قومِ فروختن ۔۔۔۔۔!

ہم نہ کہتے تھے کہ امریکی تہذیب میں مفت کے کھانے ، یافری لنچ کا کوئی تصور نہیں ہے!
اور پھر جب لنچ کھلانے والا ٹرمپ جیسا بنیہ خصلت ہو تو پھر کسی کا یہ سوچنا کہ وہ بغیر مطلب کے لنچ کھلادے گا سوائے ذہن کے فتور کے اور کچھ نہیں ہوسکتا!
لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ چھوٹے انسان کی فطرت اس سے زیادہ چھوٹی ہوتی ہے۔ پاکستان کے یزیدِ وقت، خود ساختہ فیلڈ مارشل عاصم منیرکیسا چھٹ بھیہ ہے اس کے بارے میں پاکستان پر نظر رکھنے والے کسی صاحبِ رائےکو کوئی خوش فہمی نہیں ہے !
ایک بے ایمان شخص جو جعل سازی سے پاکستانی فوج کا سپہ سالار بنا۔ جس کا دعوی ہے کہ وہ حافظِ قرآن ہے لیکن جو قرآنی آیات کا مفہوم نہیں جانتا، نابلد ہے وہ اس قرآنی پیغام سے کہ ایک بیگناہ فرد کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اور اس جعلی فیلڈ مارشل کا یہ عالم ہے کہ اپنے طاغوتی قبضہ کو دوام دینے کیلئے اس نے پاکستان کے سینکڑوں بیگناہوں کا خون بہایا ہے، جو صحیح مفہوم میں یزید کا پیر وکار ہے اور اسی لئے اس نے پاکستانی قوم کے محبوب قائد، عمران خان کو اپنی عقوبت کا شکار بنایا ہوا ہے اور گذشتہ دو برس سے اُسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کیا ہوا ہے !
ٹرمپ جیسا ساہوکار ایسے چھٹ بھیئوں کی فطرت کو خوب پہچانتا ہے اسی لئے اس نے ایک پستہ قامت پاکستانی فرعونِ بے ساماں کو وہائٹ ہاؤس میں لنچ پر مدعو کیا تاکہ اس پست قامت کی انا کو مسحور کرسکے! کوئی زیرک یا فراست مند ہوتا تو سمجھ جاتا کہ سارا ناٹک اسے شیشہ میں اتارنے کیلئے تھا لیکن سیر کے برتن میں سوا سیر پڑا تو پستہ قامت کو یہ وہم ہوگیا کہ وہ واقعی کوئی شئے ہے کہ دنیا کا سب سے طاقتور لیڈر اسے کھانا کھلارہا ہے، اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہورہا ہے اور اسے زیرک و معاملہ فہم گردانتا ہے !
لیکن بنیئے نے قیمت وصول کرنے میں کوئی دیر نہیں کی !اس کا پہلا مطالبہ ہی ایسا ہے کہ کوئی عقلمند ہوتا تو جان لیتا کہ لنچ کے بدلے میں وہ کیا مانگ رہا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان امریکہ سے مہنگا ترین خام تیل خریدے اور ہمارے چھٹ بھیئے نے فوری ہتھیار ڈال دئیے۔
سو اب پیسے پیسے کو محتاج، مانگ تانگ کے اپنا گھر چلانے والا پاکستان امریکہ سے بارہ لاکھ بیرل تیل خریدے گا اور دس ہزار میل دور سے اس تیل کو لانے میں جو کرایہ ہوگا وہ الگ رہا!
جس کسی قیادت کا زعم رکھنے والے میں ذرّہ برابر بھی غیرت ہوتی، حمیت کا کوئی احساس ہوتا یا قوم کا درد اپنے دل میں محسوس کرتا تو وہ ہرگز اس طرح کھلے گھاٹے کا سودا نہیں کرتا لیکن یزید اور اس کے اتنے ہی بے غیرت اور طالع آزما وردی پوش ساتھی قوم کی عزت و غیرت کا سودا کرنے میں طاق ہیں۔ انہیں صرف اور صرف اپنے حلوہ مانڈے سے غرض ہے قوم جائے بھاڑ چولہے میں ۔ وہ تو اس غلط فہمی میں غوطے کھارہے ہیں کہ امریکہ کا مطلق العنان صدر ان کا یار ہوگیا ہے اور اس نے انہیں ایک بلینک چیک دے دیا ہے کہ پاکستانی قوم کا جو چاہیں حشر کریں اسے کوئی اعتراض نہیں ہوگا جب تک اس کا اُلو سیدھا ہورہا ہے !
تو بے غیرت ملت فروش دس ہزار میل دور سے مہنگا امریکی تیل خریدنے میں فخر محسوس کر رہے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت اب ان کی پشت پناہی کر رہی ہے لیکن اتنی حمیت نہیں ہے کہ پڑوسی ایران سے سستا تیل خرید سکیں کیونکہ یہ ان کے ساہوکار امریکی سرپرست اور مائی باپ کو منظور نہیں ہے!
ملت فروشی اسی کو تو کہتے ہیں کہ اپنے مفاد کیلئے قوم و ملک کی عزت اور وقار کا سودا کرلیا جائے اور اس میں کوئی عار، کوئی شرم نہ آڑے آنے پائے !یہی میر جعفر اور میر صادق کی سنت ہے جس پر ہمارے وقت کا یزید اور اس کے حواری اور پیروکار عمل پیرا ہیں۔
پاکستان کا محبوس و مقید نیوز میڈیا بغلیں بجا رہا ہے کہ ٹرمپ پاکستان میں تیل نکال رہا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرینِ ارضیات ایک طرف جن کا یہ ماننا ہے کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر تیل کے ذخائر نہیں ہیں لیکن مکار و چالباز ٹرمپ پاکستانی یزیدوں کو یہ سبز باغ دکھا رہا ہے کہ پاکستان تو تیل کے کنوؤں پہ تیر رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں کہ پڑوسی بھارت پاکستان سے تیل خریدے گا !
میاں، ہوش کے ناخن لو۔ ٹرمپ پاکستان میں تیل نہیں نکالنے والا ہاں البتہ وہ پاکستان کا تیل ضرور نکالنا چاہ رہا ہے اور اس میں اس کے آلہء کار یزید عاصم منیر اور اس کے وردی پوش حواری اور غلام کٹھ پتلی سیاسی گماشتے ہیں جو اتنے ہی بڑے ملت فروش ہیں جتنے ان کے وردی پوش آقا۔ وہ جو کہاوت ہے وہ غلط نہیں ہے کہ
کند ہم جنس باہم پرواز
کبوتر با کبوتر، باز بہ باز!
اب وہ جو شاہین ہے وہ تو ان ملت فروش زاغوں کی قید میں ہے اور اسے ہی قید میں رکھنے اور اپنے انتقام کی آگ بجھانے کیلئے یہ ملت فروش عالمی ساہوکار کے ہاتھوں قوم کے وسائل اور حمیت و غیرت کا آنکھیں بند کرکے سودا کر رہے ہیں !
ٹرمپ کو پاکستان کی قیمتی معدنیات بھی چاہئیں تو اس کیلئے بھی یزیدی ٹولہ پوری طرح سے آمادہ ہے، غلاموں کی طرح سر جھکائے سامراجی ساہوکار کے رو برو کھڑے ہونے میں اپنے لئے فخر کا سامان سمجھ رہے ہیں یہ موروثی غلام!قومی یک جہتی کا سودا ہورہا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ قومی یکجہتی داؤں پر لگی ہوئی ہے۔
خیبر پختونخواہ وہ صوبہ ہے جس کے لوگوں میں غیرت ہے، حمیت اور وقار کا جذبہ زندہ ہے اور یزیدیوں کی نظر میں یہ صوبہ کانٹے کی طرح یوں اور کھٹکتا ہے کہ اس پرعمران کی تحریکِ انصاف کی حکومت ہے جو ان ملت فرشوں کے پاکستان دشمن ایجنڈا پر صاد کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہے اگرچہ اس کے وزیر اعلی، گنڈا پور کی عمران سے وفاداری پر بہت سے سوال اٹھ رہے ہیں، بہت سی انگلیاں اٹھ رہی ہیں لیکن یزیدی تا حال اس کی وفاداری خریدنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
مسئلہ یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ کے لوگ اس طرح بکاؤ مال نہیں ہیں جیسے پنجاب کے۔
پاکستان کی سب سے بڑی بدنصیبی یہی ہے کہ اس کے وفاق کا سب سے بڑا صوبہ وہ ہے جس کی تاریخ یہ ہے کہ وہ پیش پیش تھا فرنگی راج کے ہاتھ مضبوط کرنے میں اور اسی صوبے کے خمیر سے پاکستانی فوج کے طالع آزما جرنیلوں کی بھاری اکثریت متعلق ہے جو قوم و ملک کی غیرت اور عزت کا سودا کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے!
تین سال پہلے کتنے پاکستانی تھے جنہوں نے عاصم منیر کا نام سنا تھا ؟ لیکن اچانک یہ یزید گمنامی سے پیدا ہوا اور آج پاکستان کے چوبیس کڑوڑ باسیوں کی عزت و غیرت کو یہ طالع آزما سامراجی ساہوکار کے ہاتھ بیچ رہا ہے اور بلا خوف و خطر بیچ رہا ہے کہ اس نے پاکستان کے ہر ادارے کو اپنا غلام اور مطیع بنالیا ہے۔
عدلیہ، جو پاکستان میں کسی بھی دور میں نیک نام نہیں رہی اس کا حال تو وہ ہوگیا ہے کہ پاکستان کی ہر عدالت جی ایچ کیو کا ذیلی ادارہ بن گئی ہے۔ اس کا تازہ ترین کارنامہ یہ ہے کہ سینٹ اور قومی اسمبلی کے درجنوں اراکین کو، جن کا تعلق تحریکِ انصاف سے تھا، نہ صرف ان کی رکنیت سے محروم کردیا گیا ہے بلکہ انہیں دس دس سال کیلئے پابندِ سلاسل کرنے کا حکم بھی صادر ہوگیا ہے۔
عدالتیں اور ان کی مسندوں پر فائز منصف اتنے بے ضمیر ہوچکے ہیں کہ کسی شرم و حیا کو بالائے طاق رکھنے میں انہیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا اور اپنے خاکی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے وہ یہ بھی بھول گئے کہ کائنات کا پیدا کرنے والا یہ کہہ چکا ہے کہ عدل کا خون کرنے والا منصف جہنم کے پست ترین طبقہ میں جھونکا جائے گا۔ لگتا ہے ان بے غیرت اور بے شرم پاکستانی ججوں کو کامل اطمینان ہے کہ بعد از مرگ کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا!
تو خیبر پختونخواہ میں پھر سے ملٹری آپریشن شروع ہورہا ہے اور جواز یا بہانہ وہی گھسا پٹا، دقیانوسی ہے کہ دہشت گردی کا صفایا کرنا مقصود ہے!
آج تک دسیوں ملٹری آپریشن اس صوبے میں کئے گئے ہیں لیکن نکموں کی کارروائی کا یہ عالم ہے کہ ہر بار دہشت گرد ان کی پہنچ سے باہر ہی رہتے ہیں!مسئلہ دراصل یہ ہے کہ سب سے بڑے دہشت گرد تو جی ایچ کیو میں بیٹھے ہوئے ہیں جن کی دہشت گردی نے پاکستانی عوام کی عزت اور غیرت کو عرصہء دراز سے نشانہ بنایا ہوا ہے۔
آئی ایس آئی کے دہشت گردوں کے ہاتھوں جو اصل شرفاء ہیں ان کی عزت اور جان و مال محفوظ نہیں ہیں اور رات دن چادر اور چار دیواری کا تقدس ان غنڈوں کے ہاتھوں پامال ہو رہا ہے!
سوال یہ ہے کہ قوم جو سوئی ہوئی ہے کب جاگے گی؟
کب وہ وقت آئے گا کہ عوام جوق در جوق اپنی عزت اور غیرت کو ان سامراجی گماشتوں کے ہاتھوں نیلام ہونے دینے کے بجائے گھروں سے نکلیں گے اور ان ملت فروشوں کا قلع قمع کرنے سے دریغ نہیں کرینگے !
پانچ اگست کو عمران خان کی بلاجواز قید کو دو برس ہوجائینگے۔ کپتان نے قوم کی غیرت کو بیدار کرنے کیلئے اس تاریخ کو ملک گیر احتجاج کی صدا لگادی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ قوم کی غیرت جاگتی ہے یا وہ یونہی سوئی رہتی ہے !
پاکستان کے باسی الحمد و للہ مسلمان ہیں اور قرآن بھی پڑھتے ہیں جو کمال صراحت سے یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ کسی قوم کی تقدیر اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک قوم خود اپنی تقدیر بدلنے کا ثبوت نہ دے۔ دور کیوں جائیے۔ 5 اگست کو عمران کی قید کے دو سال پورے ہونے کےساتھ ساتھ بنگلہ دیش کے غیور عوام ایک فسطائی حکومت سے اپنی آزادی کی پہلی سالگرہ بھی منائیں گے !
حسینہ واجد بھی یزید عاصم منیر کی طرح اسی زعم میں مبتلا تھی کہ اس نے اپنی قوم کو اپنے چنگل میں جکڑ لیا تھا اور کوئی طاقت اسے بیدخل نہیں کرسکتی تھی، اس کا یہ زعم، اس کا تکبر بنگلہ دیش کے غیور اور حریت پسند جی دار عوام نے سات دن میں کافور کردیا اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ حسینہ واجد کو ملک سے بھاگنا پڑا!
کیا پاکستان کے عوام میں بھی ایسی غیرت جاگ سکے گی کہ وہ اس یزید عاصم منیر اور اس کے بزدل حواریوں کے گھمنڈ کو خاک میں ملادیں اور اس یزیدی ٹولہ کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کردیں ؟ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ عاصم منیر ٹرمپ کا اردلی ہے اور اس کا اردلی بوٹ پالشیا شہباز شریف ہے جسے وزیر اعظم کہنا اس منصب کی بڑی توہین ہے۔ تو کیا پاکستانی قوم ان اردلیوں سے گلو خلاصی کرنے پر آمادہ ہوگی؟ کیا ملت فروشوں کا زوال ہوسکے گا ؟ کیا ظلم و بربریت کا سورج غروب ہونے کو آسکے گا؟
پانچ اگست کونسی دور ہے۔ جب تک آپ یہ سطور پڑھیں گے تو وہ سنگِ میل گذر چکا ہوگا۔
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض ؟!


