ہفتہ وار کالمز

ٹرمپ‘ پیوٹن اور یورپی لیڈر

عالمی طاقتوں کے سربراہوں کی ہر ملاقات کے بعد اہم سوال یہی ہوتا ہے کہ کس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ امریکی ریاست الاسکا کے شہر Anchorage میں جمعے کے روز ہونیوالی ٹرمپ پیوٹن ملاقات اس لیے منفرد تھی کہ اسکے شروع ہونے سے پہلے ہی یہ طے ہو چکا تھا کہ اسکا فاتح ولادیمیر پیوٹن ہو گا ۔اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے اب تک امریکہ اور یورپ نے نہ صرف روس کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہوا تھا بلکہ اس پر سخت اقتصادی پابندیاں لگا کر اسکی معیشت کو مفلوج کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ اسکے علاوہ انٹرنیشنل کریمینل کورٹ نے صدر پیوٹن کو جنگی جرائم کا مجرم قرار دیکر انکے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے ہوئے تھے۔ اب الاسکا میں صدر ٹرمپ کا اپنے مہمان کے لیے سرخ قالین بچھانے کا اسکے علاوہ اور کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ روس کی تنہائی ختم ہو گئی ہے اور امریکہ نے اسکی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا ہے۔ روس میں اس ملاقات کو کامیاب قرار دیتے ہوئے ایک دفاعی امورکے ماہر Aleksandr Dugin نے سرکاری ٹیلیویژن چینل پر کہا کہ ’’ میں پوری قوم کو اس کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں ۔ ہر محاذ پر جیت جانا اور کسی محاذ پر بھی شکست نہ کھانا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔مجھے اتنی بڑی کامیابی کی توقع نہ تھی۔‘‘ صدر ٹرمپ نے اپنے روسی ہم منصب کے تمام مطالبات تسلیم کرنیکا اعلان تو نہیں کیا مگر انہوں نے اس ملاقات کے فورراًبعد جس طرح صدر پیوٹن کی تعریف و ستا ئش کی اُس سے روسی مبصرین نے ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیا۔ صدر پیوٹن نے بھی اپنے میزبان کی تحسین و آفرین کرنے میں بخل سے کام نہ لیا اور یوں یہ سمٹ ایک لحاظ سے من تورا ملا بگوئم تو مرا حاجی بگو کی مثال بن گیا۔
یہ ملاقات اس اعتبار سے بھی صدر پیوٹن کے لیے بہتر نتائج کی حامل رہی کہ یورپی ممالک کے روس سے اختلافات اگر چہ کہ اپنی جگہ قائم ہیںمگر صدر پیوٹن نیٹو ممالک کے اتحاد میںدراڑ ڈال کر صدر ٹرمپ کے قریب ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ روس کے صدر نے اس کامیابی کی کوئی قیمت بھی ادا نہیں کی۔وہ پندرہ اگست کو جو ایجنڈا لیکر الاسکا گئے تھے اسی کو امریکی صدرسے منوا کر واپس چلے گئے جبکہ صدر ٹرمپ نے یورپی لیڈروں سے جس ایجنڈے پر اس سمٹ سے پہلے اتفاق کیا تھا وہ اس سے منحرف ہو گئے۔اسوقت یوکرین جنگ‘ امریکہ یورپ اور امریکہ روس تعلقات صرف ایک نقطے کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اور یہ نقطہ صدر پیوٹن کا یہ مطالبہ ہے کہ امن مذاکرات پہلے شروع ہونے چاہیئں جنگ بندی بعد میں ہوتی رہے گی۔ الاسکا سمٹ سے دو روز پہلے برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی کے رہنمائوں نے ایک ویڈیو کانفرنس میں صدر ٹرمپ کو اس بات پر قائل کیا تھا کہ وہ صدر پیوٹن سے پہلے جنگ بندی اور بعد میں قیام امن کا مطالبہ تسلیم کرائیں گے۔اسکے جواب میں صدر ٹرمپ نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر صدر پیوٹن نے انکا یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا تو وہ روس پر پہلے سے بھی زیادہ سخت اقتصادی پابندیاں لگا دیں گے۔ لیکن صدر پیوٹن سے تین گھنٹے کے مذاکرات کے بعد انکا لہجہ بالکل بدلا ہو اتھا ۔امریکی ٹیلیویژ ن چینل فاکس نیوز کے اینکر شان ہینیٹی کو اس ملاقات کے بعد انٹرویو دیتے ہوے صدر ٹرمپ نے کہا’’ روس ایک بڑی طاقت ہے اور یورپی ممالک اتنے طاقتور نہیں ہیں۔‘‘ اسی بات کو بڑھاتے ہوے انہوں نے یہ بھی کہا ” We are number one and Russia is number two.” مغربی ماہرین نے صدر امریکہ کے اس بیان کے بارے میں کہا ہے کہ یوکرین کو تو صدر ٹرمپ پہلے دن ہی سے کوئی اہمیت نہیں دے رہے تھے اور اب انہوں نے یورپی ممالک کے مقابلے میں روس کو ایک بڑی طاقت قرار دیکر 76 برس پرانے نیٹو اتحاد پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
الاسکا سمٹ کے دو دن بعد پیر کے دن نیٹو ممالک کے تعلقات میں اسوقت ایک ڈرامائی تبدیلی آئی جب وائٹ ہائوس میں صدر ٹرمپ نے پہلے صدر زیلینسکی سے ملاقات کی اور اسکے بعد یورپی ممالک کے سربراہوں سے انہوں نے صدر پیوٹن سے اپنی گفتگو پر تبادلہ خیال کیا۔ یورپی ممالک کے لیے اس سمٹ کے اہم ہونے کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس خطے کے چھ ممالک کے سربراہ اپنی دیگر مصروفیات چھوڑ کر وائٹ ہائوس پہنچ گئے تاکہ صدر ٹرمپ کو اپنی ’’ پہلے جنگ بندی پھر قیام امن‘‘ کی پالیسی کے حق میں قائل کر سکیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ صدر پیوٹن پہلے جنگ بندی پر اس لیے آمادہ نہیں کہ انکی افواج یوکرین کے بیس فیصد علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد مزید پیشقدمی کر رہی ہیں ۔ اس صورتحال میں اگر امن مذاکرات ہوتے ہیں تو انہیں سفارتی اور عسکری دونوں اعتبار سے برتری حاصل رہے گی جب کہ جنگ بندی کی صورت میں وہ اپنی برتری کھو کر یوکرین اور یورپی ممالک کے ساتھ برابر کی سطح پر بات چیت کریں گے۔
پیر کے روز وائٹ ہائوس کے ایسٹ روم میں ہونے والی ملاقات میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے علاوہ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ فن لینڈ اور یوکرین کے سربراہوں نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا کہ کسی بھی امن معاہدے کی صورت میں انہیں اس بات کی ضمانت چاہیئے ہوگی کہ روس اگر اسکی خلاف ورزی کرتے ہوئے یوکرین پر دوبارہ حملہ آور ہوتا ہے تو امریکہ اسے تحفظ فراہم کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے انہیں یقین دلایا کہ وہ یوکرین کو ضرور تحفظ فراہم کریں گے۔ یورپی ممالک کے رہنمائوں نے انکی اس یقین دہانی پر اطمینان کااظہار کیا ۔ وہ صدر ٹرمپ کو ناراض کر کے ایک بڑی سفارتی غلطی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button