چرچے ہیں موت کے !

نذیر تبسم موت سے گلے ملنے سے کچھ لمحات قبل اپنے مداحوں میں بیٹھے ادب کے پھولوں سے اپنی مسکراتی گفتار کے ذریعے اُن کی خوشبوبکھیر رہے تھے زمانے کی منافقت اور وقت کے جھوٹ سے آگاہ کر رہے تھے کہ موت نے آلیا اور وہ دار ِ فانی کوچ کر گئے نذیر تبسم مرحوم پشاور یونیورسٹی کے اُردو ڈیپارٹمنٹ میں اُردو کے پروفیسر رہے شاعرانہ مزاج نے انھیں شاعری کی جانب متوجہ کیا تو بے ساختگی سے ،سچائی سے زمینی حقائق کو اپنے موتیوں جیسی لفاظی سے زمانے کی سماعتوں کی نذر کرتے رہے مگر اب اُن کا خلا پورا ہونے میں شاید وقت لے کیونکہ بہ زبان ِ شاعر بات یا د آگئی کہ ہم نہ ہوں گے تو کسی اور کے چرچے ہوں گے ۔خلقت ِ شہر تو سننے کو فسانے مانگے ۔بہرحال دنیا دعائوں میں کسی کو یاد رکھ لے تو یہ بھی نعمت ہوتی ہے کیونکہ دنیاداروں کو فرصت کے لمحات ملتے کہاں ہیں ضروریات کا بوجھ اٹھائے دنیا میں قیام پذیر یہ انسان زندگی کی کچی پگڈنڈی پہ چلتا موت سے بچنے کی کوششوں میں تو رہتا ہے مگر وقت ِ موت سے لاعلم ہوتا ہے نذیر تبسم مرحوم کی فوتگی پر بہت سے شعراء کرام کا ذکر ِ خیر ،گزری شاموں کا ذکر ہوتا رہا افسردہ افسردہ سی مسکراہٹوں میں برسوں پہلے لحد میں اُتری عظیم ہستیوں کو زیر ِ لب یاد کرکے خود کو بھی لحد کے قریب پایا تو استغفار کا ورد زبان سے جاری ہو گیا ۔وطن ِ عزیز میں جہاں سیلاب کی تباہ کاریوں سے اموات کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اس کے ساتھ دہشتگردی کے واقعات سے بھی پُر امن شہریوں کو اور حفاظت پر مامور حفاظتی دستوں کو بھی جام ِ شہادت پلایا جا رہا ہے سیلاب اور دہشتگردی کی وارداتوں سے ہماری اس پاک سرزمین کو نشانہ بنانے والی ،اموات کو چرچوں کی صورت پھیلانے والا ہمسایہ ملک بھارت ہی ہے جو پاکستان کو ہر وقت پریشانیوں میں مبتلا رکھ کر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل چاہتا ہے بھارت یہ کاروائیاں کرنے میں اکیلا نہیں ہے پس ِ پردہ بڑی طاقتیں جو دین ِ اسلام کے خلاف ہیں اور وہ کسی بھی اسلامی ملک کو ایٹمی طاقت کے ساتھ دیکھنا پسند نہیں کرتے ٹرمپ اور مودی کی ٹیرف پر لڑائی یا ناراضگی وقتی بھی ہے اور دکھاوا بھی ۔گو کہ سفارتی دوستی کے پیش ِ نظر امریکی حکم کی بجا آوری کے لئے سعودی اور عراقی کمپنیوں نے بھارت کو خام تیل کی فروخت روک رکھی ہے جو کسی بھی سمجھوتے کے بہانے کھل جائے گی ریاست ِ پاکستان کا چین کے ساتھ بڑھتا ہوا تعلق اور سی پیک کی افادیت کسی بھی دوسری طاقت کو نہیں بھا رہی ہے اسی لئے بھارت کی جارحانہ کاروائیاںپاکستان کے خلاف اپنے دریائوں کے پانی کو ہتھیار بنا کر اور دہشت گردی براستہ افغانستان کر کے موت کے چرچے کر رہا ہے پاک فوج پوری مستعدی سے ان بزدلانہ حرکات کا جواب بہادری سے دے کر بھارتی عزائم کو خاک میں ملا رہی ہے مگر ہم اپنے دشمنوں کے وار سے مکمل محفوظ نہیں ہو رہے نہ سیلاب سے اور نہ دہشت گردی سے ۔دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں بنوں کے ایف سی مرکز پر حملہ سے 6جوان شہید ہوئے اور کوئٹہ میں سیاسی جلسے کے اختتام پر خود کش حملے سے 14شہید اور 33شدید مجروح ہیں دشمنوں کی ایسی کاروائیاںمسلسل کرنے کا مقصددنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان اپنی ایٹمی تنصیبات کا دفاع نہیں کر سکتا حالانکہ کے حالیہ پاک بھارت جھڑپوں میں پاک فوج نے انڈین فضائیہ کو دھول چٹا دی ہے جس کا اعتراف دنیا کو بھی ہے دفاعی قوتوں کو اور تجارتی لحاظ سے سی پیک کے منصوبے کو تکمیل تک پہنچنے سے پہلے ہی روکنا بھی غیر ملکی دشمن قوتوں کے مذموم عزائم ہیںجن کا پورا ہونا صرف خواب ہے مضبوط دفاع کے حقائق بھارت و دیگر کی انتہا پسندانہ سوچ کی دسترس سے باہر ہیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں کا جال بچھا ہوا ہے مگر بھارت کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو رہی ۔سی پیک سابقہ حکومت کے نظر انداز کرنے کے باوجود ابھی دوسرے مرحلے میں کامیابی سے رواں ہے اگر اتنی ہزیمت و رکاوٹیں درپیش نہ ہوتیں تو سی پیک اچھے خاصے مرحلے تکمیل کے طے کر چکا ہوتا ۔سمجھ سے بالا ہے کہ ترقی کے اس زینے کی سیڑھیاں چڑھنے سے تحریک انصاف کیوں کتراتی رہی ؟ملکی مفاد میں یہ سوال اُس سے پوچھا جا سکتا ہے لیکن ضروری ہے کہ چرچے ہیں موت کے ملک کے چاروں طرف ان کا سدباب کرنا ناگزیر ہے سیاست نہیں ریاست اہم ہے انسانیت کا مجروح تقدس کسی نے کھلی آنکھوں سے دیکھنا ہو تو وہ غزہ کا رخ کرے جہاں اسرائیل کے جبری قحط سے کئی معصوم بچے لاغر بوڑھے اپنے خالق ِ حقیقی سے جاملے ہیں چرچے ہیں موت کے غزہ کے چاروں طرف اور ابھی یہ رکا نہیں کیونکہ بڑی طاقتیں اسرائیل کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہیں مگر اسرائیل اس روئے زمیں پر اُمت مسلمہ کو جینے ہی نہیں دیتا ۔پاکستان بھارت کی آبی جارحیت اور دہشتگردی کی وارداتوں سے نمٹتے ہوئے عوام اور عسکری دستے جام ِ شہادت نوش کر رہے ہیں لیکن واضح نہیں کہ غزہ میں جبری قحط سے ہونے والی اموات پر کب کوئی انسانی حقوق کا پرچم اُٹھانے والے اپنی آواز دیگر ملکوں کی عوام کے ساتھ ملا کر اس ظلم و جبر کے خلاف بولیں گے اور موت کے ان چرچوں کو خاموشی نصیب ہو گی ۔