ہفتہ وار کالمز

BLASPHEMY BUSINESS

دنیا کے سامنے اس وقت دو قسم کے اسلام موجود ہیں ایک تو وہ جو قرآن میں اور سنت میں موجود ہے اور مستند تواریخ ، اس اسلام پر بہت کچھ لکھا گیا، ریسرچ ہوئی اور وہ ریسرچ عالم اسلام میں مقبول بھی ہوئی، اور اسے مانا بھی گیا، یہ خالص علمی بحث تھی جس کا انحصار دلیل و منطق پر تھا کچھ متشرقین نے اختلاف بھی کیا ان میں کچھ بڑے نام شامل ہیں مثلا CARLYLE, HILLAIRE BELLOC,G.K,CHESTERTON ان لکھنے والوں کے جواب میں عالم اسلام کے بڑے علماء نے کچھ نہیں لکھا کچھ مصری ، لبنانی، انڈین لکھنے والے بھی نظر آتے ہیں جو EX MUSLIMS ہیں انڈین ہندو لکھاریوں نے بھی چند کتابیں لکھیں ہیں مگر ان کتابوں میں BIAS موجود ہے، ایسے لکھنے والوں میں سلمان رشدی اور بنگلہ دیش کی تسلیمہ کا نام بھی لیا جاتا ہے، ایک نام طارق فتح کا بھی ہے ان لکھاریوں کی تحریروں میں بغض اور اشتعال انگیزی زیادہ ہے، اسلام پر جرمنی میں باقاعدہ ریسرچ ہوئی اس ریسرچ کے نتیجے میں ہمیں ابن خلدون بھی ملا مغرب نے اس کو RE DISCOVER کیا اور مسلمانوں کے حوالے کیا کہ یہ تمہارا روشن ستارہ ہے انیسویں صدی میں جرمنی نے امام سیوطی کو ڈھونڈ نکالا امام سیوطی کا نام اب بھی عام طور پر دورِ حاضر کے علماء نہیں جانتے البتہ اہل مسیح امام سے سیوطی کے حوالے ضرور دیتے ہیں، جہاں تک مجھے یاد ہے امام سیوطی کی پہلی کتاب بھی جرمنی سے شائع ہوئی تھی پھر اس کا ترجمہ لندن سے شائع ہوا، انگریزی قانون دانوں نے ہی رسولؐ کو دنیا کا پہلا LAW GIVER بھی مانا اور لندن کے معروف لاء اسکول نے دنیا کے جن LAW GIVERS کی فہرست آویزاں کی ہے اس میں رسولؐ کا نام سر فہرست ہے یہ ہے اسلام کا وہ رخ جو علمی سطح پر زیر بحث رہا اور مفکرین نے اسلام کا بالا استعیاب اور گہرائی سے مطالعہ کیا اور اپنے طور پر کچھ نتائج مرتب کئے ان نتائج سے آپ اتفاق یا اختلاف کر سکتے ہیں مگر ان دونوں کا انحصار دلیل منطق پر ہی ہونا چاہیے مگر عالم اسلام کے علماء کی بے حسی اور کم علمی کا یہ حال ہے کہ کسی نے سلمان رشدی کی SATANIC VERSES کا جواب نہ لکھ سکا،اسلام کا دوسرا رخ وہ ہے جو مغربی میڈیا پیش کرتا ہے، یہ تصویر وہ ہوتی ہے جو اسلامی ملکوں کے گلی کوچوں اور بازاروں اور گھروں سے لی جاتی ہے جو مساجد ، مزاروں، خانقاہوں اور مدرسوں کی ہوتی ہیں علماء کے ان تقاریر اور بیانات سے زہر کشید کیا جاتا ہے اور ان کے جہل کو آشکار کیا جاتا ہے، یہ رخ بہت غلیظ اور گندا ہوتا ہے، مسلمانوں کے اجتماعی سماج کی تصویر اتنی گندی تھی تو مغربی کالم نگاروں اور CARTOONISTS کو یہ موقع ملا کہ وہ اسلام کے اس رخ کو موضوع بنائیں، مغربی کالم نگاروں اور کارٹون بنانے والوں نے صرف سطحی طور پر ایسا نہیں کیا بلکہ اس رخ کا بھی باقاعدہ مطالعہ کیا ان کتابوں کو پڑھا جو پاکستانی بچوں کے نصاب کا حصہ ہیں ان کتابوں کا مطالعہ کیا تفسیر، حدیث اور سیرت کے موضوع پر تھی ان کتابوں سے ان کالم نگاروں اور کارٹون بنانے والوں کو بہت سا مواد مل گیا سو مزاحیہ کالم لکھے گئے ٹی وی شوز میں بھد اڑائی گئی اور کارٹون بنے ایسا ہوا تو ہم نے اسے اسلاموفوبیا کہا، یہ خیال رہے کہ مغربی میڈیا کی یہ روش 1980 سے پہلے کبھی نہ تھی جب نام نہاد افغان جہاد شروع ہوا عالم اسلام افغان جہاد روس کے خلاف لڑا جا رہا تھا روس کے بارے میں پاکستان کے علماء کچھ بھی نہ جانتے تھے سوائے اس کے کہ روسی خدا کو نہیں مانتے انہوں نے مساجد اور مدارس میں اس جہاد کے بارے میں لوگوں کو اکسایا روس کو کم اور مغرب کو زیادہ برا بھلا کہا اس کا رڈ عمل تو آنا تھا سو وہ کارٹونوں کی صورت میں آیا ان کارٹونوں کا سارا پس منظر جھوٹی اور دور از کار احادیث کا تھا یہ کارٹون بنے تو مولویوں نے ڈنمارک اور فرانس کا تو کچھ نہ بگاڑا اپنے ہی ملک کو آگ لگائی، اب جب بھی مغربی میڈیا کو پاکستان میں DISRUPTION لانی ہوتی ہے وہ ایک کارٹون بناتے ہیں اور ان پڑھ جاہل مسلمان پاگل ہو جاتے ہیں وہ عوام کی املاک کو ہی جلا دیتے ہیں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے جمیعت علمائے پاکستان معروف صنعت کار سہگل نے بنائی تھی راتوں رات نبی کا جھنڈا اونچا رہے گا کا نعرہ لگا اور جہالت نے کراچی حیدر آباد اور میر پور خاص جاہلوں کے حوالے کر دیا، مبینہ طور پرلبیک فیض حمید نے لانچ کی آنجہانی خادم رضوی تو گالیاں دے کر چلے گئے ان کا مزار بن گیا انکے دو بیٹے اب یہ کمپنی چلاتے ہیں انہوں نے نیا نعرہ وضع کیا ہے کہ گستاخ رسول کی ایک ہی سزا سر تن سے جدا، یہ جماعت گیارہ پولیس افسران کی قاتل ہے اور بے شمار معصوم لوگ ان لوگوں نے ناموس رسالت کی بے حرمتی کا الزام لگا کر قتل کر دیئے ہیں یہ MOB LYNCHING ہے سو کسی کو سزا نہیں ملتی، اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے راؤ عبدالرحیم کی سربراہی میں مبینہ طور پر ایک واٹس اپ گروپ بنایا گیا جو نوجوان بچوں کو ہنی ٹریپ کرتا تھا جس لڑکی کا نام آیا اس کا نام فاطمہ /ایمان تھا وہ لڑکوں سے رابطہ کرتی لڑکے بے حرمتی، رسول کا CONTENT فارورڈ کرتے راؤ کا گروپ اس کو ایف بی آئی کو دیتا اور اس طرح پیسے بٹورے جاتے کہا جاتا ہے کہ ایف بی آئی کا اہل کار مدثر ان کے کام آتا چار سو بچوں کو جیلوں میں ڈالا گیا چند بچے مر بھی گئے عبداللہ نامی لڑکے کا قتل بھی کرایا گیا اس مقدمے کی کاروائی نشر کی گئی مگر مین اسٹریم میڈیا نے اس مقدمے کی کوئی خبر نہ دی جسٹس اسحاق نے ایک کمیشن بنانے کا حکم جاری کیا مگر دو رکنی بینچ نے اس حکم کو معطل کر دیا مگر شنید ہے کہ یہ حکم تاحال فراہم نہیں کیا گیا کیونکہ اس حکم پر دوسرے حج کے دستخط نہیں ہیں، فیصلہ موخر کیا گیا سنا ہے ایک حج دستخط کرنے سے گریزاں تھا بلآخر اس کو منا لیا گیا اور ایک مبہم فیصلہ جاری کیا گیا باد النظری میں اس کے پیچھے حکومت موجود ہے جو مولویوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی، کمیشن بننا چاہیئے تاکہ سچ سامنے آئے، واٹس اپ پر بچوں کو ہنی ٹریپ کرنا حرمتِ رسول کو زیر بحث لانا میسج EXCHANGE کرنا اور اور مطلوبہ پوسٹ ملنے کے بعد نمبر بلاک کر دینا اور پھر یہ مواد ایف آئی اے کو فراہم کر دینا ایف آئی اے کے ایک افسر مدثر اس دھندے میں ملوث ہے آئین کی شق 295C کے تحت یہ کاروائی ہوتی ہے جو ناموسِ رسالت سے متعلق ہے، اتنے بڑے مسئلے پر حکومت کی خاموشی معنی خیز ہے مولویوں کو ناراض کرنا امن و امان کا بڑا مسئلہ پیدا کرتا ہے جس سے کمزور حکومت بہت ڈرتی ہے پختون خواہ اور بلوچستان پہلے ہی دہشت گردی کی زد میں ہیں مگر اس BLASPHEMY BUSINESS کا خاتمہ ضروری ۔ BLASPHEMY LAWS مولویوں کے ہاتھ ایک LETHAL WEAPON ہے جس کا بہت بے دردی سےسفاکانہ استعمال ہوتا ہے ایسے قوانین دنیا میں کسی اسلامی ملک میں نہیں ہیں مولویوں نے ملکی مسائل پر کبھی کوئی قانون سازی کرنے پر اپنا پریشر نہیں رکھا مگر عوام کو بلاوجہ قتل کرنے کا قانون بنانے میں دلچسپی رکھی ان دینی حلقوں کی عقل اتنی ہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button