مریدکے میں سفاکیت : ذمہ وار کون؟

بھائیو اور بہنوں۔ پاکستان کو،ما سوائے چند کے، ہر وہ شخص ڈس رہا ہے جس کے پاس یا عہدہ ہے یا کُرسی ہے یا سرکاری نوکری ہے۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بے غیرت اور بے ضمیر لوگ کہتے ہیں کہ وہ وطن کی خدمت کر رہے ہیں، لیکن وہ وطن کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں۔عام تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ جی ہم تو کچھ نہیں کرتے، یہ سب خاکی وردی والے کرتے ہیں یا کرواتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہی صورت احوال ہو لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کیوں ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں؟
پبلک ہے سب جانتی ہے۔ اس سارے معاملے کا پس منظر چند لفظوں میں یہ ہے کہ اسرائیل کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ کسی ایسے اسلامی قائد کو زندہ نہیں چھوڑا جائے گا جو مسلم امہ کو متحد کرنے کو کوشش کرے گا۔اسی فیصلہ کا نتیجہ تھا کہ سادات کو قتل کیا گیا۔ کرنل قدافی اور عراق کے صدام حسین کی حکومتیں ختم کی گئیں۔ اب اس منظر نامہ میں پاکستان کے مقبول عام قائد عمران خان ابھرنے لگے۔ چنانچہ ان کو ختم کرنے کا منصوبہ بننے لگا۔ اس کے لیے امریکہ کی غلام پاکستانی فوجی قیادت اور سیاسی ضمیر فروشوں کو پیش کش کی گئی کہ اگر وہ ساتھ دیں تو عمران خان کو سیاسی میدان سے اٹھا لیا جائے گا۔ اس کو قتل شاید اس لیے نہیں کیا گیا کہ اس کا سسرال ایک بااثر برطانوی یہودی خاندان ہے اور جمائمہ نہیں چاہتی ہو گی کے اس کے بچوں کے باپ کو قتل کر دیا جائے۔
یہ سب کو معلوم ہو چکا تھا کہ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتیں اب عوام میں مقبول نہیں رہی تھیں۔ تحریک انصاف سب سے مقبول تھی،لہٰذا اس کو ختم کرنا ضروری تھا۔ چونکہ امریکہ بہادر کے سالے کی یہی خواہش تھی کہ کچھ بھی کرو، عمران خان وزیر اعظم نہ بنے۔اس خواہش کا اظہار ہماری پیاری فوج کے سر براہ سے کر دیا گیا تھا۔ اس کے لیے9 مئی کا ڈرامہ رچایا گیا۔یہ اتنا بودا کمزورپلاٹ تھا اور اس قدر اغلاط سے بھر پور تھا کہ ذرا سی چھان بین پر صاف پتہ چل جاتا کہ اس میں تحریک کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، اسی لیے اس واقعہ پر کمیشن نہیں بٹھایا گیا۔ لیکن اس کو بہانہ بنا کر سب کچھ کیا گیا۔ الیکشن کمیشن میں بیٹھے ضمیر فروش ارکان نے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ملکر، نہ صرف تحریک انصاف سے انکا انتخابی نشان بلا چھین لیا ۔ عسکری قوتوں نے ان کے لیڈر کو پابند سلاسل کر دیا اورتحریک انصاف کے کارکنوں کو ہزاروں کی تعداد میں جیل میں ڈال دیا گیا۔ جب 8فروری کے انتخابات ہوئے، تو پاکستان کے عوام نے تحریک انصاف کو دل کھول کر ووٹ ڈالے، اور اسکے ارکان کو اتنے ووٹ ڈالے کہ وہ آرام سے حکومت بنا سکتی تھی، بلکہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ۔
پھر کیا ہوا آپ نے ، ہماری بے آواز عوام نے دیکھا کہ کس طرح عوام کے منتخب نمائندوں کے نتائج کو ، جو فارم 45پر درج تھے اور سرٹیفائیڈ ہو گئے تھے، ان کو ایک حکم شاہی سے، فارم 47پر بدلوا کر مخا لف امید واروں کو جن کو معمولی سے ووٹ ملے تھے، جتوا دیا گیا ۔ ان میں قابل ذکر نواز لیگ کے ’’مقبول عام‘‘ سربراہ نواز صاحب بھی شامل تھے جنہیں عوام نے بھاری اکثریت کے ساتھ مسترد کر دیا تھا اور ان کی مخالف امیدوار تحریک کی نمائندہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو بھاری اکثریت کے ساتھ جتوا دیا تھا۔اسی ہیرا پھیری سے سینکڑوں مخالف امید واروں کو فارم 47پر جتوایا گیا۔اور نتیجہ میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومت بنوا دی گئی۔ اس سارے واقع میں نمایاں کردار ایک انتہائی بد کردار شخص کا تھا جسے راجہ سلطان سکندر کہتے ہیں۔ یہ شخص ننگ دین ننگ ملت ، نہ جانے کس انعام کے شوق میں، ہر نا جائز اور غلط کام کرتا چلا آ رہا ہے۔
جب ہماری پیاری فوج سب کچھ کر رہی تھی تو کیا ہونا چاہیئے تھا؟ ہمارے سیاستدانوں کو معلوم تھا کہ انہیں کیوں جتوایا جا رہا ہے؟ حکومت تو قاعدے سے تحریک کی بننی چاہیئے تھی، تو ان کو کیوں حکومت دی جا رہی تھی؟ لیکن یہ سیاستدان 2022 میں پیسے کھا کر، ضمیر بیچ کر ، سودے بازی کر کے، عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دے کر اپنی اصلی اوقات دکھا چکے تھے۔ اور اب، انتخابات میں جب کھلی دھاندلی سے ان کو حکومت دی جا رہی تھی تو کیا مضائقہ ؟ اگر یہ سیاستدان با ضمیر ہوتے، محب وطن ہوتے، تو ان کا کیا فرض بنتا تھا؟ یہ ان کو معلوم تھا، لیکن عہدوں کو ٹھکرانہ ، اور بہتی گنگا سے ہاتھ نہ دھونا تو ان کے خمیر میں نہیں تھا۔ اگر وہ ضمیر کی آواز سنتے اور ایمانداری کا مظاہرہ کرتے تو فوج کو انکار کر دیتے، ان کی الیکشن میں مداخلت کو غیر آئینی قرار دیتے، اور تحریک کو حکومت بنانے دیتے۔لیکن اس کرپشن زدہ معاشرے میں جس کے رہنما مہا کرپٹ ہیں۔ ان کو معلوم تھا کہ جب وہ کرسیاں اور عہدے سنبھال لیں گے تو ان سے جو کام بھی کروایا گیا ، وہ بغیر چوں چرا کے کرنا پڑے گا۔ ورنہ کسی بھی وقت، کوئی با اثر ادارہ یا گروہ ، فارم 47کے منتخب امیدواروں کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ سکتا ہے۔اور یہ جعلی حکومت چاروں شانے چت ہو سکتی ہے۔اس لیے ان طاقتور لوگوں کی چاندی ہی چاندی تھی اور ہے۔ وہ جو چاہتے ہیں ان کا جعلی وزیر اعظم ،جسکا کام اب بوٹ پالش ہی رہ گیا ہے، وہ بخوشی کر تا ہے۔
جب سے ہمارے وزیر اعظم اور کمانڈر اعظم نے ٹرمپ بہادر کے بوٹ پالش کرنے شروع کیے ہیں، فرمائشوں کی قطار لگ گئی ہے۔ ایک سے ایک مشکل۔ اب انکو کہا گیا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے اور سفارتی تعلقات بنائے۔ یہ کہتے ہیں کہ مذہبی جماعتیں اس کے خلاف ہیں ان کو کیسے منایا جائے؟ توان کو مشورہ دیا گیا کہ کہ کسی ایک چھوٹی مذہبی جماعت کو نشان عبرت بنا دو، باقی خود ہی سیدھی ہو جائیں گی۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ تحریک لبیک پاکستان ایک چھوٹی لیکن متحرک جماعت ہے، اس کو پہلے بھی استعمال کیا جا چکا ہے اور وہ حکومت کے ساتھ تعاون بھی کرتی ہے۔ تو اس کو پہلے اکسایا جائے کہ وہ حکومت کے خلاف نعرے بازی کرے، پھر ہم اس پر حکومتی کاروائی کریں۔ چنانچہ، ٹی ایل پی نے مرید کے میں احتجاجی مظاہرہ کا اعلان کیا۔ ہزاروں مقتدی جمع ہو گئے، کہتے ہیں کہ قانون کے نفاذ کے اداروں نے مل کر اس گروہ کو قابو لانے کی کوشش میں سچ مچ کی اندھا دھند فائرنگ کر دی، جس سے سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ ایک امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک ہزار سے بھی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ پولیس اور انکے ساتھیوں نے جلدی جلدی لاشیں اٹھائیں اور غائب ہو گئے۔یہ کھلم کھلا تشدد، معصوم اور بے گناہ عوام پر صرف دوسروں کو سبق سکھانے کے لیے کیا گیا۔یہ ہے ہماری پیاری افواج کا کام۔
یہ سب پنجاب میں ہوا جس کی رانی اپنے آپ کو عوام میں مقبول بنانے کے لیے ہزار جتن کر رہی ہے، اپنی تصویریں ہر جگہ لگوا رہی ہے، کہ لوگ اسے بھول نہ جائیں۔ یہ سب کچھ اس کی اجازت سے ہوا اور اس کے تعاون سے کیونکہ صوبائی پولیس تو اس کے احکامات پر چلتی ہے۔پھر اس کو لوگوں نے بتایا کہ ہو شیار، لبیک والے ہو سکتا ہے کہ اس پر حملہ کریں، اس لیے کچھ دیر بر سر عام نظر نہ آئیں۔ کیونکہ لبیک کے ہمدرد اس کے اپنے سٹاف میں بھی ہو سکتے ہیں یا اس کے حفاظتی دستے میںبھی۔
مریدکے کا حادثہ اور اس پیمانے کی ہلاکتیں غالباً پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔ یہ کوئی مشتعل ہجوم نہیں تھا اور نہ ان کے پاس اسلحہ تھا۔ پولیس کے پاس کوئی جواز نہیں تھا کہ ان پر گولیاں برساتی۔ اس کا حکم کس نے دیا، اس کے لیے پنجاب پولیس کے آئی جی کیا کہتے ہیں؟
ایک امریکی ذریعہ جس نے اس واقع کی پوری خبر دی ہے، کہا ہے: ’’ٹی ایل پی کی تاریخ گڈ مڈ سی ہے۔یہ 2011ء میں سلمان تاثیر کے قتل کے بعد بنی جب اس کے ایک محافظ ممتاز قادری نے گورنر پنجاب کو قتل کر دیا تھا۔محافظ مذہبی جنونی تھا۔ اس کو غصہ تھا کہ کیوں تاثیر قانون میں تبدیلی چاہتا ہے جو ناموس رسالت کے مجرموں کو سزائے موت دلواتا ہے۔یہ جماعت اس قانون کی پاسداری میں آخری سرحدوں پر جاتی ہے اور ہجوم کے ذریعے ملزموں کو موت کے گھاٹ اتارتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تحریک پاکستان کی اقلیتوں کے افراد کو خصوصاً نشانہ بناتی ہے اور ان کے ارکان کو ہجوم کے ذریعے الزام لگا کر خود ہی فیصلہ سنا کر سزا بھی دیتی ہے اور اس پر عمل بھی کرواتی ہے۔ قانون بھی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ان سارے معاملات میں، ٹی ایل پی نے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ تعلقات بنا کر رکھے ہوتے تھے۔ موخر الذکر بھی اس گروہ کو اپنے مذموم مقاصد میں استعمال کرتے تھے۔
صرف جب اس گروہ نے دیکھا کہ حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ رہی ہے تو اس نے حکومت سے کنارا کشی اختیارکی اور سرکار بھی اس پر ٹوٹ پڑی۔لیکن اس قدر ظالمانہ حملہ پر وہ پاکستانی بھی خاموش رہے جو تحریک کی اقلیتوں کے خلاف ا ور ایسے واقعات کو برا سمجھتے تھے۔لیکن عسکری تشدد کی یہ مثال دوسروں کو کان کرنے کے لیے کافی ہونی چاہیئے کہ اگر انہوں نے عوامی سطح پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مخالفت کی۔ابھی تک تحریک نے چھوٹے موٹے احتجاج کیئے تھے لیکن جب وزیر اعظم نے مصر میں جا کر غزا میں جنگ بندی کی حمایت کی، اور ٹرمپ نے بیان دیا کہ مسلمان ممالک، بشمول پاکستان، اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو تحریک نے اسلام آباد کے سفارت خانہ پر جا کر احتجاج کا فیصلہ کیا ۔ ملک کے مختلف حصوں سے جتھے آنے لگے اسلا م آباد جانے کے لیے۔جن پر پولیس نے لاٹھی چارج کیے اور آنسو گیس پھینکی۔
تحریک لبیک کے احتجاجی اسلام آباد کی طرف چل پڑے اور راستے میں مریدکے ایک قصبہ میں ان کو روک لیا گیا۔ احتجاجیوں نے وہیں دھرنا دے دیا۔مرید کے کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ وہاں تحریک کو امداد ملنے کی امید کم تھی۔یہ اتوار کی رات تھی جب سعد رضوی نے پولیس سے بات چیت کرنی چاہی لیکن جواب نہیں ملا۔محافظوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ احتجاجیوں کو خطرناک ہتھیاروں سے ہٹانا ہے۔پولیس کے علاوہ رینجرز نے اپنا گھیرا تنگ کیا۔ صبح ہونے کے قریب، ہر طرف سے گولیاں چلنی شروع ہو گئیں۔کہتے ہیں کہ جب کچھ پولیس والوں نے فائرنگ کرنے سے انکار کیا تو رینجرز نے ان کی ٹانگوں پر گولیاں ماریں۔الزام تحریک پر لگایا گیا۔گولیوں کی برسات کئی گھنٹے جاری رہی اور ہجوم میں بھگدڑ مچی اور لوگ بھاگنے شروع ہو گئے۔پولیس نے ان کا پیچھا کیا اور ان کی پیٹھ پر گولیاں داغیں۔حملہ آوروں نے سعد رضوی، اس کی فیملی کو گرفتار کر لیا۔ اور فوج کے حوالے کر دیا۔‘‘
سوال تو بنتے ہیں۔ کہ کیا پاکستانی فوج امریکہ کو جوابدہ ہے یا پاکستان کو؟ کیا امریکہ کے کہنے پر ہم اپنے بے گناہ شہریوں کا خون بہائیں گے اور اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہو گا؟ حکومت اس واقعہ میں پوری طرح شامل ہے، اس حکومت کو کس نے اختیار دیا کہ وہ لوگوں پر گولیاں برسائے جب کہ وہ مذاکرات مانگ رہے تھے؟ کیا اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے لیے اتنا ضروری ہے؟ اگر ہے تو پہلے پاکستانیوں کو بحث مباحثے سے راضی کیوں نہیں کرتے؟ دھاندلی سے اگر کروائیں گے تو اسرائیلیوں کا پاکستان آنا، چلنا پھرنا، پُر امن کاروبار کیسے ممکن ہو گا؟جب تک تمام سیاسی جماعتوں متفقہ طور پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتیں، یہ اقدام سوائےجھگڑے اور کسی چیز کا پیش خیمہ نہیں بن سکتا۔ذرا سوچئیے!



