ہفتہ وار کالمز

ہماری باتیں

یہ بات بہت پہلے بزرگوں سے ،شہر کے سیانے سے ،دانشوروں سے دوران ِ تذکرہ کئی سنی کہ باتوں سے پیٹ نہیں بھرتا بات بھی ٹھیک ہے اور ابھی تک اپنی سچائی لئے زبان ِ زدِ عام تو ہے مگر پیٹ کے بھرے رہنے کا عمل جو محنت و عملی اقدامات مانگتا ہے وہ کاوشیں باتوں میں تو ہیں مگر اس کے لئے محنت و عمل کی کاوشیں دکھائی نہیں دیتیں جس سے یہ عیاں ہوتے دیر نہیں لگتی کہ ہم جھوٹ بولتے ہیں اور جو اچھا جھوٹ بولے دہوکہ دہی کرے اُسے سیانا یا عقلمند بغیر حیل و حجت کے تسلیم کر لیتے ہیں جھوٹ کی پھونکوں سے صراط المستقیم کے چراغ ُگل کر نے کے بعد جب اندھیری راہوں پہ ٹھوکریں ملنا شروع ہوتی ہیں تو ملکی نظام کے خلاف حکومت کے خلاف جلسے جلوس برپا کرنے لگتے ہیں اپنی غلطیوں پر نظر ِ ثانی کرنے کی بجائے الزام تراشیوں ،بہتان طرازی کا لامتناہی سلسلہ شروع کرنا ہماری روایت بن چکا ہے اور وہی کرتے ہیں مگر اپنے حصے کا چراغ جلانے کی کوئی سعی نہیں کرتا جیسے مہنگائی ختم کرنے کی باتیں و دعوے تو سب کرتے ہیں مگر مسند نشین ہونے سے پہلے کوئی نہیں بتاتا کہ وہ 20روپے کی روٹی کو کیسے 15روپے پر کرے گا کیسے یہ عوام کے ہمدرد ،معیشت کے کھاڑے کے پہلوان بجلی ،گیس و پٹرول کی قیمتوں کو جو بیرونی قرضوں کی وجہ سے بڑھائی گئی ہیں کم کریں گے اور کس معاشی فارمولے کے تحت اندرونی و بیرونی قرضوں کی موجودگی میں یہ اشیائے ضروریہ کو اعتدال پر لائیں گے اگر عوام یہ انتہائی اہم مگر عام سے سوال کو اپنے متوقع سیاسی قائدین کے سامنے اُٹھائیں تو ممکن ہے کہ عدم اعتماد کے خوف سے ان میں جھوٹ بولنے کی شرح میں کمی ہو جائے اور سچائی کے چھوٹے چھوٹے چراغ اپنی صداقتیں بکھیرنے لگیں اب جوہو چکا وہ ہو چکا اب کسی زمین پر پائوں رکھنے سے پہلے یہ اطمینان ضروری ہے کہ ماضی کی طرح ہم اپنے پیر کسی دلدل کے حوالے تو نہیں کر رہے ؟ہماری باتیں شکوک و شبہات کی بجائے عملی اقدام پہ ہونی چائیے جیسا کہ موجودہ حالات ہمیں یہ بتا رہے کہ کل تک خلیجی ممالک پہ امریکہ کی ساکھ جو قائم تھی وہ پاک سعودیہ کے دفاعی معاہدے سے ڈھیلی پڑ گئی ہے اُمور ِ خارجہ کے ماہرین اس مذکورہ پاک سعودیہ دفاعی معائدے کو رسمی دستاویز سمجھنے کی بجائے اسے یکجہتی کا ٹھوس اشارہ قرار دے رہے ہیں جوامریکی اثر و رسوخ سے آزاد ہونے کی نشاندہی کرتا ہے لیکن یہ ہماری باتیں ابھی یقین کے مراحل میں ہیں جو اُس سفارتی دائرے میں شامل نہیں ہیں جن سے امریکہ یا ٹرمپ حکومت نبر د آزما ہے اسرائیلی وزیر اعظم بیشک ستر بار معافیاں قطر سے مانگ لے مگر اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے غزہ کے مسلمانوں پر جاری ظلم کا مداوا یہ معافیاں نہیں ہیں بزورِ شمشیر بزور ِ طاقت کسی کمزور ملک پر چڑھائی اُن کے شہروں ،ہسپتالوں تعلیمی اداروں پر بمباری جنگی جرائم ہیں اس کی سزا صرف معافی تو نہیں ہوتی ۔اللہ کے غیض و غضب سے نا واقف لوگ نہیں جانتے کہ فرعون کا دریائے نیل میں ڈوبنے کا ارادہ نہیں تھا مگر ڈوب گیا شداد اپنی بنائی جنت میں سینکڑوں سال عیش کرنا چاہتا تھا مگر داخل ہونے سے پہلے ہی دروازے پہ گر کر مر گیا نمرود نے دنیا پر سینکڑوں سال تک حکومت کرنے کی منصوبہ بندی کی مگر ایک مچھر کے کاٹنے سے مر گیا یزید نے نواسۂ رسول ﷺحضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کر لمبی بادشاہت کا سوچا مگر تین سال میں ہی ٹانگ پر زہریلا زخم بھرنے سے عبرت ناک موت مرا ۔ہٹلر دنیا کو فتح کرنے نکلا مگر حالات کی کروٹ نے اُسے خودکشی کرنے پر مجبور کر دیا تاریخ اپنا چہرہ اُن حاکموں سے پوشیدہ نہیں رکھتی جو دنیا پر راج کرنے کے لئے کوئی بھی زیادتی کر نے کی ٹھان لیتے ہیں فلسطین میںقیام ِ امن کے لئے دی گئی تجاویز میں ایک تو اکثریتی رائے کو سامنے نہیں لایا گیا دوسری سب سے اہم بات جو انصاف کے تقاضوں پر پوری نہیں اُتر رہی وہ یہ کہ مسلمانوں کی حق تلفی کرتے ہوئے اُنھیں اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں ایک طرف امن مذاکرات کی تجاویز سامنے لائی جارہی ہیں تواسی دوران اسرائیل کے جبری قحط سے بھوک کی شدت سے بچے شہید ہو رہے ہیں مگر ہماری دنیا کے سیاست دانوں کی باتیں ختم نہیں ہو رہی ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کا بیس نکاتی ایجنڈا دنیا میں گھوم کر واپس ہو چکا ہے حماس بھی امریکی تجاویز پر عمل پذیر ہونے کی بجائے تحفظات لئے ہوئے ہے پاکستان اور سعودیہ اس بیس نکاتی امن پر اطمینان کا اظہار نہیں کر رہے ہیں بلکہ واضح طور اپنے خدشات کا اظہار کر چکے ہیں وہ اُصولی طور پر فلسطین کی بحالی اُس کی تعمیر اور آزادانہ حکومتی نظم ونسق کی حمایت میں ہیں جسکی تائید اُمت ِ مسلمہ کے ممالک کر چکے ہیں اتنی ساری گفت و شنید کے بعد بھی ہماری باتیں ہوں اور عمل نہ ہوں تو پھر یہ نیتوں کا فتور ہے جو دنیا کو ایک نئی جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے ٹرمپ کے لئے ممکن بات یہ ہے کہ وہ حماس کو مخاطب کرنے کی بجائے پاکستان و سعودیہ کو ٹاسک دے جو قیام ِ امن کے لئے بہتر معاون ہو سکتے ہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button