ہفتہ وار کالمز

عمران خان کا لٹمس ٹیسٹ کامیاب رہا!

اس ہفتے ہمیں اپنے پہلے ہائی سکول کی سائنس لیب کی یاد آگئی جب سائنس ٹیچر کہتے تھے کہ کسی بھی کیمیکل کی تصدیق کرنے کیلئے لٹمس ٹیسٹ کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر رنگ تبدیل ہو جائے لٹمس پیپرز کا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنے تجربے کی کامیابی کی جانب درست ڈائرکشن میں جارہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ تجربہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے اس ہفتے 5 اگست کو کیا جس کے مطابق ملک میں سینکڑوں شہروں اور مقامات میں بیک وقت جلسے اور ریلیاں نکالی گئیں اور نہ کوئی خون خرابہ ہوا اور نہ ہی 26نومبر کی طرح سے لوگوں کے سروں پر ملٹری جنرلوں کے آرڈرز پر براہ راست گولیاں داغی گئیں۔ گوادر سے لیکر گلگت تک، کراچی سے لیکر پنڈی تک، کوئٹہ سے لیکر پشاور تک اور لاہور سے لیکر اسلام آباد تک ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہروں میں بے شمار ریلیاں ملک میں نافذ غیر اعلانیہ مارشل لاء اور عمران خان کی غیر قانونی گرفتاری کے خلاف نکالی گئیں۔ سکھر ہو یا بھکر ، نوکنڈی ہو یا چوکنڈی، شہر شہر، قریہ قریہ، صوبہ صوبہ، قصبہ قصبہ، ہر جگہ پی ٹی آئی کے جھنڈے اور عمران خان کی تصویریں نظر آتی تھیں۔ اس قسم کے حقیقی آزادی کے لئے جدوجہد کے مظاہروں سے ایک بات کی تصدیق ہو گئی کہ 26 نومبر کے بعد سے لوگوں کے دلوں میں جو جرنیلوں کی گولی بازی کی وجہ سے خوف بیٹھ گیا تھا، وہ بت پاش پاش ہو گیا۔ دو شہروں میں خاص طور پر عوام الناس کا باہر نکل کر عمران خان کی رہائی کیلئے ریلیاں اور مظاہرہ کرنا بہت حاوی رہا، ایک لاہور اور دوسرا کراچی۔ان دونوں شہروں کے صوبوں میں حکومتیں عاصم منیر کی ذاتی ملازمتوں کی نمونہ پیش کرتی رہی تھیں۔ لاہور میں جنرل رانی ٹو نے جو پنجاب بھر میں فسطائیت مچائی ہوئی ہے اور پاکستانی فوج اور رینجرز کو پنجاب پولیس بنا رکھا ہے، ایسے میں لاہور میں تو ایک شخص بھی پی ٹی آئی کا پرچم یا عمران خان کی تصویر لیکر باہر نہیں نکل سکتا تھا مگر پانچ اگست کو جھانسی کی رانی خود بھی حیران رہ گئی۔ صرف ایک واقعے نے پوری دنیا میں پاکستان کی اس فوجی اور فاشسٹ حکومت کا منہ کالا کر دیا۔ پنجاب پولیس کے گبھرو جوان جب ایک 80سالہ بزرگ خاتون اور ڈار برادران کی والدہ ریحانہ ڈار کو دھکے دے کر ویگو ڈالے میں چڑھانے کی کوشش کر رہی تھی تو اس شرمناک واقعے کے ویڈیوز الجزیرہ ٹی وی سمیت آسٹریلیا سے لیکر امریکہ تک نیوز چینلز نے آن ایئر کر دئیے اور اس کے ساتھ ساتھ جنرل عاصم منیر کے وژویل بھی دکھائے۔ اگر واقعی اصلی اور نسلی سید زادہ حافظ قرآن ہوتا تو وہ مارے شرم کے خودکشی کر لیتا یا مستعفی ہو جاتا مگر ہمارے سفاک اور آئین توڑ محترم خود ساختہ فیلڈ مارشل حافظ سید جنرل عاصم منیر شاہ نے تو قرآن پر ہاتھ رکھ کر ڈھٹائی اور بے شرمی کیساتھ جینے کی قسم اٹھائی ہوئی ہے۔ حافظ جی کو نہیں معلوم کے کون سے بدعقل مشیران کو الٹے سیدھے مشورے دیتے ہیں کہ شرمندگی کا روز روز سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حافظ جی نے یہ فیصلہ کیا کہ پانچ اگست کو مظاہروں اور ریلیوں کا توڑ کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے قبضے کے حوالے سے بھرپور طریقے سے ملک بھر میں اور ملک سے باہر ’’یوم استحصال‘‘ منایا جائے تاکہ پاکستانی عوام اور دنیا کی نظریں اور توجہ ہٹ جائے۔ یہاں ہیوسٹن میں بھی پاکستانی قونصل خانے میں چند پاکستانی ایسوسی ایشین کے چاپلوس اور خوشامدی لوگوں کو ایک کمرے میں بٹھا کر اور ایک سابق ایئر کموڈور کو بلا کر یوم استحصال منایا اور یہ ساری دنیا کے پاکستان کے سفارت خانوں میں جنرل عاصم منیر کی ہدایت یا حکم پر کیا گیا۔ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ دنیا بھر کے میڈیا اور نشریاتی اداروں رائٹرز سے لیکر بی بی سی تک سب نے پانچ اگست کو نکلنے والی بے شمار ریلیوں اور مظاہروں کو اپنے اداروں میں بڑی کوریج دی کیونکہ یہ ریلیاں اور جلسے لندن سے لیکر پیرس تک ہر شہر میں بڑے پیمانے پر منعقد کئے گئے جبکہ اس نام نہاد ’’یوم استحصال‘‘ کی ٹکے کی بھی کوریج نہ دی گئی ہاں البتہ ہیوسٹن میں پی اے جی ایچ کے خوشامدی عہدیداروں نے ایک دوسرے کو بند کمرے کے اندر کئے گئے یوم استحصال کی آپس میں کھینچی گئی تصویریں ضرور شیئر کیں۔ حد تو یہ ہے کہ جب جنرل صاحب کے حکم ہر اسلام آباد میں سکولوں سے لائے گئے بچوں کو یوم استحصال کشمیرپر ہونے والی تقریبات میں میڈیا والوں نے سوال کیا کہ آج پانچ اگست والے دن کیا ہوا تھا تو بے شمار بچے اور بچیوں نے جواب دیا کہ پانچ اگست کو عمران خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ کلپس نہ صرف پورے سوشل میڈیا پر وائرل ہیں بلکہ حامد میر اور دوسرے اینکرز نے بھی اپنے اپنے شوز میں ری رن کئے۔ ہمارا خیال ہے کہ بچوں کا یہ جواب فیلڈ مارشل کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ سے کم نہیں جس نے یہ چال اپنے تئیں بہت سوچ سمجھ کر چلی تھی۔ جنرل صاحب خدا کیلئے اپنے ان بھونڈے تماشوں سے پوری فوج کو بدنام نہ کریں۔ وہ کیا ایک شعر تھا کہ؎
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے!
آپ کی ایک ایک چال بار بار یہ ثابت کررہی ہے کہ آپ ایک حقیقی جنرل نہیں بلکہ ایک بناوٹی اور کاغذی جنرل ہیں۔ آپ نے شاید اپنے مدرسے میں ضرور ٹاپ کیا ہو گا مگر زندگی میں حقیقتاً آپ ایک فلاپ جنرل ہیں جس کا احساس اب دوسرے جنرلوں کو بھی آہستہ آہستہ ہورہا ہے۔ لیکن ہم آج بھی اپنے پیارے سجیلے فوجی سپاہیوں کے ساتھ ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button