کرشن نگر سے ڈی ایچ اے تک!

صاحبو، راقم کو پاکستان آئے تین ہفتہ ہو چکے ہیں۔جب سے لاہور اور اس کے گرد و نواح کی تعمیر اور ترقی سے متاثر ہو رہا ہوں۔ جن عزیزوں کو ملنے آیا ان میں سے کچھ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی میں رہائش رکھتے ہیں، اور کچھ کرشن نگر میں، جو مسلمان ہو چکا ہے اور اس کا نیا نام اسلام پورا ہے۔اس آنے جانے میں ان دو بستیوں کا تضاد اور مماثلت کا مشاہدہ کرنے کا خوب موقع ملا ہے۔ کرشن نگر میں جن عزیزوں سے ملتا ہوں وہ ایک ایسی گلی میں رہتے ہیں جو انگریزوں کے زمانے میں دفتر لاٹ صاحب میں کام کرنے والے ہندوستانی افسروں کی رہائش گاہوں کے لیے مختص تھی اس کے ساتھ انگریز افسروں کے لیء ریواز گارڈن کا علاقہ تھا۔جس گلی کی میں بات کر رہا ہوں اس میں چار چار کنال کے پلاٹ تھے، اور گلی کی طرف کسی گھر کو دیوار بنانے کی اجازت نہیں تھی۔ صرف باغیچہ اور اور اسی قسم کی باڑ لگا سکتے تھے۔لیکن بٹوارہ کے بعد ان پلاٹوں پر بنے ہوئے بنگلوں، جنہیں کوٹھیاں کہتے تھے، رہنے والے ہندو اور انگریز چلے گئے تو وہ مہاجرین کو الاٹ ہو گئیں۔وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے نہ صرف سٹرک کے ساتھ دیواریں بنا لیں بلکہ تعمیرات کر کے گھروں کو بھی وسیع تر کر لیا۔ اب ہیرن روڈ ایک تنگ سی گلی بن چکی ہے جو کرشن نگر کے دوسرے حصوں سے زیادہ مختلف نہیں۔اس گلی کے شروع میںکچھ محلہ والوں نے ایک مسجد بنا دی جسے مسجد ظل نبی کہتے ہیں۔ یعنی کسی نے خواب میں، اس مسجد میں آنحضرت کو نماز پڑھتے دیکھا تھا۔کچھ مکان خستہ حالت میں کھڑے ہیں۔ ایک میں حکومت کے اعلیٰ افسر جو محکمہ عجائب گھر کے افسر رہتے تھے۔ یہ گھر اب ایک کھنڈر بنا ہوا ہے ۔غالباً جائداد کسی مقدمہ بازی کا شکار ہے۔میرے عزیزوں نے بھی آہستہ آہستہ اپنی کوٹھی کی زیادہ زمین فروخت کر دی۔ اب ایک چھوٹا ساگھر رہ گیا ہے۔
چونکہ کرشن نگر کی لوکیشن ایسی ہے کہ یہ شہر کے وسطی علاقوں کے نزدیک ہے۔ جیسے، سول سیکریٹریٹ، انارکلی پنجاب یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، اکثر لوگ پیدل جا سکتے ہیں۔۔اس لیے یہاں زمین کی قیمتیں زیادہ ہیں۔لیکن کچھ نئی آبادیوں جیسے سمن آباد، گلبرگ وغیرہ سے کچھ کم۔لاہور جس تیزی سے پھیل رہا ہے، کہ یہ جلد ہی ضلع کی حیثیت لے سکے گا۔اس کے اس پھیلائو میں دو راہے زیادہ متحرک ہیں، یعنی بحریہ ٹائون اور ڈی ایچ اے۔ان دو بستیوں کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ آپ کسی پاکستانی شہر میں ہیں۔ کشادہ سڑکیں، خوبصور ت سبزہ زار درختوں سے آراستہ راستے، بنگلے، جن کے باہر مکینوں نے پھولوں اور گھاس سے سجایا ہوا، دونوں بستیوں کی خصوصیات نظر آتی ہیں۔ رہنے والے درمیانہ اور درمیانہ سے اوپر کی سماجی سیڑھی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کاروباری علاقوں میں روشنیوں سے سجی ہوئی دوکانیں اور کئی امریکی فاسٹ فوڈ کے ریستورانٹ جیسے، میکڈالڈ، کنٹکی فرائیڈ چکن، سب وے، ہارڈی اور شاید ہی کوئی بچا ہو۔ یہ صورت حال دونوں بستیوں کی ہے۔ وہاں سے گذرتے ہوئے آپ کو شبہ ہو گا کہ آپ کسی امریکن شہر میں ہیں۔ اگر فرق ہے تو وہ ان فاسٹ فوڈ کے کھانوں میں ہے جو راقم کو گھٹیا کاپی لگتی ہے۔ یا تو یہاں کے کاپی ریستورانوں نے نے نمبر دو اجزاء لگائے یا پورے طریقے سے ان کو تیار نہیں کیا، یہ ہر گز امریکہ میں پائے جاے والی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کرتے۔ اگر یہ فرینچائز ہیں تو انکی کمپنیاں ضرور ان کو کوئی رعایت دیتی ہیں جن کی وجہ سے یہ غیر معیاری اشیاء بیچ رہے ہیں۔گو شکل صورت میں کوئی فرق نظر نہیں آتا، اچھی بات یہ دیکھی گردو نواح کی لڑکیاں ان جگہوں پر کام کرتی نظر آتی ہیں جو ایک حوصلہ افزا ءامر ہے۔
ان دونوں بستیوں میں صفائی کا اہتمام رکھا جاتا ہے۔ ماحول خوشگوار ہوتا ہے۔ البتہ جہاں جائیں ، مکھیوں سے نجات نہیں، میں جس جگہ بھی گیا وہاں مکھیاں موجود تھیں ۔ خواہ دفتر تھا یا گھر۔راقم، بطور ایک حفظ عامہ کے طالب علم کے ، مکھیوں کو کوڑے کرکٹ اور گندگی کے ڈھیروں کی نشانی سمجھتا ہے، جن کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہو اور وہ تعفن کے علاوہ مکھیوں کی پیدائش اور افزائش کی آماجگاہ بنے ہوں۔مکھیاں ہمیں یاد دہانی کراتی ہیں کہ بھائیوں، ماحول کو صاف ستھرا رکھو ورنہ ہم تمہیں یاد کرواتی رہیں گی۔مجھے فکر تھی کہ بارشوں کا موسم ہے تو مچھر تنگ کریں گے۔ اتفاق ہے کہ ان سے واسطہ نہیں پڑا، ابھی تک۔ہو سکتا ہے کہ پنجاب کی حکومت نے بروقت کوئی اقدامات لیے ہوں؟
اگر آپ کو پاکستان پر اللہ کی کی کسی عنایت کاشکر ادا کرنا ہو، تو لاہور کی ٹریفک پرنظر ڈالیں۔ راقم نے دنیا کے کسی شہر میں ایسی بے ضابطہ ٹریفک نہیں دیکھی۔ چوراہوں پر اکثر نہ پولیس مین ہوتا ہے اور نہ ہی کام کرتے سگنل۔اور کاریں، موٹر سائیکلیں اور ہر قسم کی گاڑیاںبلا تکلف ہر سمت سے کراس کررہی ہوتی ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی حادثہ ہو جائے۔ یہ معجزہ نہیں تو کیا ہے؟ یہی نہیں ، جب کاریں اور موٹر سائیکلسٹ گلی سے نکل کر بڑی سٹر ک پر داخل ہوتے ہیں تو اسٹاپ کرنے کا راوج نہیں۔ بس اندھا دھند موڑ لو۔ اگر آپ کی گاڑی بڑی ہے تو کوئی فکر ہی نہیں۔ چھوٹی گاڑیوں والے خود ہی اپنے آپ کو بچا لیں گے۔امریکہ کے ٹریفک کے قوانین کو جانتے ہوئے ، یہاںکی ٹریفک دیکھ کر بس کار میں بیٹھا اللہ کی شان کو یاد کرتا ہوں، کہ پاکستان پر ا سکی نظر خاص ہے ورنہ اتنے دنوں میں کوئی ایک حادثہ تو نظر آتا؟
بحریہ ٹائون اور ڈی ایچ اے میں ٹریفک با ضابطہ چلتی ہے کیونکہ وہاں اکثر سڑکیں دو رویہ ہیں، اور سگنل کام کرتے ہیں، اور کہیں کہیں ٹریفک پولیس بھی نظر آتی ہے۔
ڈی ایچ اے کی فیز ۶ میں ایک گھر برائے فروخت دیکھا جو ۳ کنال پر بنا ہے اور قیمت صرف سا ٹھ کروڑ روپے سکہ رائج الوقت۔ ہاتھ بڑھایئے اور اٹھا لیجئے، بنتے ہیں، امریکہ کے دو ملین امریکن ڈالر سے کچھ زیادہ۔ امریکہ میں یہ ایک عام سی رقم ہے۔ بس جلدی سے اٹھوانے کی فکر کریں کہ گاہک کافی ہو نگے؟پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایک کنال کا گھر پونے سات کروڑ کا بھی اسی فیز ۶ میں مل رہا ہے ۔ کم رقبہ کے گھر اور سستے بھی ہیں۔بلا شبہ ڈی ایچ اے کی زمین سونے کے بھائو بکتی ہے، اور مستقبل ہرا ہی ہرا ہے۔پاکستان کے ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ ملک اس لیئے ترقی نہیں کر رہا کہ صاحبان ثروت اپنی دولت بجائے فیکٹریوں اور صنعتوں پر لگانے کی غیر منقولہ جائداد پر لگاتے ہیں، جو زمینوں اور مکانوں کی قیمت آسمان پر پہنچاتی ہیں۔یہ تو سرمایہ کاری کا اصول ہے کہ سرمایہ وہاں لگائیے جہاں منافع زیادہ ہو ۔ یا وہ سٹاک مارکیٹ پر پیسہ لگاتے ہیں، جو ایک اور غیر پیداواری سرمایہ کاری ہے۔زمین خریدنے سے اور سٹاک مارکیٹ پر پیسہ لگانے سے ملک میں روزگار کے مواقع نہیں بنتے اور فیصد شرح نمود نہیں بڑھتی۔یہ مسئلہ تو حکومت کا ہے وہی کچھ کرے تو کرے۔ وہ تو اپنی ذاتی شرح نمود بڑھانے کی فکر میں رہتی ہے۔پاکستانی اپنے ملک میں ان چیزوں پر سرمایہ لگا رہے ہیں جو پیداوار میں اضافہ نہیں کرتیں اور غیر ملکی اس لیے نہیں لگا رہے کہ ملک میں کرپشن اتنی شدید ہے کہ ایمانداری سے کوئی کاروبار کرنا ناممکن ہے۔ْ
بحریہ ٹائون، جسے ملک ریاض نے اپنی ذاتی کوششو ں اور حکومتی کمزوریوں کے منافع بخش استعمال سے بنایا۔بمقابلہ فوج کے ملک ریاض نے کمال کر دیا۔ وہاں کی جائدادیں اتنی مہنگی نہیں۔ ایک کنال کا گھر تقریباً ۶ کروڑ کا مل رہا ہے اور ساٹھ ستر لاکھ کا گھر بھی مل سکتا ہے۔رقبہ کی بات ہے۔
اگر کوئی قومی ادارہ اس وقت منافع بخش ہے تو وہ عسکریت ہے۔ عسکری منصوبوں کی خاصیت ہے کہ وہ انتہائی منتظم ہوتے ہیں۔ محنت اور منصوبہ بندی سے چلتے ہیں اور ان میں اوپر کی آمدنی پر سخت قوائدہیں۔ ایک اے آئی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی عسکری قیادت نے اس منصوبے کو فوجی جوانوں اور افسروں کو رہائش دینے کے لیے970 1کی دہائی میں لاہور میںشروع کیا تھا۔لیکن جلد ہی یہ پاکستان کی غیر منقولہ جائداد کے شعبہ کا ایک طاقتور اورموثر ادارہ بن گیا۔ 1980میں صدارتی حکم کے ذریعےکراچی میں ڈی ایچ اے کی بنیاد رکھی گئی، جس کے تحت اس ادارے کو زمین حاصل کرنے، اس کی بحالی اور انتظام کے لیے بے انداز اختیارات دئیے گئے۔ آنے والے سالوں میں ڈی ایچ ا ے ،لاہور، اسلام آباد،ملتان،گوجرانوالہ،راولپنڈی،بھاولپور، پشاور، اور کوئٹہ میں تعمیر کیے گئے۔ جن قوانین کے تحت یہ بنے، ان میں ان اداروں کو قانونی خودمختاری اور میونسپلٹی کے کچھ قوائدسے بھی استثنیٰ ملا۔لاہور کے ڈی ایچ او کو تو میونسپلٹی کا درجہ دیا گیا۔
ڈی ایچ اے عسکری ویلفیر کے ذرائع میں گراں قدر اضافہ کا باعث بنے۔ اس کے ساتھ ڈی ایچ اے پر تنقید بھی کی گئی۔ناقدین کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اے فوج کی شہری زندگی میں دخل اندازی ہے خصوصاًشہری منصوبہ بندی میںاور جائیداد کے کاروباری شعبہ میں۔علاوہ ازیں، ڈی ایچ اے کے منصوبے عوام کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیںجیسے زمینوں کا حصول، نرخوں اور الاٹمنٹ کے فیصلے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔جن سے امراء پروری اورکرپشن کے رحجان بڑھتے ہیں۔جب فوج زمینیں لیتی ہے تو مقامی آبادیاں جیسے کسان اور گاوں والے، بے گھر ہو جاتے ہیں۔ڈی ایچ اے ایک ثقافتی جزیرہ بنا لیتے ہیں جس کا اس علاقہ سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔
حالات حاضرہ یوں ہیں کہ ڈی ایچ اے میں فوجی اور شہری آبادیاں مقیم ہیں۔ اور بہت سے شہری ڈی ایچ اے میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔کیونکہ ڈی ایچ اے میں تحفظ ہے، صفائی ہے اور سہولیات ہیں۔ وہاں رہنا شان سمجھی جاتی ہے۔ اور جائیداد کے معاملے میں استحکام ہے۔ڈی ایچ اے تعلیمی اداروں، ہسپتال اور تجارتی ماحول کے لیے سازگار ہوتا ہے۔
دوسری طرف،۔ ڈی ایچ اے کی وجہ سے جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ کا رحجان ہوتا ہے ۔ ڈی ایچ اے کا نام ہی کافی ہے کہ جائداد کی قیمتیں بڑھیں گی۔سرمایہ کاروں کا اعتماد، اور اعلیٰ طرز زندگی، کی وجہ سے ڈی ایچ اے کی زمین پاکستان کی سب سے مہنگی زمین ہے۔ڈی ایچ اے کی برتری مقامی جائیدادوں کی مارکیٹ کو غیر مناسب ماحول دیتی ہے اس لیے کہ اس کی وجہ سے قیاس آرائی کے محل بنتے ہیں۔ اس کے ارد گرد کی آبادیوں میں مکانوں کی قیمتیں زیادہ ہی بڑھ جاتی ہیں۔ اس وجہ سے مکانیت متوسط اور اور کم آمدنی والوں کی قوت خرید سے باہر کر دیتی ہیں۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈی ایچ اے سرمایہ کا ایک کثیر حصہ غیر پیداواری شعبہ کی طرف منتقل کرواتی ہیں۔اور صنعتوں ، برآمدی شعبہ اور ایجادات میں سرمایہ کاری کم کرتی ہیں۔اس کے مثبت پہلووں میں ، ڈی ایچ اے کی آمدن سے فوجی پینشنروں، اور رفاہی شعبوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔اس قسم کی معیشت کو ملٹری کیپیٹلزم کہتے ہیں جس میں ملٹری کے معاشی معاملات عوامی محاسبہ سے مبرا ءہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے کہ فوج نہایت منتظم ادارہ ہے جس کا کام ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔اگراس نے اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوا ہی لیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ان کاموں میں پڑ جائے جو غیر فوجی اداروں اور شہریوں کی ذمہ واری ہے۔ کیونکہ اس طرح فوج اپنے اصل مشن سے ہٹ گئی ہے۔پاکستان کی فوج روزِ اول سے سیاست میں دلچسپی لیتی رہی ہے۔ بقول سابق صدر مشرف، یہ سیاستدان آ کر ہمیں مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو فوج کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان کو رد کرے اور پاکستان میں جمہوریت کر پنپنے کا موقع دے۔اس کی بڑی وجہ ہے کہ فوج کی تربیت اور قوائد و ضوابط اس کو قومی معیشت اور تعمیر و ترقی کے لیے تیار نہیں کرتے، اس کے لیے سویلین ادارے موجود ہیں جن میں صحیح تربیت یافتہ ، پیشہ ور افسر موجود ہیں، جن کو اقتصادیات، کامرس، معاشرتی امور اور مختلف شعبوں کو سنبھالنے کی اہلیت ہوتی ہے۔پاکستان میں سال ہا سال فوج نے حکومت کی لیکن با وجود اپنی اعلیٰ مہارتوں کے وہ ملک کے اہم شعبوں کو مضبوط نہیں بنا سکی۔ آج پاکستان نہ بجلی کا سستا اور پائدار حل تلاش کر سکا ہے، نہ ہر بچہ کو تعلیم دے سکا ہے اور نہ ہی صحت اور حفظان صحت کاایک مستقل نظام بنا سکا ہے، نہ ہی نوجوانوں کو با ہنر اور روزگار کے اہل بنا سکا ہے۔پاکستان روز اول سے کرپشن میں مبتلا ہے اور فوجی حکمرانوں نے اس سلسلے کو ختم کرنے میں کوئی نمایاں کردار نہیں ادا کیا۔جب تک پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو اپنے مسائل حل کرنے میں تیار نہیں کیا جائے گا، پچاس لاکھ کی فوج بھی یہ ملک نہیں چلا سکے گی۔