افغان گریزی اور آئیں ، بائیں شائیں !

میرے لیے پاک افغان سرحد پر بنے دوستی گیٹ پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ کرنے اور وہاں پہرے اور حفاظت پر مامور دو پاکستانی جوانوں کو شہید کرنے کے بعد انہیں برہنہ کر کے اسپن بولدک میں گھمانے اور گھسیٹنے جیسے بزدلانہ اور مجرمانہ عمل کو برداشت کرنا اور بھول جانا ممکن نہیں ہے ۔جب تک اس واردات کا حکم دینے والے اور اس پر عمل درآمد کرنے والے سارے مجرم تہہ تیغ نہیں کئے جاتے، میرے خیال میں ، اس وقت تک افغانستان کے ساتھ دوستی کا کوئی دروازہ کھولنا نہیں چاہیئے ۔ لیکن حیرت اور تشویش اس وقت ہوتی ہے جب اخوت، ہمسائیگی اور تجارت کے نام پر ہمارے فیصلہ سازوں کے برف کے بنے دل اور موم سے بنے ناک پگھل پگھل جاتے ہیں،اور ہم اپنے شہداء کی قربانیوں کو بالائے طاق رکھ کر افغانستان کی پراسرار محبت کے طلسم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ستم ظریف کہتا ہے کہ ہمیں اپنے تہہ خانوں اور الماریوں میں چوہے بن کر چھپے ہوئے ماہرین امور افغانستان کو تلف کرنا ہوگا، صرف اسی صورت میں ہم "چوہا فری” پاکستان بنا پائیں گے۔ وہ کہتا ہے کہ ہمارے حکمت سازوں کو افغان گریزی کی تعلیم اور عملی تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے۔اس کے خیال میں جس طرح ماضی بعید میں انگریزوں نے اور ماضی قریب میں امریکیوں نے روشن امکانات سے بھرپور افغانستان کی مُلّائی جہالت اور قبائلی عصبیت سے فائدہ اٹھایا تھا،اور اب بھی اسی کی مدد سے خطے میں جنگ اور بدامنی کی انگیٹھی سلگانا چاہتے ہیں، ہمارے حکمت گریز فیصلہ ساز بھی افغان معاشرے کی انہی قدیم کمزوریوں سے اپنی سمجھ ، پہنچ اور توفیق کے مطابق فائدہ اٹھانے کی کچی پکی کوشیشیں کرتے رہتے ہیں۔ایسی کوششوں سے شاید انفرادی سطح پر کوئی نقد فائدہ اٹھا لیتا ہو، ملک کا ہمیشہ نقصان ہی ہوتا ہے۔ ہمیں ہمسایہ ممالک کے ساتھ اسمگلنگ کے راستوں کو بند کر کے قانونی تجارت کے دروازے کھولنے ہوں گے۔ہمیں افغانستان اور افغانیوں کے بارے میں وقتی مصلحتوں کی وجہ سے پھیلائے گئے بہت سارے مفروضے اور تاثر درست کرنے ہوں گے۔ یہ مغالطہ اب ختم ہو جانا چاہیئے کہ افغانی اپنی سرزمین کا دفاع کرنے کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ افغانستان ہمیشہ کرائے کی جنگوں کا مقبول اسٹیڈیم رہا ہے ۔اور یہاں لڑائی کا کاروبار کرنے والے پیشہ وروں کے متعدد جھتے مناسب معاوضے پر دستیاب رہتے ہیں۔ ایسی سرزمین اور ایسے انتشاری جنگ پیشہ جتھے فتنہ گر عالمی کھلاڑیوں کو ہمیشہ محبوب و مطلوب رہے ہیں۔ افغانستان میں اسی ماحول کو باقی اور برقرار رکھنے کے لیے یہاں کسی جدید ، تعلیم یافتہ ، مہذب اور روشن خیال معاشرے اور حکومت کے قیام کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ افغانستان کو مُلّائی جہالت کے حوالے کرنے کے لیے مکار انگریزوں نے بڑی چالبازی اور باریک بینی سے کام لیا تھا۔انگریز کو کسی بھی قیمت پر یہ بات گوارا نہیں تھی کہ افغانستان جدید تعلیم یافتہ ،پرامن اور ترقی یافتہ ملک بن جائے۔وجہ سویت یونین اور اپنے مقبوضہ خطے ہندوستان کے درمیان ایک حائلی ملک یا علاقے کی موجودگی کو یقینی بنانا تھی ۔افغانستان میں جب بھی ایسی کسی کوشش یا خواہش کا امکان پیدا ہوتا ،انگریز کی رگ سازش پھڑک جاتی تھی ،اور ان کے شریر منصوبوں کی تکمیل کے لیے ہمیشہ مُلّاؤں کی جہالت ، کج فہمی اور مالی لالچ معاونت کرتی تھی ۔ 1923ء میں ایک موقع تھا کہ ترکیہ کے مصطفیٰ کمال اتاترک کے قریبی دوست امیر امان اللہ اور ملکہ ثریا طرازی کی قیادت میں افغانستان بھی ترکیہ کی طرز اور مثال پر ایک جدید جمہوریہ بن جاتا اور افغان خواتین ترکیہ کی یونیورسٹیوں میں مفت تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سے فائدہ اٹھا لیتیں۔لیکن انگریز افغانستان میں ایک اور ترکیہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ایک جدید ، تعلیم یافتہ ، جمہوری اور باشعور ریاست کو اپنے مفادات کے مطابق سویت یونین اور ہندوستان کے مابین حائلی ریاست بنانا ممکن نہ رہتا ۔لہٰذا افغانستان میں تعلیم اور شعور کا مقابلہ قبائلی اور مُلّائی جہالت کے ساتھ کیا گیا اور آج تک افغانستان کی "افادیت” کو انجوائے کیا جا رہا ہے۔ ہمیں افغانستان سے گریز کے ساتھ ساتھ خود اپنے ملک میں بھی انتہاء پسندی سے پرہیز کی حکمت عملی اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ہمارے فیصلہ سازوں کو آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے سیدھی اور سچی بات کرنی چاہیئے ۔اگر مذہبی شدت پسندی اور فتنہ پردازی کو جڑ سے ختم کرنا مقصود ہے تو پھر یہ کسی ایک جماعت یا کسی ایک گروہ یا جتھے پر وقتی پابندی لگانے سے نہیں ہو سکے گا۔اور نہ ہی اس عمل کے لیے لمبی چوڑی تاویل سازی( افتراء پردازی سے ملتی جلتی)کرنے کی ضرورت ہے۔یہ پابندی بلاامتیاز اور بلا خوف فساد مُلّا، تمام مذہبی سیاسی جماعتوں پر عائدکی جانی چاہیئے۔ اس حوالے سے یہ جو کسی خفیہ ایجنسی میں ملازمت کے خواہشمند اُمیدواروں سے لیے جانے والے ٹیسٹ میں کسی سوال کے جواب والا معاملہ اٹھایا اور پھیلایا گیا ہے ، یہ سراسر بے تاثیر ڈرامہ لگتاہے۔ستم ظریف کے خیال میں یہ اپنی ہی ساختہ ایک انتہاء پسند مذہبی تنظیم کے خلاف گولی مار بھیجے میں۔۔۔ والے معاملے کی خفت کو مٹانے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی ملازمت کے ٹیسٹ میں یہ احمقانہ کی حدود سے متجاوز مجرمانہ سوال کس نے اور کیوں پوچھا تھا؟ اس ایجنسی کے ٹیسٹ ترتیب دینے والے تہی دماغ ، زبان دراز اور کج دست دانشوروں کا بھی پرائیویٹ علاج کروانا ضروری معلوم ہوتا ہے ۔پھر اس ٹیسٹ سے وہ کون سا، راز اچانک افشاء ہو گیا ہے جس سے پبلک ابھی تک لاعلم تھی؟۔قراردادِ مقاصد سے لے کر تحریکِ نفاذ ِنظام مصطفٰی تک اور وہاں سے افغان جہاد کے لیے پورے ملک کو کھٹا اچار بنا دینے سے لے کر ؛ مجاہدین اور پھر انہی مجاہدین کو دہشت گرد بنا دینے تک۔ پھر وہابی اور دیوبندی برانڈ کے ملاؤں کی ہوشرباء قیمتوں سے تنگ آکر اسی اسٹیبلشمنٹ نے دم درود والے مُلّاؤں کو سیدھا بم بارود والا مُلّا بنا کر سر تن سے جدا کا مترنم نعرہ (اور بیانیہ )دے دیا تھا ۔اب یہ خطرہ نہیں ہے کہ انتہا پسند کہیں سسٹم کے اندر نہ گھس جائیں ۔ اصل خطرہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔باقی یہ پاکستان ہے ،یہاں لاپتہ اور گم شدگان کی فہرست میں ایک نام سچ کا بھی شامل ہے۔



