مسلمان دنیا میں پیچھے کیوں ہیں؟

بنیادی طور پر مجھے مسلمانوں کی ، اقوام عالم میں،پس ماندگی اور بے چارگی کی وجہ تلاش کرنی ہے۔یہ تو آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ کہنے کو دنیا میں دو ارب مسلمان ہیں، لیکن دنیا میں ان کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اب حال ہی میں، سب نے دیکھا کہ غزہ کے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ چھیاسٹھ ہزارسے زیادہ مرد، عورتیں اور بچے شہید کر دیئے گئے۔ لیکن مجال ہے کہ کسی مسلمان ملک نے ان کے حق میں کوئی آواز اٹھائی ہو؟ اگر دو ارب مسلمان صرف اکھٹے ہو کر نعرہ تکبیر بھی بلند کر دیتے تو دشمنوں کے دل کانپ جاتے۔خیر مسلمانوں میں اتنا اتحاد ہوتا تو مسئلہ ہی کیا تھا؟ بحثیت پاکستانی کے مجھ سے زیادہ شرمندہ کون ہو گا؟ تمام دنیا میں ، خصوصاً یورپ میں غزہ کے قتل عام پر مظاہرے ہوئے لیکن اگر کہیں مکمل خاموشی ہے تو وہ اسلامی دنیا ہے۔ کیوں؟کم از کم میڈیا تو نہیں دکھاتا، اگر کچھ ایسا ہوا بھی ہو گا؟صرف ایک ملک یمن ہے جو اسرائیل پر میزائیل پھینک دیتا ہے، کبھی کبھار۔
خیر یہ تو تازہ ترین ہے۔ راقم کو اصل فکر یہ ہے کہ کیوں مسلمانوں نے دنیا میں سائنسی ، تکنیکی، ایجادات میں، خاطر خواہ ترقی نہیں کی؟آخر مسلمان بھی وہی دو ہاتھ، دماغ، دو کان اور دو آنکھیں لیکر پیدا ہوتے ہیں جو مغربی دنیا کے لوگ۔ پھر ہم کیوں ان سے اتنے پیچھے رہ گئے ہیں؟کیا وجہ ہمارا دین ہے یا اس کی سمجھ؟کچھ لوگ کہیں گے کہ جن مسلمانوں نے سائنس تو پڑھی، لیکن سائینٹفک فکر نہیں استعمال کی۔ویسے بھی تعلیم کی کمی ہے۔ ناخواندگی کی سب سے بڑی تعداد پاکستان میں ہے، جہاں بچوں کو جان بوجھ کر سکولوں سے باہر رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس سے بڑی وجہ ایک اور ہو سکتی ہے اور وہ ہے مسلمانوں کا ایمان تقدیر پر۔اس معاملے میں، مسلمانوں اور غیر مسلموں میں ایک نمایاں فرق ہے۔ مسلمان تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں، اور غیر مسلم نہیں۔ لیکن مسلمانوں نے یہ اللہ کی کتاب سے سیکھا یا بعد میں انہیں بتایا گیا؟
اس کا مطلب کیا ہے؟ اور اس وجہ سے مسلمانوں میں دنیا میں ترقی کیوں نہیں کی؟تقدیر کا مطلب ہے کہ ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔اگردرخت کے پتے بھی ہلتے ہیں تو اللہ کی مرضی سے ہلتے ہیں۔ اگر کوئی نوجوان موٹر سائیکل کے حادثہ میں جان دھو بیٹھا یا شدید زخمی ہو گیا تو اللہ کی مرضی تھی۔ کسی کا بچہ امتحان میں فیل ہو گیا تو بھی۔اگر مسلمان کسی جنگ میں ہار گئے تو اللہ کی مرضی تھی۔ اسے ہی تقدیر کہتے ہیں۔ اگر امام حسین کو یزید کی فوج نے شہید کر دیا تو اللہ کی یہی مرضی تھی۔علامہ اقبال نے تقدیرپر اس ایمان کو تسلیم نہیں کیا۔انہوں نے سوالات اٹھائے۔ ان کے سات خطبات میں سے چوتھے خطبہ کا مضمون اسی موضوع پر ہے۔علامہ رقمطراز ہیں: تین باتیں انسان کے متعلق از روئے قران بالکل ظاہر و باطن ہیں: ان میں سے تیسری بات سے ہمیں خاص توجہ دینی ہے کہ :ـ’’باوجود خطرات کے اس کو صاحب اختیار ہستی بنایا گیاتا کہ خدا کی مشئیت کے ساتھ اس کی ہم آہنگی ، اس کی اپنی خود ی اور اور خود اختیاری سے سر زد ہو، مخلوق مجبور میں یہ صلاحیت پیدا نہیں ہو سکتی۔
علامہ فرماتے ہیں، اس تعلیم کی وضاحت کے باوجود یہ امر تعجب خیز ہے کہ مسلمان متکلمین نے نفس انسانی کی استواری اور خود اختیاری کی طرف توجہ نہیںدی۔ ‘‘
’’اسلام میں تقدیر کا غلط مطلب کیوں رائج ہو گیا، اس کے کوئی تاریخی اسباب ہیں۔ کہ بنو امیہ زیادہ تر موقع پرست، ابن الوقت اور اقتدار پسند لوگ تھے۔روایت کی گئی ہے کہ معید نے حضرت حسن بصری سے کہا کہ بنو امیہ مسلمانوں کے قتل کو تقدیر الہٰی قرار دیتے ہیں، تو انہوں نے غصہ سے جواب دیا کہ ۔یہ لوگ کذاب ہیں۔۔ قران سے تقدیر کا غلط مفہوم اخذ کرنا ادنیٰ قسم کے اغراض کا نتیجہ تھا لیکن افسوس ہے کہ اس کے نتائج مسلمانوں کی اخلاقی اور روحانی زندگی کے لیے بہت مضر ثابت ہوئے۔
جواب شکوہ میں ، علامہ نے کہا:کوئی قابل ہوتو ہم شان نئی دیتے ہیں ۔ ڈھومڈنے والوںکو دنیا بھی نئی دیتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہی ہے کہ مسلمانوں کوشش کرو، سعی کرنی چاہیے اور تقدیر پر بھروسہ نہیں رکھ کر بیٹھ جانا چاہیئے۔ ایک اور شعر میں، علامہ نے مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ہاتھ ہلائو۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ ؔہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو۔ یعنی اگر مسلمان کوشش نہیں کریں گے تو انکی تقدیر نہیں بدل سکتی۔ہر بات میں یہ کہنا کہ اللہ کی مرضی تھی، علامہ کے مطابق، صحیح نہیں لگتا۔ مجھے ایسے ہی خیال آ گیا کہ نیوٹن اگر مسلمان ہوتا تو وہ کبھی درخت سے سیب گرنے پر سوچ بچار شروع نہیں کر دیتا۔ یہی کہتا کہ سیب اگر زمین پر گرا تو اللہ کی مرضی تھی، اور کشش ثقل کا سارا سائنسی اصول دھرے کا دھرا رہ جاتا؟ سائنسی فکر ہو تو انسان نتائج کی وجہ ڈھونڈتا ہے۔ اور سارا معاملہ تقدیر پر نہیں ڈال دیتا۔ اب ہم اگر ان مثالوں کی طرف دوبارہ رجوع کریں تو ہم اس بات کا جواب ڈھونڈیں گے کہ نوجوان موٹر سائیکل سے گر کر ہلاک کیوں ہوا؟ تو پتہ چلے گا کہ اس نے کوی غلطی کی تھی۔ جیسے کہ شاید ہیلمٹ نہیں پہنی تھی۔بچہ امتحان مین کیوں فیل ہوا؟ اس لیے کہ اس نے محنت نہیں کی تھی اوراس کی تیاری پوری نہیں تھی۔مسلمان جنگ میں ہار گئے تو یہ ان کی تقدیر نہیںتھی، بلکہ اس کے مدلل اسباب تھے۔ان کی قیادت میں کمی تھی، انکی تیاری نہیں تھی یا ان کی جنگ کرنے کی صلاحیت پر مناسب محنت نہیں کی گئی تھی یا ان کا دشمن زیادہ ہوشیار اور طاقتور تھا۔حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا ذمہ وار بادشاہت کا نظام تھا، یہ کوئی تقدیر کا مسئلہ نہیں تھا۔ اسی لیے بزرگ نے کہا کہ ایسا کہنے والے جھوٹے تھے۔سوچنے کی بات ہے کہ اللہ کیوں اس قدر ظلم کرتا اور کرواتا؟ یہ سب انسانوں کا کیا دھرا تھا۔ لیکن فرماںروائوں نے ایسے ظلم کر کے اپنے پر تو الزام نہیں لینے تھے۔ اس لیے کہہ دیا گیا کہ اللہ کی یہی مرضی تھی۔ جب یہ کہہ دیا جائے تو کیوں کہنے کا سوال ہی نہیں پید اہوتا۔اس لیے جتنے بھی مسلمان بادشاہ اور فرماں روا آئے انہوں نے اپنے مخالفین مسلمانوں کے قتل کی وجہ کبھی اپنے سر پر الزام نہیں لیا۔ اور ہر معاملے کو اللہ کی مرضی کہہ کر ٹال گئے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ قدرتی آفات کا ہے، جیسے زلزلے، سیلاب، بارشوں کے طوفان اور ان سے ہونے والی تباہ کاریاں۔ یہ آتا تو سب قدرتی وجو ہات سے ہے لیکن انسان ان سے ہونے والی جانی ہلاکتیں اور تباہیوں کو حکمت عملی اور پیشگی تیاریوں سے کم کر سکتاہے۔ اسی طرح سڑکوں پر ہر سال ہزاروں لوگ حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں، انہیں اللہ کی مرضی کہہ کر ٹالا نہیںجا سکتا، کیونکہ زیادہ تر انسانی نا اہلی، ٹریفک کے قوانین سے نا واقفی یا ان پر عمل نہ کرنے سے ، یا گاڑیوں کی مناسب دیکھ بھال، انسپکشن، اور ٹریفک کے عملہ وغیرہ کے نہ ہونے سے ہوتے ہیں۔امریکہ میں جہاں اکثر جگہ سال میںایک مرتبہ گاڑیوں کی انسپکشن ہوتی ہے، وہاں بھی حادثے ہوتے ہیں لیکن لا پرواہی، نشہ، اورڈرائیوروں کی غلطیوں سے ہوتے ہیں، اس کواللہ پر ڈالنا بالکل غلط ہے اور نہ ڈالا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ مختلف بیماریوں سے مرتے ہیں، ان کی موت کو تقدیر کا لکھا کہنا صحیح نہیں ہوتا۔ اس کی چھان بین ہونا چاہیئے اور اصل وجہ اور اس کے محرکات کا پتہ چلانا چاہیئے، تا کہ دوسروں کو تنبیہ ملے۔راقم کو یاد ہے کہ کسی نے اسے بتایا کہ انگریز کے دور میں دفتر کے عملہ کو ملیریا ہو جانے پر بیماری کی چھٹی نہیں ملتی تھی کیونکہ اس نے ملیریا سے بچنے کی دوا کیوں نہیں کھائی تھی؟یہاں تو وہ کہہ دے گا کہ اللہ کی مرضی تھی کہ اسے ملیریا ہو گیا۔
حضرت ڈاکٹر علامہ اقبال نے جب مسلمانوں کی توجہ اس طرف دلائی تو وہ اپنے انگریزی کے خطبہ میں، نہ کہ کسی نظم کے ذریعے اس ہر آواز اُٹھائی۔ اس کی وجہ وہ دینی طبقے سے بحث میں نہیں الجھنا چاہتے تھے۔یہ طبقہ ذرا سی بات پر لادینی کی تہمت لگا دیتا ہے اور کفر کا فتویٰ ا لگ دیتا ہے۔
علامہ کے ایک ہم نام پروفیسر پروفیسر شیخ محمد اقبال نے اپنی کتاب ’’اقبال بحضور اقبال‘‘ میں اس مسئلہ پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ وہ مسئلہ جبر و قدر پر ڈاکٹر عندلیب شادانی کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی پستی اور زوال کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ وہ ذوق عمل سے محروم ہو گئے تھے۔اس کی دو وجوہات تھیںجن میں سے ایک تھی، تقدیر کا غلط تصور اور یہ یقین کہ انسان کے جملہ افعال و اعمال خیر و شر پہلے ہی سے متعین ہیں، لہٰذاتقدیر کے خلاف ہاتھ پائوں مارنا سرا سر نادانی ہے۔ قرن مجید میں لفظ تقدیر پانچ مقامات پر آیا ہے اور انہی معنوں میں آیا ہے ۔ کسی ایک مقام پر بھی تقدیر کے وہ معنی نہیں نکلتے جومسلمانوں میں عام طور پر مقبول ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان کو مجبور محض تسلیم کر لیا جائے تو اسلامی نظام کی ساری عمارت ہی منہدم ہو جاتی ہے۔ اور اس صورت میں جزا ءاور سزا کے کو ئی معنی باقی نہیں رہتے۔ اگر انسان مجبور ہے اس کا ہر عمل اس کے اختیار سے باہر ہے اور ہر چیز خدا کی مرضی سے ہوتی ہے تو پھر انسان کے عمل کی اس سے جزا اور سزا ملنے کا کوئی جوازملنے کا کوئی جواز پیدا ہی نہیں ہوتا۔ تو پھر جنت اور جہنم کے کیا معنی ، انسان برائی سے بچنے کی کوشش کیوں کرے کیونکہ کوشش تو لغو نظر آتی ہے۔
یقیناً ہم ایسے خدا کا تصور ہی نہیں کر سکتے جو مجبوروں کو سزا دے اور خود ہی غلطی کرائے اور خود ہی سزا تجویز کرے۔ خدا انتہائی عادل ہے وہ اپنی مخلوق کے ساتھ کبھی بے انصافی نہیں کرتا۔ پروفیسر شادانی اپنے نکتہ نظر کی وضاحت میں ایک نظم تقدیر پیش کرتے ہیں۔ اقبال اور تقدیر:اس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
کیوں خوار اور زبوں حال ہے اس درجہ مسلمان ۔ ۔۔سرزد ہوئی بد بخت سے بھاری کوئی تقصیر
کہتا ہے بر گشتہ اسی دن سے ہے قسمت ۔۔۔ جس دن سے مسلمان ہوا تابعٔ تقدیر
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات ۔ ۔۔مومن فقط احکام الہیٰ سے اثر گیر
کافر ہے تو ہے تابعٔ تقدیر ِمسلماں ۔ ۔۔مومن ہے تو وہ آپ ہے اللہ کی تقدیر!
اقبال کے نزدیک مسئلہ کچھ یوں ہے کہ اللہ نے ہر انسان کو بے انتہا صلاحیتوں سے نوازاہے، اس کوذہن، جسم توانا، دل گداز ، چشم بینا، گوش ہوش عطا کئے ہیں۔ جن کی مدد سے وہ اپنے لیے راہیں تلاش کر سکتا ہے لیکن اگر وہ اپنی ان بے پناہ صلاحیتوں سے کام نہ لے تو وہ مفلوج ہو جاتی ہیںاور انسان زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔اور جب وہ جنگ ہار جاتا ہے تو تقدیر کو مورد الزام ٹہراتا ہے جس کا اسلامی تعلیم میں کوئی جواز نہیں۔کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس کو ایسے بہانے تراشنا زیب نہیںدیتا۔اس لیے یہ کہنا چھوڑ دیں کہ اگر کچھ غلط ہوا تو اللہ کی مرضی تھی۔یہ الزام اپنے سر لیں یا اس کے سرپر جس نے وہ غلطی کی۔بہتر یہ ہے کہ غلطی کی وجوہات جاننے کی کوشش کریں۔