پاک سعودی دفاعی معاہد ہ او ر امریکہ

بدھ سترہ ستمبر کو ریاض میںشہزادہ محمد بن سلیمان اور وزیر اعظم شہباز شریف نے جس دفاعی معاہدے پر دستخط کیے اس نے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اسی سالہ تاریخی کردار پر سوالیہ نشان ثبت کر دیا ہے۔ اس خطے میںمئی 1948 میں اسرائیل کے قیام ‘ مصر اور اسرائیل کے درمیان ستمبر 1978 میںکیمپ ڈیوڈ معاہدہ‘ یاسر عرفات اور اسحاق رابن کا ستمبر 1993 کا اوسلو معاہدہ اور ستمبر 2020کے ابراہام معاہدے سے لیکر اکتوبر 2023 کو شروع ہونیوالی اسرائیل حماس جنگ تک تمام تاریخی واقعات میں امریکہ نے کلیدی کردارادا کیا ہے۔مشرق وسطیٰ میں آٹھ عشروں پر پھیلے ہوے اس امریکی تسلط کے دوران ایک موقع بھی ایسا نہیں آیا جب امریکہ کی گرفت اس خطے پر ڈھیلی پڑی ہو۔ اس دوران خلیجی ممالک نے اربوں ڈالر زکے عوض امریکی اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی خریدی۔ اپنے داخلی مسائل کی وجہ سے خلیجی حکمران ایک طاقتور فوج بنا سکے اور نہ ہی مضبوط خارجہ پالیسی تشکیل دے سکے۔خطے میں اسرائیل اور ایران کی جارحانہ کاروائیوں کے جواب میں عرب ممالک نے ہمیشہ امن پسند اور متوازن رویہ اختیار کیا۔ انہیں کسی میدان ِجنگ میں اترنے کی اس لیے بھی ضرورت نہ تھی کہ امریکہ ان کے تحفظ کے لیے موجود تھا۔ اسرائیل نے امریکہ کا اتحادی ہونے کی وجہ سے عرب ممالک کے ساتھ امن معاہدے کر لیے اور جارحیت سے گریز کیا۔ مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیل کے بہیمانہ مظالم سے صرف ِنظر کرتے ہوے عرب ریاستوں نے بقائے باہمی کی پالیسی کو مشعل راہ بنائے رکھا مگر نو ستمبر کو قطر کے دارلخلافے دوحہ پر اسرائیل کے فضائی حملے نے مشرق وسطیٰ کے پون صدی پرانے سیاسی بندوبست کو اڈھیر کر رکھ دیا۔ اس روز عرب ریاستوں کو اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا کہ امریکہ ‘ اسرائیل کی منہ زور طاقت کو لگام نہیں دے سکتا۔ دوحہ میں حماس کی قیادت پر کیے گیے اس حملے نے عرب حکمرانوں کو یہ احساس دلایا کہ انکی باری کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔
اس حملے کے فو راًبعد اسرائیل کے وزیر اعظم بنجا من نتن یاہو نے جو طویل بیان دیا اسکا کلیدی نکتہ یہ تھا کہ امریکہ اگر اسامہ بن لادن کے تعاقب میں پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے تو اسرائیل بھی دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے لیے کسی بھی ملک پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ خطرے کی اس گھنٹی کے چھ روز بعد دوحہ میں عرب لیگ اور او آئی سی کے ممبر ممالک کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں اسرائیل کے خلاف تندو تیز بیانات تو دیئے گیے مگر ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی کسی عملی اقدام سے گریز کیا گیا مگراسکے دو دن بعد سترہ ستمبر کو ریاض میں سعودی عرب اور پاکستان نے ایک ایسے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے جو اس خطے میں طویل امریکی تسلط کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ معاہدہ اگر چہ کہ دو اسلامی ممالک کے درمیان طے ہوا ہے مگر عرب حکمرانوںکا تذبذب اور غصہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اب امریکہ کے وعدوں اور یقین دیانیوں پر اعتبار کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ امریکہ سے فاصلے بڑھانے کے جس سفر کا آغاز انہوں نے کر دیا ہے اسکی منزل چین بھی ہو سکتی ہے۔ چین نے مارچ2023میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان امن معاہدہ کرا کے اس خطے کی سیاست میں اپنی دلچسپی اور اثر رسوخ کا ثبوت دیا تھا۔ یہ ایک ایسا سنگ میل تھا جس کے بعد امریکہ کو اس خطے کی حساسیت کے پیش نظر اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا چاہیئے تھی مگر وہ اپنی داخلی سیاست کی وجہ سے اسرائیل سے اپنے لگائو اور شفقتوں میں کمی پر آمادہ نہ ہوا۔ اس غیر متوازن پالیسی کی قیمت اس نے کبھی نہ کبھی ادا کرنا تھی جو پاک سعودی عرب دفاعی معاہدے کی صورت میں اس نے ادا کر دی ہے۔
اس معاہدے کو طے ہوئے ے ایک ہفتہ بیت چکا مگر ٹرمپ انتظامیہ نے ابھی تک اس پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ اس معنی خیز خاموشی کا مطلب یہی ہے کہ جس معاہدے نے ایک اہم اور حساس خطے میں امریکی اثر رسوخ کو نقصان پہنچایا ہے وہ اسکی حمایت کیوں کرے گالیکن اسکی مخالفت بھی اِسے نہایت مہنگی پڑ سکتی ہے۔ ا س معاہدے پر برہمی کا اظہار امریکہ اور سعودی عرب کے پون صدی پر محیط دیرینہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ اسی لیے واشنگٹن نے ابھی تک اس معاہدے پر کوئی پالیسی ا سٹیٹمنٹ نہیں دی۔
سعودی عرب اور پاکستان کے گہرے روابط کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ امریکہ دونوں ممالک کے قلبی اور روحانی تعلق سے بھی بے خبر نہیں۔ معروف امریکی صحافی اور مؤرخ باب وڈورڈ نے گذشتہ سال شائع ہونیوالی اپنی کتاب” WAR” کے صفحہ 271 میں لکھا ہے کہ سینیٹر لنڈزے گراہم ریاض کے شاہی محل میں شہزادہ محمد بن سلیمان سے کہہ رہے تھے کہ وہ ابراہام معاہدے میں شامل ہو کر اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔ اسکے جواب میں شہزادہ سلیمان نے کہا تھا کہ اس مقصد کے لیے فلسطین کے دو ریاستی حل کی طرف ٹھوس پیشرفت ضروری ہے اورانکے ملک کو یورینیم کی افزودگی کی اجازت بھی چاہیئے ہو گی۔ سینیٹر گراہم نے کہا کہ "Well, that is going to be hard to do because people are afraid you will create a bomb.” شہزادہ سلیمان نے جواب دیا” I don’t need uranium to make a bomb, I’ll just buy one from Pakistan.” اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی فارن پالیسی سٹیبلشمنٹ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کسی دفاعی معاہدے کے امکان سے بے خبر نہ تھی مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اس نوعیت کا معاہدہ اسکے اپنے مفادات کے لیے ایک ضرب کاری ثابت ہو سکتا ہے۔ اب اگر دوسرے خلیجی ممالک بھی اس معاہدے میں شامل ہو جاتے ہیں تو پھر اس خطے کی سیاسی بساط پر ایسی تبدیلیاں رونما ہوں گی جو امریکی تسلط کے اختتام کا نقطہء آغاز ثابت ہوں گی۔