ظہران ممدانی اور اسلامو فوبیا

امریکہ میں مسلمانوں سے نفرت کا ایک دور گیارہ ستمبر 2001 کے بعد شروع ہوا تھا۔ اسکے بعد دوسرا دور سات اکتوبر 2023 کواسوقت شروع ہوا جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے مبینہ طور پر بارہ سو افراد ہلاک اور ڈھائی سو کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اس نفرت میں اس وقت مزید اضافہ ہواجب نیو یارک میں ایک مسلمان سیاسی لیڈر ظہران ممدانی کومئیر کے عہدے کے لیے ڈیمو کریٹک پارٹی کا امیدوار منتخب کیاگیا ۔ نیویارک کو اسرائیل کے بعد یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔ اس شہر کے ایک ملین سے زیادہ یہودی اگر کسی امیدوار کی مخالفت کا فیصلہ کر لیں تو اسکا کسی بھی الیکشن میں کامیاب ہونا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔ چونتیس سالہ ظہران ممدانی کی ڈیمو کریٹک پارٹی کے الیکشن میں کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسے نوجوان یہودیوں نے بھی ووٹ دیئے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ نیویارک کی با اثرسیاسی ‘ کاروباری اور میڈیا کی شخصیات بڑھ چڑ ھ کر ممدانی کی مخالفت کر رہی ہیں۔اس گروپ نے کئی سو ملین ڈالرز یہ انتخابی معرکہ جیتنے کے لیے لگا دئے ہیں۔ دیکھنے میں آیاہے کہ جب کبھی کوئی مسلمان امریکی سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل ہو کر مقبولیت حاصل کرتا ہے تو اسلام دشمن گروہ زورو شور کیساتھ حرکت میں آ جاتے ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی نفرت کو مسلمان اس لیے بھی محسوس کر رہے ہیں کہ اب امریکہ میں انکی دوسری نسل سرکاری اور نجی اداروں میں رفتہ رفتہ بڑے عہدوں پر فائز ہو رہی ہے۔
اس نسل نے اپنے بچپن میں نو گیارہ کے بعد کے امریکہ میں سخت تعصب اورامتیازی سلوک کو برداشت کیاہے۔ اس نےا سکولوں‘ کالجوں‘ مسجدوں اور کھیل کے میدانوں میںخفیہ جاسوسوں کی سخت نگرانی کا سامنا کیا ہے۔ اس دور میں مسلمانوں نے معمولی معاوضے کے عوض پولیس کو غلط اطلاعات دیکر اپنےہم مذہبوں کو طویل عرصے تک جیل کی کال کوٹھریوں تک پہنچایا۔ اس نسل نے پہلے ٹیلیویژن اور پھر سوشل میڈیا پر عراق ‘ شام اور افغانستان کو امریکی جہازوں کے حملوں میں تباہ ہوتے دیکھا۔مسلمان ملکوں کی یہ تباہی سرکاری اور سماجی دونوں سطحوں پر اسلامو فوبیا کا نتیجہ تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اگر چہ کہ اس نفرت کی شدت میں کمی آتی رہی مگر جونہی کوئی مسلمان امریکی سماج میں شہرت اور مقبولیت حاصل کرتا تومسلمانوں کے خلاف چھپی ہوئی نفرت سامنے آ جاتی۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ امریکی سماج اگر اتنا متعصب ہے تو اسمیں بعض مسلمانوں کو اتنی مقبولیت کیوں حاصل ہو ئی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں قانون پر سختی سے عملدر آمد ہوتا ہے۔ میرٹ کو نظر انداز کرنا کیونکہ قانون کی خلاف ورزی ہے اس لیے کسی سے اسکا حق چھیننا ایک جرم تصور ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے تمام شہریوں کو یکساں مواقعے حاصل ہیں۔ امریکہ میں مسلمان اتنی چھوٹی اقلیت ہیں کہ یہ پینتیس کڑوڑ آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں ہیںلیکن مشرق وسطیٰ کی سیاست نے انہیں غیر معمولی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے۔ یہ اہمیت ظہران ممدانی کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہوئی ہے۔ ایک طرف اسے اچانک بے پناہ شہرت حاصل ہوئی تو دوسری طرف مسلمانوں کے دشمن اسکے خلاف تلوار سونت کر میدان میں اتر آئے۔ ممدانی نے کیونکہ گھروں کے کرائے کم کرنے ‘بسوں میں کرایہ نہ لینے اور Free Child Careکے وعدے کر رکھے ہیںاس لئے اسکے مخالفین اس پر کمیونسٹ ہونے کا لیبل لگا کر یہ کہہ رہے ہیں کہ اس نے طبقۂ امراءا ور کاروباری اداروں پر بھاری ٹیکس لگا کر انہیں بھگا دینا ہے۔ جسکے بعد یہ شہر غریب ہو جائے گا۔
ظہران ممدانی اس محاذ پر بھی بر سر پیکار ہے مگر اسکی اصل اور بڑی جنگ اسلام دشمنوں کے خلاف ہے۔ مسلمانوں سے نفرت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسکی اپنی ڈیمو کریٹک پارٹی کے سرکردہ لیڈروں نے ابھی تک چار نومبر کے الیکشن میں اسکی حمایت کا اعلان نہیں کیا۔ہائوس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر حکیم جیفریز نے چند روز پہلے ممدانی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ سینٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر چک شومر نے ابھی تک اپنی پارٹی کے فرنٹ رنر کی توثیق نہیں کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں لبرل اور ترقی پسند نظریات کا پرچار کرنے والوں سے بھی ایک مسلمان کا میئر بن جانا ہضم نہیں ہو رہا۔
ظہران ممدانی کی انتخابی مہم کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے سب سے زیادہ سوالات اسرائیل ‘ یہودیوں اور غزہ کی جنگ کے بارے میں پوچھے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کے جواب میں ممدانی نے کہا ہے کہ ظاہر ہے کہ وہ مسلمان ہے اور اس نے اپنے سیاسی کیریئر میں فلسطینیوں کے حقوق کی ہمیشہ حمایت کی ہے اس لیے اسرائیل کے طرفدار اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔غزہ کی جنگ کی وجہ سے اسوقت پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ یورپ کے کئی ممالک اور امریکہ میں بھی یہودیوں کی عبادت گاہوں پر حملے ہو چکے ہیںاس لیے نیویارک کی یہودی کمیونٹی اس خوف میں مبتلا ہے کہ ممدانی میئر بننے کے بعد انکے تحفظ پر توجہ نہیں دے گا۔ انکے اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے ممدانی کئی مرتبہ Synagogues میں جا کر یہودی عبادت گزاروں کو اپنے تعاون کا یقین دلا چکا ہے مگر سوشل میڈیا پر ابھی تک اسے یہود مخالف دہشت گرد(Antisemetic terrorist) کہا جا رہا ہے۔ یہ طے ہے کہ نیویارک سٹی کا مئیر بننے کے بعد ظہران ممدانی کو پہلے سے کہیں زیادہ اسلامو فوبیا کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اس نے کہا ہے کہ اس نےزندگی بھر اس نفرت کا سامنا کیا ہے اور وہ ہمیشہ اسکے لیے تیار رہتا ہے۔



