ہفتہ وار کالمز

امریکہ میں سیاسی تشدد !

دس ستمبر کو ایک ریلی سے خطاب کے دوران دائیں بازو کے مقبول سیاسی رہنما چارلی کرک کی ہلاکت کے بعد سے اب تک امریکہ تنائو اور تصادم کی لپیٹ میںہے۔ اس روز یوٹا ویلی یونیورسٹی میں اکتیس سالہ طالبعلم لیڈر جوش و جذبے سے بھرپور خطاب کے بعد حاضرین کے سوالوں کے جواب دے رہا تھاکہ چند سو گز دور ایک عمارت کی چھت سے ایک نوجوان نے گولی چلا کر اسے ابدی نیند سلا دیا۔ اس بائیس سالہ نوجوان نے کہا ہے کہ اسکے لیے چارلی کرک کی پھیلائی ہوئی نفرت نا قابل برداشت ہو چکی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ” Some hate can’t be negotiated out.” یعنی بعض نفرتیں بات چیت کے ذریعے ختم نہیں کی جا سکتیں۔اس مقتول سیاسی ایکٹویسٹ کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسے صدر ٹرمپ کے بعد دائیں بازو اور MAGA تحریک کا مقبول ترین رہنما سمجھا جاتا ہے۔ اس تجہیزو تکفین کی تقریب میں شرکت کے لیے امریکہ بھر سے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ا س تقریب سے خطاب کرتے ہوے صدر ٹرمپ اور انکے وزراء نے چارلی کرک کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا ـ ’’ میں ہمیشہ سے لوگوں کے سامنے اپنے عقیدے کے بارے میں بات نہیں کرتالیکن گذشتہ دو ہفتوں سے میں نے مذہب کے بارے میں اتنی بات چیت کی ہے کہ پورے سیاسی کیریئر میں نہیں کی۔‘‘ چارلی کرک سیاستدان ہونے کے علاوہ ایک Evangelical Christian لیڈر بھی تھا۔ اسکی پوڈ کاسٹ ’’ دی چارلی کرک شو‘‘ کو دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ ایریزونا میں اسکی تعزیتی تقریب سے خطاب کرتے ہوے صدر ٹرمپ نے کہا ’’ میں اپنے مخالفین سے نفرت کرتا ہوں اور انکی بھلائی نہیں چاہتا۔‘‘ چارلی کرک کی بیوہ Erikaنے کہا ’’ میں نے قاتل کو معاف کیا کیونکہ میرے پیغمبر نے مجھے یہی سکھایا ہے اور میرا شوہر بھی معاف کرنے پر یقین رکھتا تھا۔‘‘اسکے فو راً بعد صدر ٹرمپ نے کہا’’ آئی ایم ساری ایریکا۔ میں جانتا ہوں کہ چارلی اپنے مخالفین سے نفرت نہیں کرتا تھا۔ وہ انکی بھلائی چاہتا تھا اور میں اسکی اس بات سے متفق نہیں تھا۔‘‘ صدرٹرمپ کے اس بیان کی مخالفت کرتے ہوے انکے مخالفین نے کہا ہے کہ یہ ایک ایسا وقت ہے جب پوری قوم بری طرح منقسم ہے‘ سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے‘ ایسے مواقع پر صدر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بکھری ہوئی قوم کو یکجا کرے اور تصادم کی سیاست سے گریز کرے۔
صدر ٹرمپ کا سیاسی کیریئر کسی بھی دوسرے امریکی سیاستدان سے نہایت مختلف ہے۔ صدر امریکہ نے چند روز پہلے کہا ہے کہ دو مرتبہ انکا مؤاخذہ کیا گیا ہے اور پانچ مرتبہ ان پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ اسکے علاوہ ان پر دو قاتلانہ حملے بھی ہو چکے ہیں۔ گذشتہ سال تیرہ جولائی کو پنسیلوینیا کے شہر Butlerمیں ایک بیس سالہ نوجوان Thomas Crookنے ایک انتخابی جلسے میں صدر ٹرمپ پر AR-15 رائفل سے آٹھ گولیاں چلائی تھیں۔ ان میں سے ایک گولی انکے دائیں کان کو چھوتی ہوئی گذر گئی تھی۔ حملہ آور ایک قریبی عمارت کی چھت سے مزید رائونڈ چلانے کی تیاری کر رہا تھا کہ پولیس نے اسے ہلاک کردیا۔ اسکے بارے میںبتایا گیا ہے کہ وہ ایک تنہا شخص تھا جو زیادہ تر ویڈیو گیمز کھیل کر اور انٹر نیٹ کے تاریک گوشوں میں جھانک کر وقت گذارتا تھا۔ چارلی کرک کے قاتل Tyler Robinson میں بھی یہی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ریپبلیکن لیڈروں کے علاو ہ ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر بھی حملہ آوروں کے نشانے کی زد پر رہے ہیں۔ ریاست منی سوٹا میں ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر Melissa Hortmanاور انکے شوہر کو رواں سال جون میں ایک ستاون سالہ شخص نے انکے گھر میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میلیسا ہورٹ مین چھ برس تک منی سوٹا کی ریاستی اسمبلی کی سپیکر رہی تھیں۔ انکے قاتل Vance Boelterنے چودہ جون کی رات دو قتل کرنے کے علاوہ تین سیاسی شخصیتوں کو زخمی بھی کیا تھا۔ رواں سال اپریل کے مہینے میں پنسلوینیا کے ڈیموکریٹک گورنر Josh Shapiro کو قتل کرنے کی غرض سے Cody Allen Balmerنے انکی رہائش گاہ کو رات کے وقت آگ لگا دی تھی۔
گزشتہ ایک برس میں رو نما ہونیوالی یہ تمام وارداتیں سیاسی نوعیت کی تھیں۔ انکے نتیجے میں جو کچھ ہوا وہ بھی نتائج اور مضمرات کے اعتبار سے سیاسی ہی تھا۔ چارلی کرک کی ہلاکت کے بعد ایسے بیسیوںافراد کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا جنہوں نے سوشل میڈیا پر اس قتل کی حمایت کی تھی۔ ان میں سے اکثر نجی کمپنیوں میں کام کرتے تھے۔ ان اداروں کے مالکان نے ملک میں پائے جانے والے خوف و ہراس کے پیش نظر اپنے ملازمین کو سبکدوش کر دیا۔ گذشتہ چند ماہ میں تارکین وطن کو گرفتار کرنے والے وفاقی ادارے Immigration And Customs Enforcementپر کئی حملے ہو چکے ہیں۔
امریکہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ تشدد کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ تشدد کے ان ادوار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاسی تحریکوں کا نتیجہ ہوتے تھے اور ان میں قومی تشخص ‘ اخلاقی اقدار اور ملک کی سیاسی سمت پر اختلاف رائے ہوتا تھا۔ ان کی ایک مشترکہ وجہ تسمیہ یہ بھی تھی کہ لوگ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ انصاف حاصل کرنے کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں اس لیے تشدد کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا۔ چھ عشرے قبل 1960 کی دہائی میں صدر جان ایف کینیڈی‘ انکے بھائی سینیٹر رابرٹ کینیڈی‘ مارٹن لوتھر کنگ اور میلکم ایکس سیاسی تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اس قتل و غارت کے بعد ایک طویل عرصے تک امن قائم رہا تھا۔ موجودہ سیاسی تشدد کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ تنائو اور تصادم کی یہ لہر بھی گذر جائے گی اور امن اور خوشحالی کا دور واپس آ جائے گا۔

 

 

 

 

 

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button