انصاف کے ممتاز اراکین، ڈاکٹر یاسمین راشد اور شاہ محمود قریشی جیسے عمران کے وفادار، اس کے حق میں ہیں کہ حکمراں ٹولہ کے ساتھ بات چیت کا دور شروع کیا جائے اور بقول اس ابلیسی گماشتے کے سیاسی درجہء حرارت کو کم کیا جائے! شاہ محمود قریشی نے تو اپنے وکیل کے ذریعہ اس یزیدی گماشتہ کے ڈھول کا پول کھول دیا ہے اور اس کی شیطانیت کی کھل کے مذمت کی ہے لیکن بےغیرت اور بے شرم تو بہت موٹی کھال کے ہوتے ہیں اور اس قول کی تصویر بن کر سامنے آتے ہیں کہ دوچار گالیوں سے ان کی عزت پر کوئی حرف نہیں آتا اور دس بیس کوئی شریف آدمی دیتا نہیں! عاصم منیر جیسا ملت فروش جو ٹرمپ کا ایسا غلام ہے کہ پاکستان کو اس کرائے کی فوج میں شامل کرنے کیلئے ہمہ تن آمادہ ہے جو غزہ کے مظلوموں کی اسرائیل غلامی کو یقینی بنائے گی اور اس کے ساتھ ہی یہ یزید بے چین ہے کہ کب اس کا آقا حکم دے تو یہ اسرائیل کو تسلیم کرلے۔ اس یزید کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مذموم کام میں جماعت اسلامی کے نام نہاد امیر، حافظ نعیم بھی شامل ہوگئے ہیں، انہوں نے کراچی میں جلسہ کرنےکیلئے وہ تمام شرائط بے چون و چرا مان لی ہیں جن کا مطالبہ یزیدی ٹولہ کی طرف سے کیا گیا تھا۔ سو بظاہر تو یہ جلسہ جمہوریت کی بحالی کیلئے کیا جارہا ہے لیکن جرنیلوں کی اس شرط پر کہ جلسہ میں تحریکِ انصاف یا عمران کا نام بھی نہیں لیا جائے گا اور تحریک، انصاف یا عمران کے حق میں کوئی نعرہ نہیں لگے کا!
کتنے خائف ہیں یہ بزدل، پلاٹوں اور کارخانوں کے مالک جرنیل۔ ان کو جرنیل کہنا اس مرتبے کی توہین ہے۔ یہ بنیئے تو کرخندار کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں!اور ان کے منہ پرتحریکِ انصاف کے حامی وکیلوں نے سردار لطیف کھوسہ کی قیادت میں لاہورہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کیا بھرپور طمانچہ رسید کیا ہے جو انہوں نے بار کی نوے (90) نشستوں میں سے اٹھاسی (88) نشستیں جیت لی ہیں۔ کم از کم لاہور کے غیرت مند اور حریت پرست وکلاء نے تو یہ ثابت کردیا کہ عدالت کی مسندوں پر بیٹھے ہوئے انصاف فروش ججوں کے مقابلہ پر ان کی غیرت کا جذبہ تو سلامت ہے۔ اللہ انہیں اور ان کے عزم و حوصلہ کو مزید تقویت دے! لیکن یزیدی ٹولہ اس وقت تک پاکستانیوں کے سینے پر مونگ دلتا رہے گا جب تک عوام اسی طرح بیدار نہیں ہوجاتے جیسے بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کے غیور عوام نے اپنے پر ظلم کرنےوالے ملت فروشوں کو دیس نکا لا دیکر اپنے زندہ ہونے کا بھرپور ثبوت دیا! تو اپنی قوم کی نذر یہ چار مصرعہ ہیں اور ان میں سے آواز دیتے ہوئے سوالات ہیں:
؎طالع آزماؤں کو کتنا آزماؤگے
جتنا آزماؤگے اور زک اٹھاؤگے
سادہ لوحی کی یارو کوئی حد بھی ہوتی ہے
ان وطن فروشوں سے کیوں فریب کھاؤگے ؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button