قائد اعظم پر پابندیاں اور دوسری خبریں!

پاکستان میںحسب دستور حالات معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ہماری مراد پاکستان کے دستور سے نہیں ہے جس پر اب شاز و نادر ہی عمل ہوتا ہے۔ لیکن کچھ حیرت انگیز چیزیں دیکھنے کو ملیں کہ یقین آ گیا ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے کچھ طویل المدتی فیصلے کر لیے ہیں، جن میں سے سب سے اہم قائد اعظم، محمد علی جناح کی تصویر کو اور ان کے ذکر کو 14اگست کی زیبائش اور نمائش سے خارج کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جس کے لیے وزیر اعظم کو عوام کی عدالت میں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ محسنِ پاکستان کو اس طرح عوامی تقریبات سے نکال دینا توہینِ پاکستان ہے۔ بہتر ہو گا کہ وزیر اعظم اور اس کی بھتیجی کی تصویریں ہر جگہ سے ہٹا دینی چاہئیں۔ لوگ باگ اس قبیح حرکت کا جواز تلاش کر رہے ہیں؟ ممکن ہے کہ عسکری قیادت کو یہ پسند نہ آیا ہو کہ قا ئداعظم نے فرمایا تھا کہ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ سیاست میں دخل اندازی کرنا۔ اور ایک اور توجیہہ ہو سکتی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پر قائدنے کہا تھا کہ ہم اسرائیل کو تب تک تسلیم نہیں کریں گے جب تک فلسطینیوں کو انکے جائز حقوق نہیں مل جاتے۔ بہر حال قائد نے77سال پہلے جو بات کہی تھی وہ آج بھی پوری طرح لاگو ہے۔عسکری قیادت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ پاکستان پر جو قائد اعظم کا احسان ہے اس پربڑے سے بڑے جغادری کی کیا حیثیت ہے؟
اتنا ہی نہیں۔ قائد اعظم کی تصاویر کے ساتھ ، ان کی تقاریر کے مجموعے پر پابندی لگا دی گئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو ان تقاریر سے کوئی خدشہ ہے۔یہ اور بھی افسوس ناک امر ہے۔ قائداعظم کی باتوں میں اس نئی آزاد قوم کو بہت سی اچھی ہدایات ملی تھیں جیسے کہ ایمان، اتحاد اور تنظیم کی ہدایت ، گو قوم نے اس کو اسی طرح نظر انداز کیا جیسے کے باقی کے پند و نصائح۔لیکن یار لوگوں کو خدشہ ضرور ہے کہ کہیں قائد اعظم کے کسی فرمان کو قوم کہیں دل سے نہ لگا لے؟ سو دوستوں، یوں ہوا ملک کے قائد اعظم کا الوداع۔ الوداع کروانے والے بھول جاتے ہیں کہ ایک دن تاریخ ان کو بھی بھول جائے گی اور نئے خدا ان کی جگہ لے لیں گے۔اگر تاریخ نے ان کی طرف دیکھا بھی تو انہیں بد دیانت، کرپٹ، اور آمر حکمرانوں کی فہرست میں ڈال دے گی۔نہ انکی تقریر کو کوئی دیکھے گا اور نہ ہی ان کے کارناموں کو اور نہ ان کے چہروں کو۔
یادر ہے کہ دوسری بڑی قومیں اپنے عظیم قائدین کو یاد رکھتی ہیں۔ ان کے نام سے یادگاریں بناتی ہیں۔ شاہراہوں کے نام ان کے نام پر رکھے جاتے ہیں۔ اور انکے یوم پیدائش پر تعطیل عام ہوتی ہے۔نصابی کتابوں میں بچوں کو ان کی وجہ شہرت بتلائی جاتی ہے۔ اس طرح قومیں اپنے عظیم قائدین کو زندہ اورتابندہ رکھتی ہیں۔ وائے رے پاکستانیوں۔ تم نے اپنے گھٹیا پن کا ثبوت کتنی آسانی سے دے دیا؟
پاکستان دوسری طرف دن دگنی رات تگنی ترقی کر رہا ہے۔ بڑے بڑے شاپنگ مال، پلازے اور رنگ برنگی روشنیوں والے سائن بورڈ رات کو دن کا سما ںبنا رہے ہیں۔ آپ اگر شام کے وقت ڈی ایچ اے یا بحریہ ٹائون میں چلے جائیں تو لگتا ہے کہ دوبئی یا سنگا پور آ گئے ہوں۔ کوٹھیوں کی قطاریں بتاتی ہیں کہ اس ملک کے لوگ کتنے با ذوق اور مالدار ہیں۔ کئی گھروں نے دلکش ڈیزائن کی ٹائلوں سے فرش یا دیواریں مزین کروائی ہیںکہ دیکھ کر روح خوش ہو جائے۔ ہم پاکستانیوں کو کرپشن کا الزام تو دیتے ہیں، لیکن یہ سب ترقی، شان و شوکت، اور روشنیاں اسی کرپشن کا شاخسانہ تو ہیں؟کہتے ہیں جب کسی کے پاس اوپر کی آمدنی بے حساب آ جائے تو وہ یا ملک میںجائدادیں بنواتے ہیں یا ملک کے باہر۔
ہمیں مان لینا چاہیے کہ پاکستان سے رشوت کا خاتمہ کرنا تقریباً نا ممکن ہو گیا ہے۔ یہ دن بدن بڑھتی ہی جائے گی۔ اس لیے اسے عملاً تو قبول کیا جا چکا ہے اب قانوناً بھی قبول کر لینا چاہیئے۔28ویں ترمیم لا کر یہ قصہ بھی تمام کر دینا چایئے تا کہ سرکاریااہلکار بلا کسی فکر کے ایسی آمدنی قبول کر سکیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ رشوت کے نرخ با قائدہ دکھائے جا سکیں گے، اور محکمہ انکم ٹیکس اس آمدنی پر ٹیکس بھی وصول کر سکے گا۔اور جو ترقی ہو گی اس کا تو جواب ہی نہیں۔ بھلا صرف حلال کی آمدنی سے یہ پلازے، شاپنگ مال اور شاندار بنگلے بنائے جا سکتے تھے؟ کبھی نہیں۔اور جب یہ عمارتیں بنتی ہیں تو کتنی صنعتوں کو فائدہ پہنچتا ہے؟ اور کتنے مزدور اور کاریگر وں کورو زگار ملتا ہے؟ سوچنے کی بات ہے۔اگر ملک کی سالانہ فی کس شرح نمودبڑھتی ہے تو وہ بھی تو اس کام سے بڑھتی ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ جلد ہی آپ کرپشن کو اوپر کی آمدنی سنیں گے، اور اس کے فوائد پر ایک سے بڑھ کر ایک مفکر اور محقق مقالے لکھیں گے۔ممکن ہے کہ یہ کام پہلے ہی ہو رہا ہو جس سے راقم بے خبر ہے؟
بارشیں اس دفعہ کچھ زیادہ ہی ہوئی ہے۔ شمال مغربی علاقوں میں غضب کی طغیانیاں آئیں۔ سیلاب کے زبردست تھپیڑوں نے کئی جانیں لے لیں۔ کتنے ہی گھر ٹوٹ کر بپھرتی موجوں میں بہہ گئے۔سنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر تجاوازات کے طور بنے تھے۔تعجب ہے کہ جب تجاوزات بن رہی ہوتی ہیں ، حکام تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جب کوئی ایسا حادثہ ہوتا ہے توحکومت اپنے دامن سے مٹی کی طرح سارے الزام جھاڑ دیتی ہے۔چونکہ تباہی شمال کے علاقوں میں آئی ہے ، میڈیا کہ موج لگی ہوئی ہے۔ بڑھ بڑھ کے صوبائی حکومت میں کیڑے نکال رہے ہیں۔ رب کا کرنا یہ ہوا کہ کراچی بھی بے پناہ بارشوں کا نشانہ بن گیا، اور لوگ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔ کراچی کی سڑکیں وینس کا منظر پیش کر رہی ہیں، اس لیے اٹلی جانے کی قطعاً ضرورت نہیں رہی۔اب خدا جانے بلاول اور ایم کیو ایم کی حکومت صرف وعدوں سے سال ہا سال پرانے مسئلہ کا حل تلاش کرتی رہے گی یا واقعی اس کا مستقل حل ڈھونڈے گی جو بظاہر تو انتہائی دشوار نظر آتا ہے۔عوام کو جو برسات کے پانی سے مشکلات ہوتی ہیں، ان میں سب سے بڑی بارشیں رکنے کے بعد نظر آتی ہیں، جیسے تعفن، سڑتی ہوئی آلائیشیں، مکھیوںاو رمچھروں کی بہتات تو عام سی بات ہے۔ لیکن ان سے جو رنگا رنگ بیماریاں پھیلتی ہیں، ان کا کیا کہنا؟ملیریا، ڈینگی، ٹائیفائیڈ، پیٹ کی بیماریاں اور کیا کچھ۔ ہم کب سیکھیں گے؟اور ٹوٹی ہوئی سڑکیں ایک علیحدہ مسئلہ بن جاتی ہیں۔
کراچی جیسے بڑے شہر میں نالیوں اور برساتی نالوں کی صفائی نہ کروانا در حقیقت شدید قسم کی لا پرواہی اور بے ضابطگی کا مظہر ہے۔ یہی بڑی وجہ ہے کہ برسات کا پانی سڑکوں پر ہفتوں جمع رہتا ہے اوراس کا نکاس نہیں ہوتا۔ کہنے والوں کا منہ بند نہیں کیا جا سکتا، کہ شہر میں کرپشن اپنے عروج پر ہے ۔جو رقمیں شہر کی صفائی اور سینیٹری ضروریات کے لیے مختص کی جاتی ہیں، وہ کم ہی ان ضروریات پر خرچ ہوتی ہیں۔جس شہر میں کچرہ ، کوڑا کرکٹ کو باقاعدگی سے اٹھوانے اورٹھکانے لگانے کا بند و بست نہیں کر سکتے ، ان کی انتظامیہ کو با اختیار اور ذمہ وار نہیں سمجھا جا سکتا۔ یا وہ انتظامیہ اس لائق نہیں کہ اسکو یہ ذمہ واری دی جائے۔یہ ، لگتا ہے صرف کراچی ہی کے یہ حالات نہیں، کم و بیش سارے شہروں اور قصبوں میں بارش کے پانی کے نکاس کا یہی حال ہوتا ہے۔کیا مسلمانوں کا صفائی کا تصور یہی ہے؟ مسلمانوں کے لیے تو صفائی نصف ایمان کہا جاتا ہے؟
پاکستانی ان تمام آسانیوں، تکالیف، اور مشکلات کے با وجود ، خاموشی سے گذارا کرتے ہیں۔ مہنگائی سے ہر کوئی پریشان ہے۔ لاہور کی ٹیلیویژن چینل اشیائے خورد و نوش کے نرخ بتاتی ہے۔ جس میں پتہ چلتا ہے کہ ٹماٹر اور ادرک کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا البتہ دوسری ضروری اشیاء میں سرکاری نرخ اور منڈی کے بھائو میںکئی فیصد کا فرق ہوتا ہے۔سرکاری نرخ معلوم نہیں کہ منڈی کے بھائو سے اتنے مختلف کیوں ہوتے ہیں؟ ۔ ہمارا مشورہ ہے کہ ان نرخوں کے ساتھ، ایک افزائش آبادی کا چارٹ بھی دکھایا جائے تا کہ عوام الناس کو مہنگائی کی ایک ضروری وجہ بھی معلوم ہو۔عوام تو دوکانداروںکو مہنگائی کا ذمہ وار سمجھتے ہیں جن سے انکا واسطہ پڑتا ہے۔ ان کو مانگ اور سپلائی کے رشتہ سے کیا غرض؟
حکومت کی کچھ کاوشیں اچھے نتایج بھی پیدا کر رہی ہیں۔ اب زیادہ مو ٹرسائکلٹس ہیلمٹ پہنے نظر آتے ہیں۔ یہ نہیں پتہ کہ کتنے اس کو صحیح طرح پہنتے ہیں؟ اور کتنوں نے صرف پولیس کو دکھانے کے لیے۔ ا س کے علاوہ مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی موٹر سائکل پر بیٹھے دوسرے، تیسرے، چوتھے ۔۔۔سوار کو ہیلمٹ پہنے دیکھا ہو۔اس لیے کہ لوگوں کو صحیح طریقے سے آگاہی نہیں دی گئی کہ ہیلمٹ پہننا کیوں ضروری ہوتا ہے۔ اگر موٹر سائیکلسٹ کو پتہ ہو کہ موٹر سائکل کے حادثہ میں زیادہ لوگ سر پرچوٹ لگنے سے مرتے ہیں تو شاید وہ ہیلمٹ کا استعمال صحیح طریقے سے کریں؟ہیلمٹ سستی نہیں مگر سواریوں کی جان سے تو زیادہ مہنگی نہیں؟
پاکستان میں جو ایک بڑا رحجان نظر آیا وہ کھانے کے مختلف ریسٹورانٹوں میں اضافہ۔ بندو خان جو کبھی کراچی کی ایک شاہراہ پر اپنے پراٹھا کباب کیوجہ سے مشہور تھا، اب ا س نام کے ریسٹورانٹ گلی گلی ، محلے محلے نظر آئے۔ اسی طرح کئی اور نا م اب جیسے آگ کی طرح پھیل گئے ہیں۔ بٹ کڑاہی اب عام نظر آتا ہے۔ یہ بہت بڑی پیش رفت ہے۔ اس سے لوگوں کو اپنے گھر کے نزدیک ہی ان کے پسندیدے کھانے مل جاتے ہیں۔ اسی طرح اب شنواری گوشت کھانے کے لیے پشاور جانے کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ زبردست ترقی کی نشانی ہے۔اس ترقی کو دیکھ کر ایک دوست کہتے ہیں، کہ اس شہر میں گاڑیوں کی بہتات اور مہنگے کھابوں کے ٹھکانوں کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں غریب لوگ بھی بستے ہیں۔ لیکن یہ چکا چوند اس غربت کو نہیں چھپا سکتی جو ملک کی چالیس فیصد آبادی دو چار ہے، جو غربت کی لکیر کے نیچے رہ رہی ہے۔اس آبادی کے اعداد و شمار بہت تکلیف دہ ہیں۔ وہ ہم اکثر اپنے کالموں میں دہراتے رہتے ہیں۔
ایک خوشی کی خبر ملی کہ امریکہ کے دارلحکومت میں پاکستان کے فوج کے کمانڈر ان چیف کی بڑی آئو بھگت ہوئی اور معتبر میڈیا نے ان کی شان میں قصیدے لکھے۔ یہ اچانک کیا کایا پلٹ گئی؟ لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو تازہ ہدایات ملی ہوں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کیے جائیں، تا کہ فیلڈ مارشل کو کبھی امریکہ کے قلبی دوست ملک کے خلاف ذرا سی میل بھی نہ آئے۔ یہ اس لیے کہ اس قلبی دوست کو اگر دنیا میں کسی سے ڈر لگتا ہے تو وہ پاکستان اور اس کے نیوکلیر اثاثے ہیں۔اس لیے اس نے فیصلہ کیا ہے کہ بجائے مخاصمت کے دوستی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اسرئیل کو پاکستان سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟سب کچھ انڈر کنٹرول ہے۔ کوئی فلسطینیوں کے حق میں نہ مظاہرے ہوتے ہیں اور نہ ا سکی اجازت ہے۔ اگر تمام فلسطیینوں کو بھوکا مار ڈالا جائے یا بم مار مار کر ختم کر دیا جائے، پاکستان کے کانوں پر جون نہیں رینگے گی۔
پاکستان میںآج کل 7مئی کے ڈرامے کوتحریک کے گلے منڈھنے کی کوششیں جاری ہیں۔ نونی رانا صاحب کہتے ہیں کہ تحریک کو معافی مانگ لینی چاہیے ۔سوال یہ ہے کہ کیا بغیر کسی غیر جانبدار با اختیار کمیشن کی انکوائیری کے فیصلہ کے بغیر، یعنی بغیر جرم ثابت کیے ، تحریک کا معافی مانگنا بنتا ہے؟ جب کہ قرائن بتاتے ہیں کہ جرم کسی اور نے کیا اور منڈھا کسی اور پر جا رہا ہے۔ رانا صاحب کوغالباً معلوم ہو گا کہ لندن میں کیا پلان بنا تھا، اور اس میں کون کون شامل تھے؟ رانا صاحب اتنے بھولے بھی نہیں۔