ہفتہ وار کالمز

شخصیت پرستی و بُت پرستی !

نو عمری سے لیکر عمر پیری کی جانب رواں یہ فانی زندگی کے ایام ان گنت یادوں و تجربات کا بوجھ اُٹھائے لحد کی طرف رواں ہیں سوچتا ہوں کہ فکر ِ دنیا سے غافل اور عاقبت سے خوفزدہ اس محروم زندگی سے چھٹکارہ میسر آ بھی گیا تو قیامت تک تنہائی اور گناہوں کی بہتات آرام سے سونے بھی نہیں دے گی آپ یقین کریں کہ اسی خوف میں دن ہنس ہنس کر گزارتے ہیں کہ کہیں کوئی پوچھ نہ لے کہ چہرہ خوفزدہ کیوں ہے ؟میرے خیال میں انسان کو لمبی عمر کی تمنا ضرور ہوتی ہے لیکن عمر کے اڈھیر پن میں موت کا خوف نہیں ہوتا گزری زندگی میں اچھے برے واقعات کا انجام اُسے خوف میں مبتلا رکھتا ہے کہ قبر میں کئے گئے پوچھے گئے سوالوں کا کیا جواب دیں گے ؟ اس حقیقت سے باخبر ہونے کے باوجود ہمارا اللہ کی راہ سے ہٹ کر چلنا دنیا کی رغبت میں آخرت کو فراموش رکھنا المیہ ہے جس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے حیرت یہ ہے کہ ہم سب اللہ تعالی کو اُس کے احکامات کو اپنے چھوٹے بڑے مفادات کی خاطر بھلا کر انسانوں کی شخصیت پرستی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔کسی بھوکے کو کسی نادار غریب کو اللہ کی رضا کے لئے کھانا کھلانے کی بجائے ہم بڑی بڑی شخصیات کو ظہرانے و عشائیہ میں مدعو کرنے کے لئے اُن کے پیچھے پیچھے گھومتے ہیں ہیںبعض لوگ تو میرے خیال میں اس شخصیت پرستی کی لت میں اتنے گُم ہو جاتے ہیں کہ گماں ہوتا ہے کہ انھوں نے بُت پرستی شروع کر دی ہے کیونکہ ایسا ذہن رکھنے والے اپنے والدین کو اُس مرتبے پر نہیں بٹھاتے جس پر انھوں نے اپنی من پسند شخصیت کو فائز کیا ہوتا ہے سیاسی شخصیات کی ناکامیوں ،نااہلیوں کے باوجود اُن کی تعریفوں میں قصیدہ گوئی سے کارکن خود کو بہت عقل مند سمجھتے ہیںسمجھ نہیں آتی خواندہ ہونے کے دعوے کرنے والے بیشعوری کی دلدل میں کیسے دھنسے ہوئے ہیں؟ اُنھیں اپنے قائد کے جھوٹ میں صداقت جانے کیسے نظر آتی ہے کہ وہ وعدہ خلافیوں پر احتجاج کرنے کی بجائے انھیں پیغمبرانہ القاب سے پکارنے لگتے ہیںان حالات کو کوئی غیر جانبداری سے دیکھے تو وہ اس نامعقولیت کی انتہا کو شخصیت پرستی کی بجائے یقینا بُت پرستی کہے گا لا اُبالی کارکنوں کی بدن بولی کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ شرک کیا جا رہا ہے شعور رکھنے والی قوم تو اپنے قائد کے کردار ،قول و فعل کے عملی نفاذ پر نظر رکھتی ہے کہیں کوئی خامی نظر آئے تو سراپا احتجاج ہونے میں دیر نہیں کرتی ۔یاد آتا ہے کہ بل کلنٹن کو مونیکا لیونسکی کے ساتھ تعلقات کی بناء پر عوام نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا حالانکہ خود امریکی عوام ہر قسم کی برائیوں میں ملوث سرعام رہتی ہے مگر وہ اپنے قائد کو ہر برائی سے ،انسانی تحقیر سے مبرا دیکھنا چاہتی ہے پاکستان میں سیاست کے اعمال بیرونی سیاست سے اُلٹ ملتے ہیں غیر ملکی سچائی کا عملی طور پر ممکن ہونا دیکھنا چاہتے ہیں مگر ہم ہر جھوٹ پر تالیاں بجانا تو معمول کی بات ہے ہم نے تو اب ناچنا بھی شروع کر دیا ہے سمجھ نہیں آتی کہ جن قائدین کی ناقص معاشی پالیسیوں کے سبب ملک میں بیروز گاری کی شرح ،مہنگائی کی بلند سطح پر پرواز اور قرضوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اُن کے پیچھے یہ سیاسی کارکن کس بنیاد پر کھڑے ہوتے ہیں جب ایک بندہ کسی بھی کام کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اُسے دوبارہ ذمہ داری دینے کا خطرہ کوئی بھی مول نہیں لیتا جب کہ ملک کا نظم ونسق کامیابی سے چلانے میں ناکام ہونے والوں کو ہم بار بار موقع دیتے ہیں جو اس کا ثبوت ہے کہ ہم پختہ جمہوری سوچ سے عاری لوگ ہیں جو کسی بھی جذباتی عام سی فلم کو بار بار دیکھ کر اُسے گولڈن جوبلی کا مرتبہ دے دیتے ہیںبارہا مذکورہ فلم کو دیکھنے کی وجہ ہیرو کی شخصیت ہوتی ہے شخصیت پرستی کی یہ بیماری تو اُصولی طورپر بھارت میں پھیلنی چائیے تھی مگر وہاں شرح خواندگی کا معیار بہتر ہونے کی وجہ سے وہ لوگ تصوراتی دنیا سے باہر نکل کر عملی زندگی کی کامیاب کارکردگیوں کو بنیاد کا درجہ دیتے ہیں جیسے فلسطین کے مسئلے پر غیر مذاہب کی عوام مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہوتی رہی کیونکہ شعور رکھنے والے جائز و ناجائز میں فرق بخوبی جاتے ہیں ہمیں شخصیت پرستی و بُت پرستی کی اس بیماری کا علاج سٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی نہیں دیا گیا جمہوری نظام ِ حکومت کا تختہ بار بار اُلٹنے کے باوجود بھی ہم طے نہ کر سکے کہ ہم نے کس نظام کے تحت چلنا ہے مسلم ملک کا باشندہ ہونے کے باوجود ملک میں اسلامی نظام کی طرز ِ حکومت نہیں ہے معاشی نظام ہمارا سودی لین دین پر قائم ہے گویا نہ ہم جمہوری ملک ہیں اور نہ طرز ِ اسلامی پر نظام ِ حکومت چلاتے ہیں کسی دانشور شاید ایسے ہی حالات میں گھرے ہوئے لوگوں کے لئے کہا تھا کہ اللہ کو تو مانتے ہو اور اگر اللہ کی مان بھی لو تو دنیا و آخرت سنور سکتی ہے جب ایمان کی پختگی یہی ہو کہ اللہ ایک ہے جو سب پر غالب ہے اور سب نے اُسی کی جانب لوٹ کرنا ہے تو پھر کسی شخصیت پرستی و بُت پرستی کی ضرورت باقی نہیں رہتی اللہ کے آگے جھکنے سے شعور کی راہیں کھلنے لگ جاتی ہیں بہتر ہو گا کہ ہم زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے غیر جانب داری سے اپنے مسائل اور ملک کو درپیش مسائل کا جائزہ لیں اور شخصیت پرستی و بُت پرستی کے سحر سے نکل کر حقائق کی روشنی میں جینا سیکھیں تو مشکلات کی گرہیں کھولنا ممکن ہو جائے گا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button