ہفتہ وار کالمز

ظہران ممدانی! امریکہ کی تاریخ میں باراک حسین اوبامہ کے بعد دوسرا سنگ میل۔ مگر فرق واضح ہے!

2009ء سے پہلے امریکہ میں کسی شخص نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن اس بلیک اینڈ وائٹ میں منقسم ملک میں ایک سیاہ فام شخص بھی امریکہ کا صدر بن سکتاہے۔ آج سے سولہ سال قبل کینیا کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک سیاہ فام امریکی شہری باراک حسین اوباما نے 44ویں امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ باراک اوباما کی والدہ ایک امریکی شہری تھیں جبکہ ان کے والد کا تعلق کینیا کے سیاہ فام خاندان سے تھا۔ باراک اوباما کی شہریت اور مذہب کے حوالے سے اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگوں نے سوالات اٹھائے مگر انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور یہ شخص نہ صرف ایک بلکہ دو ٹرم کیلئے امریکہ کا صدر تھا۔ باراک اوباما کی طرح سے ہی امریکہ کے سب سے بڑے شہر اور دنیا کے فنانشل ح
حَب نیویارک میں بھی ایک غیر ملکی نژاد شہری ظہران ممدانی نے میئر منتخب ہو کر امریکی تاریخ میں ایک اور نئی تاریخ رقم کر دی۔ ظہران کی والدہ کا تعلق انڈیا کے ہندو گھرانے سے ہے جبکہ والد کا تعلق سائوتھ افریقہ کے ایک مسلم گھرانے سے جبکہ اہلیہ کا تعلق شام سے ہے لیکن دونوں میں فرق واضح ہے۔ باراک اوباما کے والد بھی مسلم تھے مگر ان میں اتنا حوصلہ نہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو مسلم کہلوانے میں فخر محسوس کرتے حالانکہ ان کے نام کے ساتھ ان کے والد کا مسلمان نام حسین بھی لگا ہوا تھا۔ ہم سب کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ بظاہر اوپن مائنڈ نظر آنے والی امریکی قوم اندر سے بڑی قدامت پسند ہے۔ جس ملک میں آج تک کوئی خاتون امریکی صدارت نہ جیت سکی ہو اور ماہرین کے مطابق اگلے تین سو سالوں تک بھی امریکہ میں کسی خاتون امریکی صدر کے جیتنے کے کوئی چانسز نہیں ہیں تو ایسے میں باراک حسین اوبامہ کاپھونک پھونک کر قدم رکھنا سمجھ میں آتا ہے مگر اب ظہران ممدانی کے جیتنے کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ باراک حسین اوبامہ بہت جلد چک آئوٹ ہو گئے تھے، وہ یہودی لابی سے بھی بہت ڈرے ہوئے تھے اور کبھی اسرائیلی ریاست دہشت گردی کی مذمت نہیں کر پائے۔ اس کے برعکس ظہران ممدانی نے پہلے ہی دن سے یہودی دہشت گردی کی مذمت کی اور یہاں تک اعلان کر دیا کہ اگر اسرائیلی وزیراعظم نیویارک آئے تو بین الاقوامی طور پر نکلے ہوئے انٹرنیشنل وارنٹ کے تحت وہ نیتن یاہو کو گرفتار کرادیں گے جبکہ ان کے ووٹرز اور نیویارک کے شہریوں کی بڑی تعداد یہودیوں پر مشتمل ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ملین سے زیادہ ووٹوں میں ان یہودیوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے جنہوں نے ظہران ممدانی کو کامیاب کرایا۔ نیویارک کے بائیس بلین مین طبقے نے ظہران ممدانی کے مدمقابل امیدوار کومو کو سپورٹ کرنے کاا علان کیا تھا۔ صدر ٹرمپ اور ایلان مسک نے بھی اینڈریو کومو کی حمایت کا اعلان کیا تھا بلکہ صدر ٹرمپ نے تو یہاں تک اعلان کر دیا تھا کہ اگر ظہران ممدانی جیت گیا تو وہ نیویارک کی فنڈنگ روک دیں گے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ نیویارک میئر ٹو میئر کا مقابلہ نہیں بلکہ میئر ٹو پریزیڈنٹ کا مقابلہ ہے یعنی ظہران ممدانی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مقابلہ ہے۔ ہمارے یہاں آپ نے اکثر دیسیوں کو دیکھا ہو گا کہ وہ اپنے دیسی ناموں کو امریکنزائزڈ کر لیتے ہیں جیسے اسلم ہے تو وہ سام ہو جائے گا، پرویز ہے تووہ پریز ہو جائے گا ،سلیم ہے تو وہ سیلم ہو جائے گا، ہارون ہے تو وہ ہیری ہو جائے گا، دو وجوہات اس کے پس منظر میں پیش کی جاتی ہیں ایک تو یہ کہ احساس کمتری کو کہیں وہ امتیاز سلوک کا سامنا نہ کریں اور امریکن مذاق نہ اڑائیں ،دوسرا یہ کہ ہمارے نام سے کہیں ہماری شناخت نہ واضح ہو جائے کہ ہم مسلم ہیں۔ اس کے برعکس ظہران ممدانی نے پہلے دن سے اپنے نام کو فخر سے بیان کیا بلکہ وکٹری والی رات انہوں نے صدر ٹرمپ کو براہ راست مخاطب کر کے کہا کہ میں مسلم ہوں، میں امیگرینٹ ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے کیونکہ ٹرمپ اکثر ممدانی کے نام کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ بہرحال ظہران ممدانی کا مقابلہ صرف اینڈریو کومو سے نہیں تھا بلکہ اس کا مقابلہ ہر اس ٹرمپ جیسے قدامت پسند، رجعت پسند اور امتیازی سلوک کے پرچاری سے تھا جو مذہب، رنگ، نسل کی بنیادوں پر لوگوں کو تولتا تھا۔ ظہران ممدانی کے منتخب ہو جانے سے نہ صرف قدامت پسندوں کو بلکہ ری پبلکنز کو بھی ایک بڑی شکست حاصل ہوتی ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ ماضی میں اب کوئی اور نیا ٹرمپ نہیں پیدا ہو گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button