پاکستان میںغیر معمولی بارشیں ،سیلاب اور کچھ دوسرے تاثرات!

میرے پاکستانیوں۔ ہر دوسرے تیسرے سال آنے والے سیلاب اس دفعہ کچھ زیادہ ہی زوروں پر آگئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا ’’اس سال بارشیں زیادہ ہوئی ہیں اس سے torrential rains ہوئی ہیں۔ ماشااللہ۔ ہمہ خانہ آفتاب است ۔ عمران خان نے کہا تھا کہ یہ لوگ اتنے پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں اور کوشش بھی نہیں کرتے۔ پاکستانی سیاستدانوں نے جو ایک خاص طاقتور طبقہ کے مدح سرا ہیں، انہوں نے سارا الزام بھارت پر دھر دیا، کہ بھارت نے دریائوں کے بند کھول دیئے اور پاکستان میں غیر معمولی سیلاب آ گیا۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پنجاب نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے خلاف ہر قسم کے انتظامات کئے ہوئے ہیں۔ البتہ خفت انہیں تب اٹھانی پڑی جب وہ ایک امدادی کشتی میں سوار ہوئیں، اور انہوں نے نوٹس لیا کہ اس کشتی میں نہ وائر لیس ہے نہ لوگوں کو بچانے کی حفاظتی واسکٹ ہیں، نہ دوائیاں ہیں اور نہ ہی اور ضروری سامان۔وہ محض ایک خالی پیلی کشتی تھی۔بہر حال یہ کون سی نئی بات ہے۔پاکستان دہائیوں سے ایسے ہی خالی وعدوں پر چلایا جا رہا ہے۔
زبردست طغیانیوں نے ان دریائوں کو مچلتے پانیوں سے بھر دیا ہے جو سردیوں میں نالی جتنا پانی بھی نہیں دکھاتے۔یہ دریا، اپنے نزد کی زمینوں کو زیر آب کر رہے ہیں جس سے لوگوں کے مکان، اور فصلیں دریا برد ہو رہی ہیں۔ لگتا ہے کہ آنے والی چاول کی فصل اب زیادہ تر نہیں آئے گی۔لوگ اپنی اور اپنے مویشیوں کی جانیں بچاتے بھاگے پھر رہے ہیں اور پوچھتے ہیں وہ امداد کب آئے گی جسکا وعدہ تھا اور جس کی ابھی ضرورت ہے۔لیکن حکومت حسب معمول احکامات جاری کرنے میں مشغول ہے تا کہ لوگوں کو بہلایا جا سکے۔ لیکن جوں ہی سیلابوں کا پانی خشک ہو گا، حکومت اپنے معمول کے منصوبوں پر توجہ مبذول کر لے گی جن میں کمیشن اچھا ملتا ہے۔ پھر جب سیلاب آئیں گے تو ان کے بارے میں سوچیں گے اور حسب دستور بیان بازی سے کام چلالیں گے۔البتہ سیلابوں کی تباہ کاریاں بڑھا چڑھا کر ٹی وی پردیکھانی چاہئیں
یہ تو اللہ کی طرف سے پاکستان کو تحفہ ہے۔ان وڈیو کو دیکھ کر مخیر ممالک بھاری امداد دیتے ہیں جو زر ِمبادلہ میں آتی ہے اور یار لوگ اس سے گلچھرے اڑاتے ہیں۔مصیبت زدگان تک ایسی امداد کم ہی پہنچتی ہے۔پاکستان کی حکومتیں تو دعا مانگتی ہیں کہ کوئی آفت آئے اور امداد آئے۔
سیلابوں سے عوام کو امداد اگر مل رہی ہے تو اس میں فوجی جوان پیش پیش ہیں۔ کہیں پولیس والے بھی دیکھے گئے۔شاید فوج کے کمانداروں کو یہ نادر موقع ملا ہے اپنی ڈوبتی ہوئی ساکھ کو بچانے کا۔ لیکن خادم کا خیال ہے کہ عوام فوج کے جوانوںسے کبھی بھی مایوس نہیں تھے۔ مسئلہ تو ان کے بڑوں کا ہے جو پاکستان کی سب سے مقبول جماعت، اس کے لیڈر اور قائدین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ نہ کوئی عورتوں اور فیملیز کی حرمت کا خیال ہے اور نہ سچ اور جھوٹ کا۔یہ بڑے افسر وں کی غلط فہمی ہو گی کہ وہ سیلاب کی آڑ میں اپنی ساکھ بحال کر سکیں گے؟ ایک فلمی ڈائیلاگ ہے۔ ’’پبلک سب جانتی ہے‘‘ ۔ کسی عا م آدمی سے پوچھ کر دیکھ لیجئے کہ9مئی کے واقعات کو کتناسمجھتا ہے۔ ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
پبلک جانتے بوجھتے ہوئے اپنے حالات سے سمجھوتہ کئے ہوئے ہے۔اس نے کرپشن سے سمجھوتہ کر لیا ہے، لیکن مہنگائی سے بہت تنگ ہیں۔بجلی کے بلوں سے بالخصوص۔ اب یہ بات زبان زد عام ہے کہ آئی پی پی کن لوگوں نے بنوائے اور ان سے مستفید کون ہو رہا ہے ؟ ا ور عوام کوکن نا کردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے؟اگر میاں برادری یہ سوچ رہی ہے کہ وہ اقتدار سے چمٹے رہیں گے تو فارم 47 پر بھروسہ رکھیں۔ فارم 45سے تو انہیں اقتدار ملنے سے رہا۔اس لیے بوٹ چمکاتے رہئے اور حکم بجا لاتے رہیے۔لیکن یاد رکھیں کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور ایک دن یہی بوٹ آپ کی چندیا بھی چمکا رہے ہو نگے۔
بجلی سے خیال آیا کہ پاکستان کے سوداگراورتاجر برادری کس دنیا میں رہتی ہے؟ تمام مہذب ملکوں میں کاروبار، دوکانیں صبح10-9کھل جاتے ہیں۔ اور شام کو 6بجے بند ہو جاتے ہیں، سوائے چند گروسری سٹوروں کے یا شاپنگ مالز کے۔ پاکستان میں دوپہر کے 12بجے اور اس کے بعد دوکانیں کھلتی ہیں۔ جب کہ سورج صبح 6بجے نکل آتا ہے۔ اگر یہ قوم روشنی کے6گھنٹے سو کر ضائع کر دیتی ہے تو بجلی مہنگی ہونے کی شکایت کیوں کرتی ہے؟ چلیں ہم صبح ۹ بجے سے کاروبار شروع کر دیں اور شا م کے چھ بجے بند کر دیں توکئی گھنٹے دن کی روشنی استعمال ہو گی، جس سے بجلی کی مانگ میں کمی ہو گی اور اس کے نرخوں میں بھی۔لیکن کیوں؟ وہ کہیں گے کہ دوبئی اور خلیجی ریاستوں میں تو ایسے ہی ہوتا ہے، تو ہم کیوں نہ کریں؟بھائی جان۔ خلیجی ریاستوں کو بجلی کا کوئی مسئلہ نہیں۔ اس لیے وہ جو مرضی کریں۔ جب پاکستان میں بھی آبی بجلی گھر بن جائیں گے تو آپ بھی12بجے یا اسکے بعد دوکانیں کھولیے؟یہ حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ کاروبار صبح جلد کھولیں تا کہ بجلی کی ضرورت کم سے کم پڑے۔صارفین تو آپ کے اوقات کے مطابق آئیں جائیں گے، کیونکہ ان کی ضروریات جیسے پوری ہو ںگی وہ ویسے ہی انہیں پوری کریں گے۔اب رات دیر تک کاروبار کھلا رکھ کر نہ صرف بجلی کا تصرف بڑھتا ہے، گاہکوں کی حفاظت کا سوال بھی اٹھتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایسے حالات نہیں کہ گاہکوں کی حفاظت کا مسئلہ ہو۔
پاکستان کے سیاسی قائدین اور حکمران، سیلاب کے پانیوں کے ساتھ تصویریں بنوا رہے ہیں،اور ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ عوام کے دکھ درد میں شریک ہیں اور ان کی تکلیفوں کا مداوا کریں گے۔اور اسکے ساتھ پنجاب کی ماں مریم صفدر، اپنے لائو لشکر کے ساتھ جس میں سنا گیا ہے کہ زیادہ غیر متعلق افراد تھے، جاپان اور ہانگ کانگ گئیں۔ جاپان کا دورہ سرکاری بنایا گیا، اور ہانگ کانگ شاپنگ کے لیے۔قیمتی لباس اور آرائشی سامان وہیں سے ملتا ہے۔ایک قرضوں سے لدے ، غریب ملک کی سرکاری ملازم سرکاری خرچ پر یہ کیسے کر لیتی ہے، تعجب ہے۔خیر اگر چچا وزیر اعظم ہو اور بھائی فیلڈ مارشل تو کس کی جرات کے ان کو پوچھے۔بھتیجی صاحبہ کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔روزآنہ اخباروں میں کسی نہ کسی عذر پر ان کی شبیہ اخباروں میں شائع ہوتی ہے۔ اپنی تصویریں ہر سرکاری نمائش میں لگواتی ہیں۔ اس کے لیے اپنی خوبصورتی کو چار چاند لگوانے پر لاکھوں ڈالر بھی خرچ کرتی ہیں۔ کاش اس عورت کو یہ احساس ہو جاتا کہ قدرتی حسن ہی کافی ہوتا ہے، اور اصل حسن اخلاق کاہوتا ہے۔ یہ ایک غریب ملک کی حکمران کو زیب نہیں دیتا کہ کروڑوں روپے اپنی آرائش پر خرچ کرے۔ہمارا کہنا انہیں برا لگے گا لیکن ’کہتی ہے خلق خدا غائبانہ کیا؟‘ بھی جاننا چاہیئے۔ بہر حال، وہ اور ان کے اطوار، پاکستانی سوشل میڈیا پر رونقیںلگا رہے ہیں، اور ان کو کیا چاہیے؟
عوام نہ صرف بجلی کے بلوں کے شاکی ہیں، مہنگائی کےبھی اسباب کم نہیں۔ ان میں پٹرول بھی سر فہرست ہے۔ پاکستان کی اکثریت آبادی نوجوان ہے۔ اس آبادی کو موٹر سائیکل چاہیے، کار وہ لے نہیں سکتے۔ لہٰذا سڑکوں پر جتنی کاریں ہوتی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ موٹر سائیکلیں ہیں۔اور موٹر سائیکل پر ایک سے لیکر پانچ سوار تو دیکھے جاتے ہیں، یعنی پوری فیملی۔ لیکن تین بالغ تو اکثر نظر آتے ہیں۔ پولیس کی کڑی مشق کے نتیجہ میں، موٹر سائیکل چلانے والا تو اکثر ہیلمٹ پہنے نظر آتا ہے لیکن میں نے ایک دفعہ بھی ساتھ بیٹھے افراد کو ہیلمٹ پہنے نہیں دیکھا۔ یا تو پولیس نے یہ شرط رکھی ہی نہیں، یا اس پر پابندی نہیں۔اصل مسئلہ عوام کو ادراک ہی نہیں کہ ہیلمٹ پہننا کیوں ضروری ہوتا ہے۔اور ہر سواری کو کیوں پہننا لازمی ہونا چاہیئے؟ نہ تو محکمہ پولیس ہی موثر آگاہی دینے کی کو شش کرتا ہے اور نہ ہی کوئی اور رفاہی ادارہ۔ بس کام چل رہا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی عوامی سواری موٹر سائیکل رکشا ہے اور اس کی ایک بڑی قسم جسے چنچی کہتے ہیں۔ اس میں چار سے چھ افراد بیٹھ جاتے ہیں جیسے بس میں۔ یہ بھی بہت عام ہیں۔ پنجاب کی حکومت نے چند سال پہلے ایک بس سروس چلائی جو سڑکوں کے اوپر سے جاتی ہے جیسے امریکہ میں سب وے کہیں کہیں اوپر کے ٹریک پر چلتی ہے۔ یہ کافی مقبول ہے۔ ایک اور ذریعہ اورینج ٹرین ہے ، یہ 26کلو میٹر کا راستہ طے کرتاہے لیکن کسی نے مجھے بتایا کہ ابھی لوگوں کو اس کی عادت نہیں پڑی۔ کرائے رعایتی ہیں اور پرائیویٹ سواریوں سے کم۔ ایک اور سواری موٹر سائیکل ہے جسے آپ اوبر کی طرح منگوا سکتے ہیں اور سوار کے پیچھ بیٹھ کر آجا سکتے ہیں۔اگر رش زیادہ ہو تو یہ ذریعہ موثر رہتا ہے۔ البتہ سخت دھوپ اور بارش میں آرام دہ نہیں۔ان سواریوں کے علاوہ ، آپ ڈرائیور سمیت کار بھی کرائے پر لے سکتے ہیں ایک دن کے لیے یا لمبے عرصہ کے لیے۔ یہ آپ کی ضرورت اور وسائل پر منحصر ہے۔
لاہور میںدو بڑی پبلک لائبریریاںہیں۔ قائد اعظم لائبریری جناح باغ میں اس عمارت میں ہے جو انگریزی دور میں صاحبوںکی کلب تھی اسے جیم خانہ کہتے تھے۔ اس میں کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ ہے اور مختلف اخباروں کے پلندے۔ لائبریری عام پبلک کے لیے نہیں ہے۔ صرف تحقیق کرنے والوں کے لیے، جنہیں باقاعدہ رکن بننا پڑتا ہے۔ اس کے لیے ایک کارڈ بھریں، اپنی اسناد، شناختی کارڈ اور کسی سرکاری افسر کی سفارش بھی چاہیئے۔راقم نے جو کتابیں دیکھیں، وہ شیلفوں پر آراستہ تھیں۔ ایک کتاب جو تازہ آمد کے شیلف پر تھی خاصی پرانی تھی۔ غالباً لائبریری کا بجٹ تنخواہوں کے علاوہ نئی کتب خریدنے کی گنجائش نہیں رکھتا۔ بہر حال ، راقم نے دیکھا کہ ایک بڑا ہال تھا جس میں بہت سی میزیں اور کرسیاں تھیں۔ پچاس ساٹھ مرد، کچھ خواتین ، تحقیق کر رہے تھے۔ مجھے ماحول بڑا گھٹا گھٹا لگا۔ میرا ارادہ جس قسم کی تحقیق کا تھا، مجھے ڈر لگا کہ جلد ہی کسی جرم میں حوالہ پولیس کر دیا جائوں گا۔اس لیے جلد ہی کان لپیٹ کر باہر آ گیا۔ دوسری پبلک لائبریری لاہور عجائب گھر کے عقب میں ہے جس میں راقم نے اپنے ہائی سکول کی کتنی دوپہریں گذاری تھیں۔سوچتا ہوں کہ کسی دن وہاں کے حالات بھی دیکھوں۔ اس اتوار کو ارادہ تھا کہ انارکلی کے باہر جو کتابوں کا بازار لگتا ہے اسے دیکھوں، لیکن بارش کی پیش گوئی کے مد نظر وہ ارادہ بھی بدل دیا ہے۔
بارش اللہ کی رحمت ہوتی ہے اگر اس کو صحیح طریقہ سے وصول کیا جائے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ گرمی کی شدت کو کم کر دیتی ہے، اور یہی ہوا بھی۔ درجہ حرات ایک 100سے اوپر تھا جو 81درجہ پر آ گیا۔ ہے۔بارانِ رحمت ہے کہ قدرت کی فیاضیاں دکھانے پر تلی ہوئی ہے۔ جب اس کی مرضی ہو گی تو موسم خشک ہو جائے گا۔لوگ باگ جو آرام سے گھر بیٹھے ہیں، پکوڑوں کی خواہش کرتے ہیں۔اور جو بارش میں موٹر سائیکل پر آ جا رہے ہیں وہ سوچتے ہوں گے کہ جب بھی پیسے ہاتھ آ گئے، تو کار خرید لیں گے۔ ابھی تو بھیگے ہوئے موسم کو گوارہ کر لیں یا اس کا مزہ لے لیں۔
پاکستان کے عوام جو سیلاب کی زد میں ہیں حکام کی توجہ چاہتے ہیں، لیکن وزیر اعظم چین میں کانفرنس میں شرکت کے لیے چلے گئے ہیں۔ اس کانفرنس کے شرکاء بھی کیا سوچتے ہونگے کہ یہ صاحب اپنے سفیر کو بھی کہہ سکتے تھے کہ وہ شرکت کر لے لیکن پھر وہ پاکستانی حاکم ہی کیا ہوئے جو خاطر تواضع کا اور ڈالروں میں بھتہ ملنے کا یہ موقع جانے دیتے ۔ ان کے ساتھ اور مشیروں، وزراء اور افسروں کا غول بھی تو گیا ہو گا۔ عوام کا کیا ہے وہ کسی نہ کسی طرح گذارا کر لیں گے۔


