ہفتہ وار کالمز

سانپ اپنےبچے کھا رہا ہے!

سانپ کے بارے میں یہ کہاوت بہت مشہور اور معروف ہے کہ بھوک میں وہ اپنے ہی بچے کھاجاتا ہے۔ایسے ہی انقلاب کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انقلاب اپنے بچے کھانے میں کوئی تکلّف نہیں
کرتا اور اس کی بہترین یا بدترین مثال اٹھارویں صدی کے انقلابِ فرانس کی ہے جس کے ضمن میں، انقلاب برپا ہونے کے بعد برسوں تک فرانس کی سرزمین پر خون بہتا رہا اور انقلاب لانے والے ہی زیادہ تر اس کے شکار ہوئے! یہ سطور 26 اور 27 اکتوبر کی درمیانی شب میں لکھی جارہی ہیں اور پاکستان کی داغدار اور المناک تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے عسکری طالع آزما اوربونا پارٹ، جنرل ایوب خان نے (جو بعد میں ایسے ہی خود ساختہ فیلڈ یا فراڈ مارشل ہوگئے تھےجیسے عہدِ حاضرکے بونا پارٹ عاصم منیر ہوگئے ہیں) ملک میں پنپتی ہوئی جمہوریت پر پہلا شب خون 7 اکتوبر کو اس وقت کے صدر اسکندر مرزا کے ساتھ سازش کرکے مارا تھا۔ لیکن بیس دن کے بعد ہی انہوں نے اس روایت پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے کہ انقلاب (اگرچہ ان کا جمہوریت پر کاری وار کہیں سے بھی انقلابی کہلانے کا مستحق نہیں تھا) اپنے بچوں کو سب سے پہلے کھاتا ہے اسکندر مرزا کو اقتدار سے محروم کرکے انہیں زبردستی جلاوطن کرکے لندن روانہ کردیا اور اس کے بعد وہ یکہ و تنہا پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے تھے ! ایوب خان کے گیارہ سالہ دورِ اقتدار میں 27 اکتوبر کو ، ہر سال یومِ انقلاب کہہ کر منایا جاتا تھا۔اس دن ملک میں عام تعطیل ہوتی تھی اور ایوب خان کے ملک و قوم پر احسانات کے ترانے گائےجاتے تھے!
ایوب خان نے جمہوریت کی جس بیخ کنی کو اپنا شعار بنایا تھا وہ بعد میں آنے والے عسکری طالع آزماؤں کیلئے ایسا نمونہء تقلید بن گیا جسے انہوں نے دل سے لگالیا، حرزِ جاں بنالیا۔ انگریزی میں اس کیلئے عام مستعمل اصطلاح ہے کہ طالع آزماؤں نے اسے اپنی بائبل کا درجہ دے دیا۔ ایوب خان کو بابائے قوم قطعاًپسند نہیں کرتے تھے بلکہ بابا نے یہ حکم دیا تھا کہ یہ افسر، جو بابائے قوم کی حیات میں بریگڈئیر کے رتبہ کا تھا، ان کے سامنے نہ آئے۔ بابائے قوم کی اس سنت پر پاکستانی قوم کی اکثریت ہمیشہ کاربند اور عمل پیرا رہی جس کی بہترین مثال یہ ہے کہ ایوب کے جانشین، رنگیلے یحیٰی خان کے ظلم و ستم کا جواب پاکستان کی اکثریتی نفری، یعنی بنگالیوں نے یوں دیا کہ انہوں نے پاکستان سے الگ ہوجانے میں ہی اپنے لئے بہتر مستقبل کا خواب دیکھا اور انہیں ان کے خواب کی تعبیر بھی اچھی ملی کہ آج، پاکستان سے علیحدگی کے 56 برس بعد بنگلہ دیش پاکستان کے مقابلہ پر کہیں زیادہ بہتر معاشی حیثیت رکھتا ہے اور اس میں وہ نسلی، صوبائی اور فرقہ وارانہ تضادات اور تعصبات ناپید ہیں جن کا پاکستان کو مسلسل سامنا ہے اور جنہوں نے پاکستان کو ایک فلاحی اور ترقی یافتہ ملک ہونے سے کوسوں دور رکھا ہوا ہے ! ایوب کے جانشین عسکری طالع آزماؤں نے ہر بہانے اور جواز سے فائدہ اٹھا کر پاکستان میں جمہوریت کے قافلہ کو آجتک آگے بڑھنے نہیں دیا۔ یہ نہیں کہ سبھی سپہ سالار اقتدار کے بھوکے تھے۔ نہیں کچھ انتہائی شریف النفس سپہ سالار بھی تھے جن کے پاس بھرپور موقع تھا، جواز تھا کہ وہ اقتدار کو اپنی لونڈی بنالیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا اور اقتدار پر ایوب خان جیسا شب خون نہیں مارا۔ مثال کے طور پہ جنرل مرزا اسلم بیگ کے پاس سنہرا موقع تھا کہ وہ صدر ضیا الحق کے ہوائی حادثہ کے بعد چاہتے تو بغیر کسی روک ٹوک کے ملک پر مارشل لاء مسلط کردیتے اور پاکستان کے بے تاج شہنشاہ بن بیٹھتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ غلام اسحاق خان کو، جو ضیا الحق کے بعد عبوری صدر ہوگئے تھے، یہ مشورہ دیا کہ وہ ملک میں نئے انتخابات کیلئے تیاری کریں۔ یہی وہ انتخاب تھا جس کے ذریعہ بینظیر بھٹو پاکستان کی اور عالمِ اسلام کی پہلی جمہوری وزیر اعظم ہونے کا اعزاز حاصل کرسکی تھیں۔ لیکن ہوسِ اقتدار کے مارے رنگیلے پرویز مشرف نے اپنے جہاز کی ہائی جیکنگ کو جواز بناکر نواز شریف کا تختہ الٹنے میں پل بھر کی دیر بھی نہیں لگائی۔ نواز شریف میں لاکھ عیب سہی، لوہار کا یہ لونڈا کرپشن کا بادشاہ سہی لیکن وہ پاکستانی عوام کا منتخب کردہ وزیرِ اعظم تھا جسے اسی طرح اقتدار سے محروم کیا گیا جیسے بعد میں عمران خان کے خلاف باقائدہ سازش کرکے اس سے اقتدار چھینا گیا ! پرویز مشرف کے بعد ہمارے عسکری طالع آزماؤں کے ہاتھ، بقول شخصے وہ گیدڑ سنگھی آگئی، یا الہٰ دین کا وہ چراغ انہیں مل گیا جسے رگڑ کر انہوں نے پاکستان کے نظامِ ریاست کو اپنا غلام بنالیا اور اس غلام کے ذریعہ یا اسکی مدد سے وہ مسلسل پاکستان کے چوبیس کڑوڑ جمہور کو اپنے تابع فرمان رکھے ہوئے ہیں! عسکری طالع آزماؤں کی ہوسِ اقتدار کے علاوہ ایک اور عنصر جو پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں کھودنے میں بونا پارٹوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کا وسیلہ بنا ہے وہ ہے سامراج کی غیر مشروط سرپرستی!
جہاں تک پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات اور معاملات کا سوال ہے سامراج کے ایجنڈا میں تو یہ عنصر بہت غالب رہا ہے کہ ایک آمر کے ساتھ سامراج اپنی مرضی کے معاملات کہیں آسانی سے طے کرسکتا ہے، اور پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ کرتا رہا ہے، کرتا آیا ہے، بہ نسبت ایک جمہوری قائد یا رہنما کے جو عوام کو جوابدہ ہوتا ہے ! امریکہ کی ان خفیہ دستاویزات کے مطابق، جو امریکی قانون اور روایت کے بموجب پچاس برس کے بعد پبلک پراپرٹی ہوجاتی ہیں اور کوئی بھی انہیں دیکھ سکتا اور پڑھ سکتا ہے، یہ بھید کھلا کہ طالع آزما ایوب نے امریکہ کے اس دور کے سفیر کو کراچی میں مطلع کردیا تھا کہ وہ پاکستان کے پنپتے ہوئے جمہوری نظام کے ساتھ کیا کرنے والا تھا جس کیلئے اُسے امریکی آشیرواد درکار تھی اور اسے یقین دلایا گیا تھا کہ سامراجی گرو کو اس کے منصوبہ سے کوئی تعرض، کوئی سروکار نہیں ہوگا! سامراج کی بھرپور حمایت اور سرپرستی ہی تو آج کے طالع آزما، خود ساختہ فیلڈ یا فراد مارشل عاصم منیر کے سر کا تاج بنی ہوئی ہے۔ پرویز مشرف نے ایک فون کال پر امریکہ کو طشتری میں رکھ کر پاکستان پیش کردیا تھا کہ سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے اور عاصم منیر کے سر پر جب سے امریکہ کے موجودہ صدر نے ہاتھ رکھا ہے تو ان کے تو پیر زمین پر ٹک ہی نہیں رہے۔ ان کے خیال میں انہیں زمین پر ہی جنت مل گئی ہے اور ان کی بے تاج بادشاہت کو وقت کی سب سے مضبوط طاقت نے سند عطا کردی ہے لہٰذا وہ اپنے آپ کو مکمل طور پہ اس کا حقدار سمجھنے لگے ہیں، اور ان کے اعمال و افعال سے اس کا بھرپور مظاہرہ بھی ہورہا ہے، شب و روز ہورہا ہے، کہ اب وہ اپنے خیال میں اپنے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں پاتے اور اپنے سب سے بڑے دشمن، جسے انہوں نے اپنی منتقم مزاجی کا نشانہ بنایا ہوا ہے، یعنی پاکستانی قوم کے سب سے مقبول لیڈر، عمران خان کو انہوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کیا ہوا ہے اور پاکستان کی نام نہاد عدلیہ اتنی بے ضمیر اور طالع آزما کی ہوس اقتدار کے سامنے اتنی بے بس ہے کہ وہ عمران کے حق میں کوئی فیصلہ کرنے سے بے دست و پا ہوچکی ہے اسے اب بزعمِ خود انہوں نے قصہء پارینہ بنادیا ہے ! تو پاکستان کے بے تاج بادشاہ، نشہء اقتدار سے ہر قدم، ہر گام، پہ لڑکھڑاتے ہوئے، ان دنوں قاہرہ پہنچے ہوئے ہیں تاکہ اپنے ہی رنگ میں رنگے مصر کے مردِ آہن اور عرب دنیا میں سامراجی مفادات کے سب سے معتمد اور وفادار چوکیدار، صدر سیسی کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بناسکیں ۔! امریکہ کے بے دام ان غلاموں میں بہت سی اقدار مشترک ہیں۔ سب سے بڑی قدرِ مشترک تو سامراج کی غیر مشروط غلامی ہے ان دونوں طالع آزماؤں اور آمروں میں۔ اور دونوں ایک جیسے مناظر سے اقتدار کی مسند پہ قابض ہوئے ہیں۔
مصر میں 2011ء میں عرب بہار کی جو لہر آئی تھی اس کے زیرِ اثر موجودہ مصر کی تاریخ میں پہلی بار، 2012ء کے عام انتخابات میں محمد مرسی مصری عوام کی بھرپور تائید سے ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے، جیسے عمران خان 2018ء کے پاکستانی انتخابات میں پاکستانی عوام کے رہنما بن پر ابھرے تھے۔ لیکن صدر مرسی بھی عمران کی طرح ضمیر فروش نہیں تھے اور سامراج کی غلامی انہیں بھی منظور نہیں تھی لہٰذا وہ اسی طرح سامراج کی نظر میں کھٹکنے لگے جیسے عمران اپنی صاف گوئی سے سامراج کے حلق کی ہڈی بن گیا تھا۔ مصر کی عسکری قیادت بھی پاکستانی بونا پارٹوں کی طرح امریکی مفادات کی بے دام غلام چلی آرہی ہے لہٰذا سامراج کو کوئی دقت نہیں ہوئی مقبولِ عام صدر مرسی کا جنرل سیسی کے ہاتھوں تختہ الٹوانے میں۔ صدر مرسی کو اقتدار سے صرف ایک برس بعد، 2013ء میں فوجی بغاوت کے زریعہ محروم کردیا گیا اور انہیں بھی عمران خان کی طرح جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں بند کردیا گیا جہاں چند برس بعد وہ دنیا سے چل بسے! خدا نہ کرے کہ عمران کا مرسی جیسا حشر ہو، میرے منہ میں خاک لیکن طالع آزما عاصم منیر کے منصوبہء انتقام میں یہ سرِ فہرست ہے۔ پاکستان کو اتنا کم ظرف عسکری طالع آزما اس سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا! لیکن مصر اور پاکستان کے عسکری طالع آزماؤں کے درمیان اس مماثلت اور مشترک اقدار سے بخوبی اندازہ ہوجانا چاہئے کہ عالم ِاسلام کی جڑوں میں ملت فروشی کا زہر کتنا سریع الاثر ہے اور کیسے ان بظاہر آزاد اور خودمختار ملکوں کے بونا پارٹ سامراج کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں اور سامراجی ایجنڈا کو کس بے شرمی اور بے حیائی سے فروغ دے رہے ہیں چاہے اس عمل میں ان
کی اپنی قوم اور ملک کے مفادات پر آنچ آتی ہو! فراڈ مارشل عاصم منیر کے دورہء مصر کا اصل مقصد یہ ہے کہ یہ دونوں امریکی غلام اپنی افواج غزہ بھیجنے پر آمادہ ہوجائیں تاکہ اس نام نہاد سلامتی اور مضبوطی کی بین الاقوامی فوج کا حصہ بن سکیں جو سامراجی ایجنڈا کا غزہ کے حوالے سے بنیادی ہدف ہے! سامراج کا پروردہ صیہونی وزیرِ۱عظم اسرائیل، نیتن یاہو پہلے ہی بڑے زعم سے یہ اعلان کرچکا ہے کہ اسے اس نام نہاد چوکیداری فوج میں ترک افواج کی کوئی نمائندگی قبول نہیں ہے، یوں قبول نہیں ہے کہ ترک قیادت بے ضمیر اور ملت فروش نہیں ہے، پاکستانی اور مصری قیادت کی طرح امریکی سامراج کی غلام نہیں ہے! توپاکستانی قوم کی بے حسی کا ماتم کیجئے اور کفِ افسوس ملئے کہ پاکستان پر کیا وقت پڑا ہے اور عسکری طالع آزما کے ہاتھوں اسے ابھی اور کیا کیا دیکھنے کو مل سکتا ہے!
ہیں سامراج کے پابند پاسبانِ حرم
حرم نشینوں کے ادنیٰ غلام اپنے یزید
خدایا کیسا ستم ہے یہ قوم پر میری
کہ مہریں اس کی غلامی پہ لگ رہی ہیں مزید !

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button