ہفتہ وار کالمز

سہیل وڑائچ سنڈرم

پہلے تو یہ سمجھ لیا جائے کہ سنڈرم کیا ہے، یہ ایک CONDITION ہے جس کی وجہ سے خون میں WHITE BLOOD CELLS موجود ہوتے ہیں اس کی کچھ تفضیل یہ ہے کہ کچھ جانی پہچانی
علامات جو بار بار بدن میں ابھر آتی ہیں اور کسی بیماری یا خرابی کو ظاہر کرتی ہیں، یہ یونانی زبان کا لفظ ہے جو انگریزی ادب استعمال ہوتا ہے اس کو استعارے کے طور پر سیاسیات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، کوئی ایسی خرابی جو مختلف افراد یا مختلف گروہوں میں نظر آتی ہے یا افراد اس خرابی سے متاثر ہوتے ہیں ہم میڈیا کے حوالے سے کئی کالم تحریر کر چکے ہیں اور میڈیا کی خرابی کو بیان کر چکے ہیں، میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے میڈیا نہ صرف ریاست کی تشکیل کا حصہ ہوتا ہے بلکہ ریاست کی پالیسیوں کا ناقد ہوتا ہے ناقد ہونے کا مطلب ریاست کو EXPLOIT کرنا نہیں بلکہ ریاست کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ ریاست کو کس طرح عوامی امنگوں کے مطابق اپنی پالیسیاں ترتیب دینی چاہیئے، یہ بھی بتاتا چلوں کہ عوامی امنگوں کو بہتر طور پر ریاست کے سامنے پیش کرنا بھی میڈیا کا کام ہے عوام خود اپنی امنگوں کا اظہار نہیں کرتی میڈیا یہ بتاتا ہے کہ عوام کے کیا مسائل ہیں اور ان کا ممکنہ حل کیا ہو سکتا ہے، یہ دائرہ وسیع ہو کر امورِ خارجہ اور بین الا قوامی امور تک پہنچ جاتا ہے مثال کے طور پر آج کل بنگلہ دیش سے تعلقات کی بہتری کی بات ہو رہی ہے ایک صحافی یہ بتا سکتا ہے کہ بنگلہ دیش سے تعلقات سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے، اسحاق ڈار کو وزیر خارجہ بنا دیا گیا جو امور خارجہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ، وہ بنگلہ دیش گئے اور انہوں نے کئی معاہدات پر دستخط بھی کر دیئے ہیں میں PRESUME کر سکتا ہوں کہ ان معاہدات پر سوچا گیا ہوگا وزارتِ خارجہ نے غور بھی کیا ہوگا مگر گفتگو میں جو زبان استعمال ہوتی ہے وہ بھی اہم ہوتی ہے اور کبھی کبھی اس کے حوالے بھی دیئے جاتے ہیں ، بات یہاں تک آگئی ہے تو عرض کرتا چلوں کہ یہ معاہدات ایک عبوری حکومت سے کئے جا رہے ہیں بنگلہ دیش میں کچھ عرصے کے بعد الیکشن ہونے ہیں اور کچھ پتہ نہیں کہ نئی حکومت آنے کے بعد معاہدات کا مستقبل کیا ہوگا مجھے یقین ہے کہ اس وقت ان معاہدات کے بارے میں جو تکنیکی تنقید ہو رہی ہے وہ حکومت کے کان میں پڑ رہی ہوگی، یہ بات ضمنی طور پر گفتگو میں آگئی بات ہو رہی تھی میڈیا کے مثبت کردار کی، امریکہ میں WASHINGTON POST کا اداریہ اور کالم اتنے وقیع ہوتے ہیں کہ حکومتیں ان پر کان دھرتی ہیں اور ان کو پالیسی کا حصہ بنا لیتی ہیں بہت دیانت داری سے پاکستان کے میڈیا کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ پاکستان کی صحافت میں کبھی PROFESSIONALISM نہیں آیا، قیام پاکستان کے بعد ہر وہ شخص جو اچھی اُردو لکھتا تھا وہ کالم نگار بن گیا خبریں ریڈیو سے لے لی جاتیں کل تک ہماری خبریں رائٹر اور اے پی پی سے مستعار ہوتی تھی بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ خریدی جاتی تھیں، پھر لکھا جانے لگا نیوز ڈیسک، پنجاب یونی ورسٹی میں شعبہ صحافت 1965 میں قائم ہوا اور کراچی یونیورسٹی میں 1970 میں ، کیا یہ مان لیا جائے کہ 1970 سے پہلے پاکستان میں پیشہ ورانہ صحافت کو وجود نہیں تھا عطائی صحافت عام تھی یہ بات بہت حد تک درست ہے، عام طور پر بیروزگار صحافی اور رپورٹر بن جاتے تھے ، یہ لوگ شہر کے کسی اسکینڈل کی تلاش میں رہتے، اگر اخبار کا ایڈیٹر اسکینڈل چھاپ دیتا تو صحافی راتوں رات مشہور ہو جاتا، صحافی اور رپورٹر کی یہ اوقات تھی ، کچھ منظورِ نظر لوگ ACCREDITED صحافی کہلاتے تھے حکومتی تقریبات کی رپورٹنگ کے لئے ان کوہی بلایا جاتا، الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد ہر حسینہ اینکر بن گئی یا NEWS CASTER کامران خان کے پروگرام میں جاوید جبار نے کہا تھا کہ ہر چینل کا ہر اینکر کسی نہ کسی کالج یا یونیورسٹی کا DEBATER بن گیا ہے، نام نہاد افغان جہاد شروع ہوا تو درجنوں نام نہاد صحافیوں کو ایجنسیوں نے ملازم رکھ لیا گیا یہاں سے سہیل وڑائچ قسم کے صحافی نکلنا شروع ہوئے آج سارے بڑے اینکرز اور صحافیوں نے ایجنسیوں کے ساتھ کام کیا ہوا ہے وہ حامد میر ہوں یا شہزاد اقبال، یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جن صحافیوں نے ایجنسیوں کے ساتھ کام کیا وہ مشہور ہو گئے، تو ہر نئے صحافی کی خواہش تھی کہ وہ ایجنسیوں کا منظور نظر بن جائے نوائے وقت، جسارت، زندگی تکبیر جیسے اخبارات اور جرائد نے ان کو پالا پوسا، یہاں سے ان ہو نہار نئے مسافروں نے فیک نیوز بنانے کا ہنر سیکھا اور ابن بطوطہ کی کہانیاں سنانی شروع کیں حال ہی میں جیو نیوز کے اعزاز سید نے ایک خبر دی کہ زرداری کو ہٹایا جارہا ہے اور اینکرز نے اس خبر پر بڑے بڑے پروگرام کئے اور یہاں تک کہا گیا کہ فیلڈ مارشل زرداری کی جگہ پاکستان کے صدر بننا چاہتے ہیں،اسی خبر کو ایک نئے انداز سے سہیل وڑائچ نے جنرل عاصم منیر سے اپنے نام نہاد انٹرویو میں استعمال کیا، اس انٹر ویو سے دو باتیں ESTABLISH کرنے میں آسانی ہوئی کہ منیر پاکستان کی صدارت میں دلچسپی نہیں رکھتے اور عمران کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی ہوگی ان دو باتوں کو ESTABLISH کرنے کے لئے سہیل وڑائچ کو تین کالم بھی لکھنے پڑے اب غور کیجیے کہ سہیل وڑائچ کے یہ انداز کس کس صحافی نے اختیار نہیں کئے، مبشر لقمان، صابر شاکر، عارف حمید بھٹی، ارشد شریف مطیع اللہ جان اسد علی طور، بشیر ثاقب، ثمینہ پاشا، مہر بخاری کس کس کے نام لئے جائیں کیا یہ ممکن ہے کہ میڈیا ہاؤس اپنے اپنے صحافیوں کے CREDENTIALS اور QUALIFICATIONS اپنی ویب سائیٹس پر ڈال دیں، تاکہ عوام کو ان کا قد متعین کرنے میں آسانی ہو اگر ایسا ہو جائے تو یہی لوگ کہیں گے ارشاد حقانی، منو بھائی اور کچھ اور نے کس یونیورسٹی سے صحافت کی ڈگری لی تھی، چٹان کے شورش کا شمیری کے پاس کون سی ڈگری تھی، واردات ڈالنے میں شورش کا شمیری کا بھی جواب نہ تھا، شورش
کا شمیری ان لوگوں میں تھے جنہوں نے تاریخ کو نہ صرف چھپایا بلکہ گمراہی بھی پھیلائی یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی بجائے ایک اسلامی ریاست بنانے کی بات کی مگر یہ نہیں بتایا کہ اسلامی ریاست کب بنی کہاں بنی اور اب کس ملک میں ہے راؤ رشید نے بالکل ٹھیک لکھا تھا کہ پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار جہاں جبزلز اور عدلیہ ہے وہاں پاکستان کی تباہی میں JOURNALISTS کا ہاتھ ہے، راؤ رشید نے یہ بات 1978 میں کہی تھی جب حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی بہت گونج تھی اس وقت تک ایجنسیوں نے صحافیوں کو راتب ڈالنا شروع نہیں کیا تھا، اس کی ایک بہت سادہ وجہ ہے ایلیٹ کلاس ڈاکٹر اُستاد ENGINEERS، صحافی اور دیگر سروسز کے لوگ پیدا نہیں کرتا ، یہ غلام اس کو کچلے ہوئے مڈل کلاس سے مل جاتے ہیں جو بہت تابعداری کرتے ہیں اور آسانی سے خریدے جا سکتے ہیں، بھوک اور ضمیر کے درمیان بہت فاصلے ہوتے ہیں اس لئے یہ وبا عام ہے کہ بکنے والے لوگوں کی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ بڑے لوگوں کی قربت حاصل ہو جائے جب تک پاکستان میں پیشہ ورانہ صحافت کا آغاز نہیں ہوتا یہ سنڈرم موجود رہے گا ،جس مڈل کلاس کو اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانے کی سہولت ملتی رہے گی وہ اپنے بچوں کو صحافی کیوں بنائے گا اسی لئے جب عبد القادر حسن ایک آمر کی کاسہ لیسی کر رہے تھے اس وقت نیو یارک کے وہ کالم نگار جو بھوک اور دباؤ سے آزاد تھے آمر کو للکار رہے تھے اور اپنے ضمیر کے مطابق لکھ رہے تھے اور ان کے تجزیئے اور تبصرے پاکستان میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ، یہ مال و منال کی خواہش ہی تو تھی کہ بڑے چینل کے اینکر بھی بڑی تنخواہوں کے لالچ میں بول ٹی وی پر جانے کے لئے تیار تھے اگر جعلی اسناد کا اسکینڈل سامنے نہ آتا تو یہ سب بول ٹی وی پر بیٹھے ہوتے ، پیسہ کا لالچ نہ ہوتا تو اچھے چینل چھوڑ کو عمران ریاض، مطیع اللہ جان،اسد طور U TUBER کیوں بن جاتے سوشل میڈیا پر برستے ڈالروں کی تمنا تو سب کو تھی، یہ ضروری ہے کہ حق بات کہنے کے لئے پیٹ میں روٹی بھی ہو اور عزت نفس بھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button